ادارے قابل احترام
سیاسی یتیم جو مایوس ہیں اور تہی دامانوں کا شکار ہیں وہی بے مقصد تصادم کو ہوا دیتے ہیں
نہ جانے کالم کا آغاز کیسے کروں؟ سمجھ سے بالاتر ہے، سیاستدانوں نے ایک افراتفری مچا رکھی ہے، طرز بیان بدل گئے ہیں ، جس کی آئے دن ویڈیوز آن ایئر ہوتی ہیں، معذرت کے ساتھ یہ بات باعث شرم ہے۔
عوام نے تو اپنی جاں نثار فوج کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی، یہ سیاسی یتیم جو مایوس ہیں اور تہی دامانوں کا شکار ہیں وہی بے مقصد تصادم کو ہوا دیتے ہیں۔
فوج نہ کسی کی توہین و تذلیل کرتی ہے بلکہ وہ اپنے طرز بیان خوش گفتاری سے قوم کا دل جیت لیتی ہے، اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے اپنے آپ کو سیاسی ہیرو سمجھتے ہیں جب کہ وہ قوم کی نگاہ میں زیرو ہیں خدارا ! جو لوگ ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں انھیں اپنا قبلہ باضابطہ ذمے داری سے درست کرنا چاہیے اور اس بیانی افرا تفریح کو ختم کرکے صراط مستقیم کا راستہ اپنانا چاہیے۔
قوم ان کے بیانات کو مردہ ڈھانچے کی طرح دیکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم فوج کا احترام کرتی ہے اور ان کی قدر و منزلت کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ بس کافی ہے ان لوگوں کے لیے جو تنقید کرتے ہیں۔
سرحدوں کی حفاظت کے لیے مائیں اپنے سپوتوں کی لاشیں (جو شہید ہیں) اٹھاتی ہیں خدارا اس بحث و مباحثے کو ختم کیجیے فوج سے ہی ملک کا وقار ہوتا ہے اور ہماری فوج تو لائق تحسین ہے جو لوگ تنقید کرتے ہیںوہ توبہ و استغفار کریں نام نہیں لکھ رہا ہوں بس یہ جملہ کافی ہے کہ وہ اصلاح کا دروازہ کھولیں۔
آپ سوچیں کہ عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اگر کوئی معزز جج کسی سے مزاح کے طور پر کوئی بات کرے تو کچھ سیاسی حضرات ان پر تنقید کرتے ہیں اپوزیشن کے لیڈر کو لاڈلہ کہا جاتا ہے معزز حج حضرات بھی ہم لوگوں کی طرح انسان ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی مزاح کے طور پر کوئی بات کرلیں تو کہا جاتا ہے کہ مجرم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے حالانکہ مجرم وہ شخص ہوتا ہے جس کا جرم ثابت ہو اور اگر اس کا جرم ثابت نہ ہو تو جب تک اس پر کیس چل رہا ہوتا ہے وہ ملزم ہوتا ہے، آج کی سیاست معزز جج حضرات پر بھی تنقید کرتی ہے۔
صرف اس لیے کہ ان کے مخالفین سے جج نے محبت سے بات کرلی تو آخر کیوں یہ لمحہ فکریہ ہے ججز حضرات بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں وہ بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں اگر کسی مخالف سے کسی ججز نے خوش گفتاری سے بات کرلی تو الزامات کی بھرمار ہوتی ہے کہ ملزم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے خدارا اس روایت کو ختم کیجیے اور اگر نہیں کرسکتے تو پھر خوش اخلاقی اور تہذیب کا نماز جنازہ پڑھ لیں اگر جج حضرات کو رب العزت نے عزت دی ہے تو سیاسی لوگوں کو لمحہ فکریہ کیوں ہے خدارا جج حضرات کے لیے قدر و منزلت کا دروازہ کھولیں کوئی ضروری نہیں کہ آپ کے حق میں فیصلہ ہو اور آپ حضرات راگ الاپنے شروع کردیں۔
کسی بھی ملک کی فوج اور عدالتیں گراں قدر اثاثہ ہوتی ہیں، ان کی شاندار تعیناتیاں ان کی محنت اور عقل و شعور کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ یہ کچھ سیاسی حضرات الٹے بیانات دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں یہ ان کی بھول ہے قوم مسائل سے الجھنے کے بعد جمود کا شکار ہوگئی ہے۔
