مدحِ شاعرانہ

سیاست دانوں کو کبھی برحق اور کبھی ناحق گرفتار کیا جاتا رہتا ہے یہ گویا سیاسی کھیل کا حصہ ہوتا ہے

9 مئی 2023 کو عمران خان صاحب کو القادر ٹرسٹ کی تشکیل اور اس کے متعلقات کے سلسلے میں بے ضابطگیوں اور مبینہ طور پر اربوں روپے کی خرد برد کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

اس سے قبل وہ متعدد ایسے مقامات میں ملوث ہیں جس کے نتیجے میں اگر مقدمے میں حقائق ثابت ہو جائیں تو وہ نا اہل بھی ہوسکتے ہیں اور قید و بند میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں مگر ایسے کسی مقدمے کے سلسلے میں سرے سے عدالت میں پیش نہیں ہو رہے تھے۔

عدالتیں ان سے پیش ہونے کی درخواستیں کرتی رہتی تھیں مگر وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر عدالتوں سے فرار اختیار کرتے رہے۔ اب یہ القادر ٹرسٹ کے معاملات میں بھی عدالت کو اپنے دیدار سے محروم رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ نیب نے جو اس مقدمے کی سماعت کر رہی تھی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور وہ ایک اور مقدمے میں پیشی کے لیے ہائی کورٹ آئے ہوئے تھے اور وہیں سے گرفتار کرلیے گئے۔

سیاست دانوں کو کبھی برحق اور کبھی ناحق گرفتار کیا جاتا رہتا ہے یہ گویا سیاسی کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ مگر عمران خان خود بھی یہ سمجھتے ہیں اور انھوں نے اپنے کارکنوں کی ذہن سازی بھی اسی طور پر کی ہے کہ گرفتاری وغیرہ دوسری جماعت کے لیڈروں کے لیے تو جائز ہے مگر ان کے لیے حرام ہے۔

چنانچہ ان کی غیر متوقع گرفتاری کی خبر ملتے ہی ان کے کارکنوں نے '' ردعمل '' کا اظہار کیا اور یہ ردعمل کسی سیاسی جماعت کا نہیں لگتا تھا،سیاسی جماعت کے کارکن ہمیشہ پرامن رہ کر احتجاج کرتے ہیں مگر 9مئی کو جو کچھ ہوا یوں لگتا تھا کہ یہ سیاسی کارکن نہیں بلکہ یہ ردعمل دہشت گردوں کا لگتا تھا۔

جس پر کچھ لوگوں نے بڑے سخت تبصرے کیے اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے روئیے سے ثابت ہوا کہ '' تحریک انصاف '' انصاف تو چھوڑیے سیاسی جماعت بھی نہیں ہے بلکہ دہشت گردوں کا ایسا ٹولہ ہے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔


اس جماعت کے ردعمل کا اظہار اس طرح ہوا کہ جو کام پاکستان کا دشمن 75 سال میں نہ کرسکا وہ انھوں نے کر دکھایا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے امور کا تعلق تو عدالتی معاملات سے تھا اس کا تعلق تو پاکستانی افواج سے کچھ بھی نہ تھا مگر ردعمل کا اظہار کرنے والوں کا اصل نشانہ فوجی تنصیبات بنیں۔

لاہور کے کورکمانڈر کے گھر کو جلا دیا گیا، اس طرح تہس نہس کیا گیا کہ کچھ باقی نہیں رہا۔ جی ایچ کیو کے باہر بھی شدید احتجاج اور توڑ پھوڑ ہوا۔ 65 کی جنگ کی یادگار، جہاز کے ماڈل کو جلا کر خاکستر کردیا گیا۔ پشاور ریڈیو اسٹیشن کو جلا ڈالا گیا، ایمبولینسیں جلائی گئیں، بسیں، ٹرک اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

مگر فوج نے برداشت کی حد کردی اور کسی جگہ ان کی توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی کارروائیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، جو غیر معمولی قوت برداشت کی علامت تھی۔یہ سب دیکھ کر محب وطن شہریوں کو انتہائی دکھ ہوا کہ کیا سیاسی کارکن جو اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور سیاسی نظام میں تبدیلی لا کر وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں ،کیا وہ ایسی گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں،یہ رویہ مثبت سوچ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے ملک کے سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنائیں،توڑ پھوڑ کریں، ایسا تو صرف وطن دشمن ہی کرتے ہیں جو ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی منافقت بھی آشکارا ہوگئی۔ وہ پبلک لی تو یہ کہتے رہے کہ یہ ہمارا ملک اور یہ ہماری فوج ہے مگر کارکنوں کو اکساتے رہے کہ وہ اسی ملک کے وسائل کو برباد کرتے رہیں اور اسی اپنی فوج کی حرمت کو پامال کریں۔ ان کا یہ کردار اس ردعمل کے دوران بالکل واضح ہو کر سامنے آگیا۔یہ لوگ ملک سے کتنے مخلص اور اس دھرتی سے کتنا پیار کرتے ہیں ،ان کے اس منافقانہ روئیے سے سب کچھ کھل کر سامنے آگیا۔

عمران خان کو ایک مخصوص طبقہ اپنے مفادات کے لیے سچا،پاکباز اور انتہائی ایماندار ہیرو بناکر پیش کر رہا ہے اور اس کے سیاسی مخالفین کو کرپٹ اور چور بنا کر پیش کر رہا ہے۔ایسی منافقانہ پالیسی زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو سکتی ،ایک نہ ایک دن سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور اصل حقیقت آشکار ہو جاتی ہے ۔

دور شہنشاہی میں درباری شعرا بادشاہوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کیے رکھتے تھے اور اس دور کے بادشاہان بھی اس کی داد دیتے تھے کہ شاعر نے ان کی تعریف کے لیے کیا پہلو نکالا ،اب بھی عمران خان کو ایک مخصوص طبقہ ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے۔یہ درباری اور مفادات کے اسیر زیادہ دیر تک اپنے عزائم چھپا نہیں سکتے ،سب کچھ ایک دن کھل کر سامنے آ جائے گا۔
Load Next Story