جنگ ماضی اور حال میں
کیا واقعی روس امریکا اور برطانیہ کی خفیہ یا عیاں طاقت سے خوفزدہ ہے
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ دنیائے عالم کے لیے جنگ کی بھڑکتی آگ ایک خوف ناک پیغام لے کر آئی ہیں۔
2014 سے جنگ کی سلگتی آگ 2022میں اس قدر بھڑکی کہ آج دونوں ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک طرف یوکرین جیسا کم وسائل والا چھوٹا ملک تو دوسری جانب بے تحاشا وسائل اور افرادی قوت سے بھرپور روس جو پیچھے ہٹنے سے گریزاں ، آگے بڑھتے رہنے اور فتح کرنے کی جستجو لیے ہوئے ہیں۔ ری یوٹرز کے ایک اندازے کے مطابق جو اعداد و شمار نظر آئے ہیں وہ تکلیف دہ ہیں۔
اب تک کی جنگ میں باسٹھ ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ ساٹھ ہزار کے قریب زخمی اور پندرہ ہزار افراد غائب ہیں اور تقریباً سترہ ملین افراد کو بے دخل کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ چالیس ہزار عمارات تباہ و برباد ہوئی ہیں اور نقصان کی مالیت چار سو گیارہ بلین امریکی ڈالرز بتائی جا رہی ہے۔
آج کے کریمیا اور روس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی اجڑی داستانوں کی زنجیر نظر آتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی عظیم شاخیں مسلم حکمرانوں کے کارنامے اور پھر زبوں حالی سے ناکامی و شکستگی کی کہانی نے آج یوکرین میں مسلمانوں کے تشخص کو کس قدر تار تار کیا کہ تاتاری کی یاد ابھر کر معدوم ہوتی ہے تو یوکرین کی جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں جہاں دنیا انسانوں کے ضیاع اور طاقت کے بے تحاشا استعمال پر شکوہ کناں ہے وہیں یہ خیال بھی ابھرتا ہے کہ کیا واقعی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
آج کا انسان جنگ و جدل اور حقوق کی پامالی اور انسانیت کی تذلیل کو ہرگز پسند نہیں کرتا لیکن سوشل میڈیا اور برقیاتی تاروں کے ہجوم ایسی ایسی کہانیاں دکھا رہے ہیں کہ دل رو پڑتا ہے۔ بے شک انسان کو رب العزت نے بہت محبت سے بنایا ہے اور اس کی ناقدری پر اشک بار ہونا فطری عمل ہے۔
بات ہو رہی تھی جنوری کے اس خطرناک حملے کی جب روس نے کریمیا پر اپنے خطرناک میزائل داغے تھے اور یوکرین ہل کر رہ گیا تھا۔ بائیس ایم کے یہ میزائل اس قدر جدید ٹیکنالوجی کے حامل تھے کہ یوکرین کی فضا میں ان کے ریڈار اس شعلوں سے بھرے میزائلوں سے بے خبر رہے۔
یوکرین کا ایئر ڈیفنس سسٹم روس کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے سامنے فیل ہو گیا۔ یہ اشارہ تھا یوکرین کے لیے کہ روس کو کسی بھی طرح سے کم سمجھنے میں یوکرین کے ساتھ ان کے حلیفوں کے لیے بھی کم عقلی ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور اب تک روس یوکرین پر دو سو سے زائد بار ایئر اٹیک کر چکا ہے۔
آج روس ایک بھپرے ہوئے شیر کی طرح ہے جو مغرب کی یوکرین کے ساتھ ساز باز پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے جنگی پلان کے زہریلے اثرات سے بھی آگاہ کرتا جا رہا ہے۔ روس یوکرین پر اپنا حق سمجھتا ہے اور اسے ناجائز نہیں جانتا، جب کہ یوکرین مغربی طاقتوں کے زیر اثر مسلسل اس نرغے سے نکلنے اور روسی افواج کو پیچھے کی جانب دھکیلنے کی کوششوں میں لگا ہے۔ روس مغرب کے عمل اور ردعمل سے خائف ہے اسی لیے اس کے بنائے ہوئے جنگی ڈھانچے کو مسترد کرچکا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے اس کے خلاف کوششیں ہی یوکرین کو مزاحمت اور حملوں پر مجبور کر رہی ہیں۔