مملکت خدا داد پر رب اپنا خصوصی رحم کرے ہر آنے والی حکومت دندناتے ہوئے بیان دیتی ہے کہ مسائل ورثے میں ملے ہیں جب آپ کو مسائل کا پتا تھا تو پھر ہاتھی کے پیر میں پازیب کیوں باندھی اور جناب اقتدار بھی ایک نشہ ہے جب کہ یہی سیاسی لوگ لندن اور دبئی میں بغیر پروٹوکول کے ٹیکسیوں میں سفر کرتے ہیں یہاں تو یہ عالم ہے کہ جو نہ وزیر ہے نہ سفیر ہے مگر پروٹوکول میں ان گنت گاڑیاں رواں دواں ہوتی ہیں۔
بغیر ثبوت و شواہد کے عدالتیں کیسے غلط فیصلہ کرسکتی ہیں اگر کسی سے معزز جج نے مسکرا کر بات کرلی تو لاڈلہ کہا جاتا ہے سیاسی طور پر اتحاد و یگانگت کا سلسلہ اب ختم ہوا بحث و مباحثہ کی جنگ جاری ہے عدالتوں کی دل آزاری کریں پھر سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ ملکی حالات تشویش ناک ہیں سیاسی طور پر کئی دہائیوں سے بے ضابطگیاں جاری ہیں۔
مسائل جوں کے توں ہیں قوم روتے روتے کہتی ہے الامان الحفیظ آج اگر لاڈلے کے لیے معزز جج نے اصولی فیصلہ کیا اور ان سے خوش گفتاری سے بات کی تو سیاسی طور پر اس کو برا منایا گیا، ہمارے معزز جج حضرات قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یہ بات سیاسی طور پر نیک شگون کے زمرے میں نہیں آتی ماضی کو دیکھیں تو معزز جج حضرات خوش گفتاری کا ہمیشہ حصہ رہے ہیں۔
وہ سیاسی حضرات جنھیں قوم نے اسمبلیوں میں بھیجا وہ اپنے سیاسی مرتبے کا خیال رکھیں اور قوم کی طرف توجہ دیں آج کی سیاست اٹھکھیلیاں کھیل رہی ہے اور لوگ ذہنی افراتفری کا شکار ہیں۔ آج لاڈلے کو لاڈلہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ معزز جج نے عمران خان کو دیکھ کر کہا آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، اس بات پر ان سیاسی حضرات نے اس کو قومی ایشو بنا دیا۔
خوابوں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سرد جنگ کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے برداشت کے دائرے میں رہ کر برداشت کریں مگر ہمارے ہاں سیاست میں اخلاقی و معاشرتی قدریں کم ہو رہی ہیں۔ یوٹیوب پر روز بہ روز نئے نئے اینکر جلوہ افروز ہوتے ہیں نیچے سرخی ہوتی ہے صرف دو دن بعد اسمبلی کو برخاست کردیا جائے گا جب اینکر کہانی سناتے ہیں تو وہ بے پر کی ہوتی ہے اور اپنی گفتگو میں اسمبلی برخاست ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے۔
یہ جو یوٹیوب پر نئے نئے اینکر جلوہ افروز ہو رہے ہیں وہ بحرانی کیفیت کی خبریں لکھ کر اپنی گفتگو میں اس بحرانی کیفیت کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں صرف اور صرف ریٹنگ کے چکر میں الٹی سیدھی سرخیاں لگا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور یہ دھندا اب کھل کر موثر نظام کا منہ چڑا رہا ہے۔
اس قسم کی الٹی سیدھی خبروں پر تبصرہ کرکے لوگوں کو یہ نئے ابھرتے ہوئے اینکر دست و گریباں کر رہے ہیں، ویسے تعلیم یافتہ طبقہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا نہ انھیں سبسکرائب کرتا ہے غیر تعلیم یافتہ طبقہ ان پر توجہ دیتا ہے مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
