تمثیلہ لطیف … محبت اور خلوص کی شاعرہ
زندگی ہر طرح کے حالات و واقعات سے بھری ہوئی ہے
مجھے رہنا تھا اپنی ماں کی چھاؤں میں
دوبارہ اس لیے آئی ہوں گاؤں میں
کئی دن سے پرندے مرتے جاتے ہیں
یہ کیسا زہر پھیلا ہے فضاؤں میں
الفاظ وہ نہیں جو دل سے نکلیں، الفاظ وہ ہیں جو دل سے روح میں اُتریں، کیونکہ الفاظ لہجے کو خوبصورت نہیں بناتے بلکہ آپ کا لہجہ ہی آپ کے الفاظ کو خوبصورت اور خوشبودار بناتا ہے۔ اس طرح خوبصورت الفاظ کے ساتھ خوبصورت لہجہ بات کو سحر انگیز بنا دیتا ہے۔
جس سے سننے والے آپ کی بات نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ اُس بات کی گہرائی کو دل سے محسوس بھی کرتے ہیں، لیکن اگر ہم الفاظ کا بہترین چناؤ کریں اور لہجہ اس طرز کا نہ ہو تو وہ الفاظ نہ ہی دلوں پر اثر کرتے ہیں اور نہ ہی روح میں اُترتے ہیں۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ '' الفاظ آپ کی تربیت، مزاج اور خاندان کا پتا دیتے ہیں۔'' یہ تینوں خوبیاں تمثیلہ لطیف کی شخصیت اور فن میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کا شمار دورِ حاضر کی جواں فکر شاعرات میں ہوتا ہے۔
جن کا شعری اسلوب اپنے ہم عصروں سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ خوبصورت الفاظ کا چناؤ، تخیل کی بلندی، فکر و فن کی پختگی ان کے شعری اسلوب کو دلکش بنا دیتی ہے۔ وہ اپنی فنکارانہ بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے گلستانِ سخن کی وادیوں میں ایسے پھول کھلا رہی ہے جن کی خوشبو تا دیر ادب کی فضا کو خوشگوار رکھے گی۔
ان کی شاعری میں بیک وقت روایتی انداز بھی ملتا ہے اور جدید طرزِ اظہار بھی نظر آتا ہے۔تمثیلہ لطیف غزل کی شاعرہ ہیں لیکن انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی ہے۔
ان کی حمد و نعت کا نمایاں ترین وصف سادگی ہے۔ وہ عقیدت، محبت اور احترام کے ساتھ اپنے اللہ اور اُس کے محبوبِ کبریا حضرت محمد ﷺ کی سیرت اور آپؐ کے روشن کردار کی چاندنی کو معطر اور مطاہر الفاظ کے ذریعے سے اپنے عشق اور فن کی روشنی سے نعت کی صورت میں بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ نعت کے دو اشعار دیکھیے۔
پڑھتے ہیں درود اُن پر پڑھتے ہیں سلام اُن پر
عاشق تو کبھی پل بھر بیکار نہیں رہتے
ہیں دونوں جہاں حاصل اُس در کی غلامی میں
سردار وہاں جا کر سرداأر نہیں رہتے
تمثیلہ لطیف محبت اور خلوص کی شاعرہ ہیں جو اپنے کلام کی بدولت اپنی پہچان حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انھیں نظم کی نسبت غزل لکھنا آسان لگتا ہے۔ ان کی غزلوں میں خیالات کی رنگینی، احساسات ، جذبات ، مشاہدات اور تجربات کی پختگی ان کے لطیف شعری اسلوب کو شگفتگی اور تازگی عطا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فکر و خیال، لب و لہجہ، تراکیب و تشبیہات، استعارات و ملائم اور الفاظ کی در و بست ان کی غزلوں کو دلکش بنا دیتا ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ '' کوئی ہم سفر نہیں ہے'' سترہ برس کی کم عمری میں منظرِ عام پر آیا۔
دوسرا شعری مجموعہ ''دشت میں دیپ جلے'' کے نام سے آیا۔ جس کے دیباچہ میں ممتاز راشد لاہوری رقم طراز ہے کہ ''تمثیلہ لطیف کی شاعری میں جہاں دکھوں کو سہتی ہوئی کسی حد تک مایوس لڑکی نظر آتی ہے، وہیں تیکھے تیور رکھنے والی ایک خود دار اور خود اعتماد لڑکی بھی ملتی ہے۔