یہ وہی روس ہے جو ماضی میں ایک چھوٹی سی ریاست کے طور پر نظر آیا تھا۔ پندرہویں صدی میں کریمیا کے تاتاری مسلمانوں نے سلطنت اسلامیہ کے ساتھ وفاداری نبھاتے ماسکو اور پوش ریاستوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی تھی لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال اور مغربی طاقتوں اور مذہبی تعصب نے زوال کی جانب سفر کیا تھا آخر کار سترہویں صدی کے آخر میں ماسکو کی ریاست طاقت ور اور کریمیا کمزور ہو گیا۔ یہ کوئی ہزاروں سال پہلے کی بات نہیں ہے۔
اٹھارہویں صدی کے وسط میں روس اور یوکرینی افواج نے کریمیا کی مسلم حکومت کو کچل ڈالا اور روسی حکومت کی سرحدیں بڑھتی گئیں۔ یوں آٹھ اپریل 1783 کو کریمیا کو سلطنت روس میں شامل کرلیا گیا۔ یہاں مسلمان پہلے اکثریت میں تھے لیکن ان کے وسیع قتل عام اور ملک بدری نے انھیں اقلیت میں تبدیل کردیا اور کریمیا میں روسی باشندوں کو لا کر آباد کیا گیا۔تاریخ تو کروٹ لیتی ہے جب عظیم سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے۔
1992 کو کریمیا نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا لیکن اس علاقے کو روس نے 2014 میں اپنے اندر ضم کرلیا تھا جس نے یوکرین کے ساتھ ناتا جوڑ لیا تھا۔ آج یہ کریمیا پھر سے ایک کشمکش میں گرفتار ہے اسے روس سے زبردستی جوڑنے کا تاوان ادا کرنا ہے حالات دگرگوں ہیں، واشنگٹن نے روس کی طاقت کو توڑنے اور نیچا دکھانے کے لیے کریمیا کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یہ منصوبہ یوکرینی صدر سے میل ملاقاتوں کا ثمر ہے۔ اس منصوبے کے تحت کریمیا کے 223 مقامات کو فضائی حملوں کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی بھنک ایک صحافی کو ملی اور اس نے اسے اخبار میں چھاپ دیا۔ یوکرین کے اس صحافی کی یہ حرکت دانستہ ہے یا نادانستہ، لیکن دونوں صورتوں میں مخالفین کو جتا دینا ہے کہ حملہ شدید ہوگا جو کریمیا کو ختم کردے گا۔
روس جو پہلے ہی کسی کو بھی اس آگ کے راستے میں آنے پر ختم کر دینے کی دھن میں پہلے سے شدید ردعمل کے لیے تیار ہے جس کے لیے اس نے اپنی ویگناز فورس کو مزید مستحکم کرلیا ہے۔
اسے علم ہے کہ یوکرین کے حامی اس کے ایئر ڈیفنس سسٹم، ٹریننگ اکیڈمی، ریڈار سسٹم اور ہتھیاروں کی تیاری کے مقامات کو نہیں بخشے گا تو اس نے جنگ کا طبل بجا دیا اور کہہ دیا کہ سمجھ لیا جائے کہ اگر کریمیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو روس یوکرین کو ختم کردے گا۔روس کے سینٹ پیٹرس برگ میں قائم ویگناز فورس کا ہیڈ کوارٹر اب پوری طرح مستعد ہو چکا ہے۔
ابھی چند مہینے پہلے ہی جس طرح روس نے یوکرین کے ریڈار سسٹم کو ناکارہ کرتے ہوئے پانچ میزائل داغے تھے جس نے یوکرین کے ساتھ عالمی طاقتوں جن میں مغربی ممالک خاص کر امریکا اور برطانیہ پیش پیش ہیں حیران رہ گئے تھے لیکن وہ نہیں جانتے کہ روس نے ویگناز فورس میں ابھی اور کیسے کیسے ہتھیار اور جنگی آلات چھپا رکھے ہیں جو کسی حد تک پراسرار اور طاقتور ہیں۔
ویگناز کی خوب صورت چوبیس منزلہ شیشوں سے مزین عمارت کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس عمارت میں کیسے کیسے شیطانی منصوبے بنانے والے دماغ اور آلات و ہتھیار موجود ہیں۔آج کا زمانہ تیز تر ڈیجیٹل کا دور ہے۔ پہلی بار روس نے ویگناز فورس اور اس کے خفیہ مرکز کی نقاب پوشی ایک بھارتی نیوز چینل کے ذریعے کی،کیا یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جب یوکرین کے صحافی نے واشنگٹن کے خفیہ منصوبے کی پول اخباری صفحات پر آشکار کی۔