قانون کی افادیت کا ان کو پتا ہی نہیں ہے میری تحریر تو پھر باور کرائے گی کہ افواج پاکستان اور معزز عدالتوں سے محبت کا ثبوت دیں صرف یہ دو ادارے ہیں جنھیں قوم عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ خدارا ریاستی اداروں کو سیاسی نشانہ نہ بنایا جائے کہ یہ ملکی وقار کے ستون ہیں۔
عوام نے تو اپنی جاں نثار فوج کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی، یہ سیاسی یتیم جو مایوس ہیں اور تہی دامانوں کا شکار ہیں وہی بے مقصد تصادم کو ہوا دیتے ہیں۔
فوج نہ کسی کی توہین و تذلیل کرتی ہے بلکہ وہ اپنے طرز بیان خوش گفتاری سے قوم کا دل جیت لیتی ہے، اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے اپنے آپ کو سیاسی ہیرو سمجھتے ہیں جب کہ وہ قوم کی نگاہ میں زیرو ہیں خدارا ! جو لوگ ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں انھیں اپنا قبلہ باضابطہ ذمے داری سے درست کرنا چاہیے اور اس بیانی افرا تفریح کو ختم کرکے صراط مستقیم کا راستہ اپنانا چاہیے۔
قوم ان کے بیانات کو مردہ ڈھانچے کی طرح دیکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم فوج کا احترام کرتی ہے اور ان کی قدر و منزلت کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ بس کافی ہے ان لوگوں کے لیے جو تنقید کرتے ہیں۔
سرحدوں کی حفاظت کے لیے مائیں اپنے سپوتوں کی لاشیں (جو شہید ہیں) اٹھاتی ہیں خدارا اس بحث و مباحثے کو ختم کیجیے فوج سے ہی ملک کا وقار ہوتا ہے اور ہماری فوج تو لائق تحسین ہے جو لوگ تنقید کرتے ہیںوہ توبہ و استغفار کریں نام نہیں لکھ رہا ہوں بس یہ جملہ کافی ہے کہ وہ اصلاح کا دروازہ کھولیں۔
آپ سوچیں کہ عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اگر کوئی معزز جج کسی سے مزاح کے طور پر کوئی بات کرے تو کچھ سیاسی حضرات ان پر تنقید کرتے ہیں اپوزیشن کے لیڈر کو لاڈلہ کہا جاتا ہے معزز حج حضرات بھی ہم لوگوں کی طرح انسان ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی مزاح کے طور پر کوئی بات کرلیں تو کہا جاتا ہے کہ مجرم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے حالانکہ مجرم وہ شخص ہوتا ہے جس کا جرم ثابت ہو اور اگر اس کا جرم ثابت نہ ہو تو جب تک اس پر کیس چل رہا ہوتا ہے وہ ملزم ہوتا ہے، آج کی سیاست معزز جج حضرات پر بھی تنقید کرتی ہے۔
صرف اس لیے کہ ان کے مخالفین سے جج نے محبت سے بات کرلی تو آخر کیوں یہ لمحہ فکریہ ہے ججز حضرات بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں وہ بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں اگر کسی مخالف سے کسی ججز نے خوش گفتاری سے بات کرلی تو الزامات کی بھرمار ہوتی ہے کہ ملزم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے خدارا اس روایت کو ختم کیجیے اور اگر نہیں کرسکتے تو پھر خوش اخلاقی اور تہذیب کا نماز جنازہ پڑھ لیں اگر جج حضرات کو رب العزت نے عزت دی ہے تو سیاسی لوگوں کو لمحہ فکریہ کیوں ہے خدارا جج حضرات کے لیے قدر و منزلت کا دروازہ کھولیں کوئی ضروری نہیں کہ آپ کے حق میں فیصلہ ہو اور آپ حضرات راگ الاپنے شروع کردیں۔
کسی بھی ملک کی فوج اور عدالتیں گراں قدر اثاثہ ہوتی ہیں، ان کی شاندار تعیناتیاں ان کی محنت اور عقل و شعور کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ یہ کچھ سیاسی حضرات الٹے بیانات دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں یہ ان کی بھول ہے قوم مسائل سے الجھنے کے بعد جمود کا شکار ہوگئی ہے۔