زندگی ہر طرح کے حالات و واقعات سے بھری ہوئی ہے اور ایک تخلیق کار بھی مختلف ادوار کی مختلف کیفیات کو اپنی تخلیقات میں سموتا رہتا ہے۔ تمثیلہ لطیف نے بھی یہی کچھ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شاعری کے فنی تقاضوں کو بھی اپنی کئی ہم عصر شاعرات کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں پورا کیا ہے جس سے یقینا اس کی شاعری کی قدر و قیمت اور وقعت و عظمت بڑھی ہے۔''
تمثیلہ لطیف کے شعری مجموعے'' دشت میں دیپ جلے '' میں بیشتر غزلیں دشت کی تنہائیوں میں اُداس موسموں کی رم جھم بارش جیسی ہیں۔ ان کی شاعری میں دکھ اور درد سب کا مشترک ہیں۔
ان کی شاعری میں ایسے دُکھ کی جھلک نظر آتی ہے جو فراز کی شاعری میں بھی ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ وہ ماضی کی بے بس اور ظلم و ستم سہنے والی خواتین کے برعکس بہت نڈر اور صاف گو نظر آتی ہیں جو ایسے میں اپنی ردا کی نگہبانی ، اپنی عصمت کا وقار اور اپنی چار دیواری کی پاسداری بھی کرتی ہیں۔
مجھ سے کوئی سوال مت کرنا
ورنہ میں بھی جواب رکھتی ہوں
تمثیلہ لطیف اپنی غزلوں میں مشکل ردیف کافیوں کا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں، ان کا زیادہ ترکلام مترنم اور چھوٹی بحروں پر مشتمل ہیں۔انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز2004ء سے کیا۔ یوں پہلا شعر آٹھویں کلاس میں کہا۔
دامانِ خواہشات بھی سادہ نہیں ہُوا
کوئی بھی شوق اتنا زیادہ نہیں ہُوا
کچھ میں بھی اپنی ذات کے گنبد میں گم رہی
کچھ دل بھی تیرا اتنا کشادہ نہیں ہُوا
شاعری کے آغاز میں اصلاح کرنے والا کوئی نہیں تھا تب سوشل میڈیا سے کوئی رسائی نہیں تھی، ایسے میں انھیں مظفر احمد مظفر کی شفقت ، منور کنڈے کی رہنمائی اور شعاعِ نور کی محبت میسر آئی۔
وہ موجودہ دور کی ان تینوں شخصیات سے متاثر ہیں جب کہ علامہ اقبال ، ساغر صدیقی اور احمد فراز کو بہت شوق سے پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے ادبی کیریئر کا پہلا مشاعرہ 2004 میں ماہنامہ '' تارکینِ وطن '' کے زیر اہتمام اقبال ٹاؤن لاہور میں عطاء الحق قاسمی، ظفر اقبال ظفر، نیلما ناہید درانی، صوفیہ بیدار اور سعد اللہ شاہ جیسی معروف شخصیات کے ہمراہ پڑھا۔
اپنے ادبی سفر کے دوران شہرت کے نشے میں جو دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں ایسے لوگوں سے شدید نفرت کا اظہار یوں کرتی ہیں کہ '' شہرت کو نشہ اگر سمجھ کر لوگ شہرت حاصل کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے نشہ کوئی بھی ہو وقتی ہی ہوتا ہے۔'' اس کالم کے دوران میں نے تمثیلہ لطیف سے چند سوالات پوچھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ '' موجودہ ادب میں جتنا بھی کام ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے آپ کس قدر مطمئن نظر آتی ہیں؟ جس پر انھوں نے کہا کہ '' موجودہ ادب بھی گروپ بندیوں پر تقسیم ہو چکا ہے، میرے خیال سے سب اپنی دھن میں ہیں، انسانیت سے خالی عمل سے مفلوج الفاظ کے ڈھول بجھا بجا کر دکھاوا کر رہے ہیں۔''ساغر اعظمی کے بقول:
شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغر
پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں
تمثیلہ لطیف کا تیسرا شعری مجموعہ '' اشکِ تمنا '' پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے نئے خیالات اور سنجیدہ مضامین اشعار کی صورت میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جس میں سلاست اور روانی کی خوبیوں کے ساتھ شاعرہ نے الفاظ کو اشعار کی مالا میں پرو دیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں میں ہمیں غمِ ذات اور ہجر کی داستانیں سنائی دیتی ہیں۔