کیا واقعی واشنگٹن روس کی بڑھتی طاقت اور جنگی جنون کو کچل کر رکھ دینا چاہتا ہے، کیا وہ واقعی بالواسطہ اس جنگ کے میدان میں اترنا چاہتا ہے۔
کیا واقعی روس امریکا اور برطانیہ کی خفیہ یا عیاں طاقت سے خوفزدہ ہے کیا وہ جانتا ہے کہ یوکرین اور ان مغربی طاقتوں کا اشتراک روس کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے؟ یہ وہی روس اور یوکرین ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ان کے علاقوں پر گدھوں کی مانند ٹوٹ پڑے تھے جنھوں نے وہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی تھی آج ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، ہم مذہب ہیں لیکن ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔
تاریخ کیسے کیسے باب دکھاتی ہے کیا کیا داستانیں اس میں رقم ہیں لیکن ایک بات ہر دور میں واضح ہے کہ اپنی زمین سے وفاداری، اپنے رب سے محبت اور لوگوں سے حسن سلوک ناکامی کی صورت میں بھی کامیابی کے طور پر جگمگاتا رہتا ہے۔
لہٰذا انسان کو طاقتوں کے زیر اثر محفوظ سمجھنے میں ہی عافیت نہیں ہے بلکہ سچ اور حق اور خلوص ہی ہر دور میں کامیاب رہا جاسکتا ہے کہ فیصلے تو اوپر والے کے ہوتے ہیں کس کا پلڑہ بھاری رکھنا اور کیوں رکھنا ہے یہ سب تو ان کی تدبیر اور حکمت ہے ورنہ آج کریمیا اور یوکرین میں آگ کے شعلے کیوں ابھرتے۔
پیوٹن اور زیلینسکی تو محض مہرے ہیں سچ اور حق سے خائف یہ دونوں کب تک جنگ کی آگ میں سلگتے ہیں خدا جانے۔ تاریخ ایک بار پھر منتظر ہے۔
2014 سے جنگ کی سلگتی آگ 2022میں اس قدر بھڑکی کہ آج دونوں ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک طرف یوکرین جیسا کم وسائل والا چھوٹا ملک تو دوسری جانب بے تحاشا وسائل اور افرادی قوت سے بھرپور روس جو پیچھے ہٹنے سے گریزاں ، آگے بڑھتے رہنے اور فتح کرنے کی جستجو لیے ہوئے ہیں۔ ری یوٹرز کے ایک اندازے کے مطابق جو اعداد و شمار نظر آئے ہیں وہ تکلیف دہ ہیں۔
اب تک کی جنگ میں باسٹھ ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ ساٹھ ہزار کے قریب زخمی اور پندرہ ہزار افراد غائب ہیں اور تقریباً سترہ ملین افراد کو بے دخل کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ چالیس ہزار عمارات تباہ و برباد ہوئی ہیں اور نقصان کی مالیت چار سو گیارہ بلین امریکی ڈالرز بتائی جا رہی ہے۔
آج کے کریمیا اور روس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی اجڑی داستانوں کی زنجیر نظر آتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی عظیم شاخیں مسلم حکمرانوں کے کارنامے اور پھر زبوں حالی سے ناکامی و شکستگی کی کہانی نے آج یوکرین میں مسلمانوں کے تشخص کو کس قدر تار تار کیا کہ تاتاری کی یاد ابھر کر معدوم ہوتی ہے تو یوکرین کی جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں جہاں دنیا انسانوں کے ضیاع اور طاقت کے بے تحاشا استعمال پر شکوہ کناں ہے وہیں یہ خیال بھی ابھرتا ہے کہ کیا واقعی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
آج کا انسان جنگ و جدل اور حقوق کی پامالی اور انسانیت کی تذلیل کو ہرگز پسند نہیں کرتا لیکن سوشل میڈیا اور برقیاتی تاروں کے ہجوم ایسی ایسی کہانیاں دکھا رہے ہیں کہ دل رو پڑتا ہے۔ بے شک انسان کو رب العزت نے بہت محبت سے بنایا ہے اور اس کی ناقدری پر اشک بار ہونا فطری عمل ہے۔