مملکت خدا داد پر رب اپنا خصوصی رحم کرے ہر آنے والی حکومت دندناتے ہوئے بیان دیتی ہے کہ مسائل ورثے میں ملے ہیں جب آپ کو مسائل کا پتا تھا تو پھر ہاتھی کے پیر میں پازیب کیوں باندھی اور جناب اقتدار بھی ایک نشہ ہے جب کہ یہی سیاسی لوگ لندن اور دبئی میں بغیر پروٹوکول کے ٹیکسیوں میں سفر کرتے ہیں یہاں تو یہ عالم ہے کہ جو نہ وزیر ہے نہ سفیر ہے مگر پروٹوکول میں ان گنت گاڑیاں رواں دواں ہوتی ہیں۔
بغیر ثبوت و شواہد کے عدالتیں کیسے غلط فیصلہ کرسکتی ہیں اگر کسی سے معزز جج نے مسکرا کر بات کرلی تو لاڈلہ کہا جاتا ہے سیاسی طور پر اتحاد و یگانگت کا سلسلہ اب ختم ہوا بحث و مباحثہ کی جنگ جاری ہے عدالتوں کی دل آزاری کریں پھر سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ ملکی حالات تشویش ناک ہیں سیاسی طور پر کئی دہائیوں سے بے ضابطگیاں جاری ہیں۔
مسائل جوں کے توں ہیں قوم روتے روتے کہتی ہے الامان الحفیظ آج اگر لاڈلے کے لیے معزز جج نے اصولی فیصلہ کیا اور ان سے خوش گفتاری سے بات کی تو سیاسی طور پر اس کو برا منایا گیا، ہمارے معزز جج حضرات قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یہ بات سیاسی طور پر نیک شگون کے زمرے میں نہیں آتی ماضی کو دیکھیں تو معزز جج حضرات خوش گفتاری کا ہمیشہ حصہ رہے ہیں۔
وہ سیاسی حضرات جنھیں قوم نے اسمبلیوں میں بھیجا وہ اپنے سیاسی مرتبے کا خیال رکھیں اور قوم کی طرف توجہ دیں آج کی سیاست اٹھکھیلیاں کھیل رہی ہے اور لوگ ذہنی افراتفری کا شکار ہیں۔ آج لاڈلے کو لاڈلہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ معزز جج نے عمران خان کو دیکھ کر کہا آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، اس بات پر ان سیاسی حضرات نے اس کو قومی ایشو بنا دیا۔
خوابوں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سرد جنگ کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے برداشت کے دائرے میں رہ کر برداشت کریں مگر ہمارے ہاں سیاست میں اخلاقی و معاشرتی قدریں کم ہو رہی ہیں۔ یوٹیوب پر روز بہ روز نئے نئے اینکر جلوہ افروز ہوتے ہیں نیچے سرخی ہوتی ہے صرف دو دن بعد اسمبلی کو برخاست کردیا جائے گا جب اینکر کہانی سناتے ہیں تو وہ بے پر کی ہوتی ہے اور اپنی گفتگو میں اسمبلی برخاست ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے۔
یہ جو یوٹیوب پر نئے نئے اینکر جلوہ افروز ہو رہے ہیں وہ بحرانی کیفیت کی خبریں لکھ کر اپنی گفتگو میں اس بحرانی کیفیت کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں صرف اور صرف ریٹنگ کے چکر میں الٹی سیدھی سرخیاں لگا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور یہ دھندا اب کھل کر موثر نظام کا منہ چڑا رہا ہے۔
اس قسم کی الٹی سیدھی خبروں پر تبصرہ کرکے لوگوں کو یہ نئے ابھرتے ہوئے اینکر دست و گریباں کر رہے ہیں، ویسے تعلیم یافتہ طبقہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا نہ انھیں سبسکرائب کرتا ہے غیر تعلیم یافتہ طبقہ ان پر توجہ دیتا ہے مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔
قانون کی افادیت کا ان کو پتا ہی نہیں ہے میری تحریر تو پھر باور کرائے گی کہ افواج پاکستان اور معزز عدالتوں سے محبت کا ثبوت دیں صرف یہ دو ادارے ہیں جنھیں قوم عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ خدارا ریاستی اداروں کو سیاسی نشانہ نہ بنایا جائے کہ یہ ملکی وقار کے ستون ہیں۔