دوبارہ اس لیے آئی ہوں گاؤں میں
کئی دن سے پرندے مرتے جاتے ہیں
یہ کیسا زہر پھیلا ہے فضاؤں میں
الفاظ وہ نہیں جو دل سے نکلیں، الفاظ وہ ہیں جو دل سے روح میں اُتریں، کیونکہ الفاظ لہجے کو خوبصورت نہیں بناتے بلکہ آپ کا لہجہ ہی آپ کے الفاظ کو خوبصورت اور خوشبودار بناتا ہے۔ اس طرح خوبصورت الفاظ کے ساتھ خوبصورت لہجہ بات کو سحر انگیز بنا دیتا ہے۔
جس سے سننے والے آپ کی بات نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ اُس بات کی گہرائی کو دل سے محسوس بھی کرتے ہیں، لیکن اگر ہم الفاظ کا بہترین چناؤ کریں اور لہجہ اس طرز کا نہ ہو تو وہ الفاظ نہ ہی دلوں پر اثر کرتے ہیں اور نہ ہی روح میں اُترتے ہیں۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ '' الفاظ آپ کی تربیت، مزاج اور خاندان کا پتا دیتے ہیں۔'' یہ تینوں خوبیاں تمثیلہ لطیف کی شخصیت اور فن میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کا شمار دورِ حاضر کی جواں فکر شاعرات میں ہوتا ہے۔
جن کا شعری اسلوب اپنے ہم عصروں سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ خوبصورت الفاظ کا چناؤ، تخیل کی بلندی، فکر و فن کی پختگی ان کے شعری اسلوب کو دلکش بنا دیتی ہے۔ وہ اپنی فنکارانہ بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے گلستانِ سخن کی وادیوں میں ایسے پھول کھلا رہی ہے جن کی خوشبو تا دیر ادب کی فضا کو خوشگوار رکھے گی۔
ان کی شاعری میں بیک وقت روایتی انداز بھی ملتا ہے اور جدید طرزِ اظہار بھی نظر آتا ہے۔تمثیلہ لطیف غزل کی شاعرہ ہیں لیکن انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی ہے۔
ان کی حمد و نعت کا نمایاں ترین وصف سادگی ہے۔ وہ عقیدت، محبت اور احترام کے ساتھ اپنے اللہ اور اُس کے محبوبِ کبریا حضرت محمد ﷺ کی سیرت اور آپؐ کے روشن کردار کی چاندنی کو معطر اور مطاہر الفاظ کے ذریعے سے اپنے عشق اور فن کی روشنی سے نعت کی صورت میں بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ نعت کے دو اشعار دیکھیے۔
پڑھتے ہیں درود اُن پر پڑھتے ہیں سلام اُن پر
عاشق تو کبھی پل بھر بیکار نہیں رہتے
ہیں دونوں جہاں حاصل اُس در کی غلامی میں
سردار وہاں جا کر سرداأر نہیں رہتے
تمثیلہ لطیف محبت اور خلوص کی شاعرہ ہیں جو اپنے کلام کی بدولت اپنی پہچان حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ انھیں نظم کی نسبت غزل لکھنا آسان لگتا ہے۔ ان کی غزلوں میں خیالات کی رنگینی، احساسات ، جذبات ، مشاہدات اور تجربات کی پختگی ان کے لطیف شعری اسلوب کو شگفتگی اور تازگی عطا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فکر و خیال، لب و لہجہ، تراکیب و تشبیہات، استعارات و ملائم اور الفاظ کی در و بست ان کی غزلوں کو دلکش بنا دیتا ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ '' کوئی ہم سفر نہیں ہے'' سترہ برس کی کم عمری میں منظرِ عام پر آیا۔
دوسرا شعری مجموعہ ''دشت میں دیپ جلے'' کے نام سے آیا۔ جس کے دیباچہ میں ممتاز راشد لاہوری رقم طراز ہے کہ ''تمثیلہ لطیف کی شاعری میں جہاں دکھوں کو سہتی ہوئی کسی حد تک مایوس لڑکی نظر آتی ہے، وہیں تیکھے تیور رکھنے والی ایک خود دار اور خود اعتماد لڑکی بھی ملتی ہے۔
زندگی ہر طرح کے حالات و واقعات سے بھری ہوئی ہے اور ایک تخلیق کار بھی مختلف ادوار کی مختلف کیفیات کو اپنی تخلیقات میں سموتا رہتا ہے۔ تمثیلہ لطیف نے بھی یہی کچھ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شاعری کے فنی تقاضوں کو بھی اپنی کئی ہم عصر شاعرات کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں پورا کیا ہے جس سے یقینا اس کی شاعری کی قدر و قیمت اور وقعت و عظمت بڑھی ہے۔''
تمثیلہ لطیف کے شعری مجموعے'' دشت میں دیپ جلے '' میں بیشتر غزلیں دشت کی تنہائیوں میں اُداس موسموں کی رم جھم بارش جیسی ہیں۔ ان کی شاعری میں دکھ اور درد سب کا مشترک ہیں۔
ان کی شاعری میں ایسے دُکھ کی جھلک نظر آتی ہے جو فراز کی شاعری میں بھی ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ وہ ماضی کی بے بس اور ظلم و ستم سہنے والی خواتین کے برعکس بہت نڈر اور صاف گو نظر آتی ہیں جو ایسے میں اپنی ردا کی نگہبانی ، اپنی عصمت کا وقار اور اپنی چار دیواری کی پاسداری بھی کرتی ہیں۔
مجھ سے کوئی سوال مت کرنا
ورنہ میں بھی جواب رکھتی ہوں
تمثیلہ لطیف اپنی غزلوں میں مشکل ردیف کافیوں کا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں، ان کا زیادہ ترکلام مترنم اور چھوٹی بحروں پر مشتمل ہیں۔انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز2004ء سے کیا۔ یوں پہلا شعر آٹھویں کلاس میں کہا۔
دامانِ خواہشات بھی سادہ نہیں ہُوا
کوئی بھی شوق اتنا زیادہ نہیں ہُوا
کچھ میں بھی اپنی ذات کے گنبد میں گم رہی
کچھ دل بھی تیرا اتنا کشادہ نہیں ہُوا
شاعری کے آغاز میں اصلاح کرنے والا کوئی نہیں تھا تب سوشل میڈیا سے کوئی رسائی نہیں تھی، ایسے میں انھیں مظفر احمد مظفر کی شفقت ، منور کنڈے کی رہنمائی اور شعاعِ نور کی محبت میسر آئی۔
وہ موجودہ دور کی ان تینوں شخصیات سے متاثر ہیں جب کہ علامہ اقبال ، ساغر صدیقی اور احمد فراز کو بہت شوق سے پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنے ادبی کیریئر کا پہلا مشاعرہ 2004 میں ماہنامہ '' تارکینِ وطن '' کے زیر اہتمام اقبال ٹاؤن لاہور میں عطاء الحق قاسمی، ظفر اقبال ظفر، نیلما ناہید درانی، صوفیہ بیدار اور سعد اللہ شاہ جیسی معروف شخصیات کے ہمراہ پڑھا۔
اپنے ادبی سفر کے دوران شہرت کے نشے میں جو دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں ایسے لوگوں سے شدید نفرت کا اظہار یوں کرتی ہیں کہ '' شہرت کو نشہ اگر سمجھ کر لوگ شہرت حاصل کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے نشہ کوئی بھی ہو وقتی ہی ہوتا ہے۔'' اس کالم کے دوران میں نے تمثیلہ لطیف سے چند سوالات پوچھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ '' موجودہ ادب میں جتنا بھی کام ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے آپ کس قدر مطمئن نظر آتی ہیں؟ جس پر انھوں نے کہا کہ '' موجودہ ادب بھی گروپ بندیوں پر تقسیم ہو چکا ہے، میرے خیال سے سب اپنی دھن میں ہیں، انسانیت سے خالی عمل سے مفلوج الفاظ کے ڈھول بجھا بجا کر دکھاوا کر رہے ہیں۔''ساغر اعظمی کے بقول:
شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغر
پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں
تمثیلہ لطیف کا تیسرا شعری مجموعہ '' اشکِ تمنا '' پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے نئے خیالات اور سنجیدہ مضامین اشعار کی صورت میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جس میں سلاست اور روانی کی خوبیوں کے ساتھ شاعرہ نے الفاظ کو اشعار کی مالا میں پرو دیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں میں ہمیں غمِ ذات اور ہجر کی داستانیں سنائی دیتی ہیں۔