بات ہو رہی تھی جنوری کے اس خطرناک حملے کی جب روس نے کریمیا پر اپنے خطرناک میزائل داغے تھے اور یوکرین ہل کر رہ گیا تھا۔ بائیس ایم کے یہ میزائل اس قدر جدید ٹیکنالوجی کے حامل تھے کہ یوکرین کی فضا میں ان کے ریڈار اس شعلوں سے بھرے میزائلوں سے بے خبر رہے۔
یوکرین کا ایئر ڈیفنس سسٹم روس کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے سامنے فیل ہو گیا۔ یہ اشارہ تھا یوکرین کے لیے کہ روس کو کسی بھی طرح سے کم سمجھنے میں یوکرین کے ساتھ ان کے حلیفوں کے لیے بھی کم عقلی ہوگا اور ایسا ہی ہوا اور اب تک روس یوکرین پر دو سو سے زائد بار ایئر اٹیک کر چکا ہے۔
آج روس ایک بھپرے ہوئے شیر کی طرح ہے جو مغرب کی یوکرین کے ساتھ ساز باز پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے جنگی پلان کے زہریلے اثرات سے بھی آگاہ کرتا جا رہا ہے۔ روس یوکرین پر اپنا حق سمجھتا ہے اور اسے ناجائز نہیں جانتا، جب کہ یوکرین مغربی طاقتوں کے زیر اثر مسلسل اس نرغے سے نکلنے اور روسی افواج کو پیچھے کی جانب دھکیلنے کی کوششوں میں لگا ہے۔ روس مغرب کے عمل اور ردعمل سے خائف ہے اسی لیے اس کے بنائے ہوئے جنگی ڈھانچے کو مسترد کرچکا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے اس کے خلاف کوششیں ہی یوکرین کو مزاحمت اور حملوں پر مجبور کر رہی ہیں۔یہ وہی روس ہے جو ماضی میں ایک چھوٹی سی ریاست کے طور پر نظر آیا تھا۔ پندرہویں صدی میں کریمیا کے تاتاری مسلمانوں نے سلطنت اسلامیہ کے ساتھ وفاداری نبھاتے ماسکو اور پوش ریاستوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی تھی لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال اور مغربی طاقتوں اور مذہبی تعصب نے زوال کی جانب سفر کیا تھا آخر کار سترہویں صدی کے آخر میں ماسکو کی ریاست طاقت ور اور کریمیا کمزور ہو گیا۔ یہ کوئی ہزاروں سال پہلے کی بات نہیں ہے۔
اٹھارہویں صدی کے وسط میں روس اور یوکرینی افواج نے کریمیا کی مسلم حکومت کو کچل ڈالا اور روسی حکومت کی سرحدیں بڑھتی گئیں۔ یوں آٹھ اپریل 1783 کو کریمیا کو سلطنت روس میں شامل کرلیا گیا۔ یہاں مسلمان پہلے اکثریت میں تھے لیکن ان کے وسیع قتل عام اور ملک بدری نے انھیں اقلیت میں تبدیل کردیا اور کریمیا میں روسی باشندوں کو لا کر آباد کیا گیا۔تاریخ تو کروٹ لیتی ہے جب عظیم سوویت یونین کے ٹکڑے ہوئے۔
1992 کو کریمیا نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا لیکن اس علاقے کو روس نے 2014 میں اپنے اندر ضم کرلیا تھا جس نے یوکرین کے ساتھ ناتا جوڑ لیا تھا۔ آج یہ کریمیا پھر سے ایک کشمکش میں گرفتار ہے اسے روس سے زبردستی جوڑنے کا تاوان ادا کرنا ہے حالات دگرگوں ہیں، واشنگٹن نے روس کی طاقت کو توڑنے اور نیچا دکھانے کے لیے کریمیا کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یہ منصوبہ یوکرینی صدر سے میل ملاقاتوں کا ثمر ہے۔ اس منصوبے کے تحت کریمیا کے 223 مقامات کو فضائی حملوں کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی بھنک ایک صحافی کو ملی اور اس نے اسے اخبار میں چھاپ دیا۔ یوکرین کے اس صحافی کی یہ حرکت دانستہ ہے یا نادانستہ، لیکن دونوں صورتوں میں مخالفین کو جتا دینا ہے کہ حملہ شدید ہوگا جو کریمیا کو ختم کردے گا۔
روس جو پہلے ہی کسی کو بھی اس آگ کے راستے میں آنے پر ختم کر دینے کی دھن میں پہلے سے شدید ردعمل کے لیے تیار ہے جس کے لیے اس نے اپنی ویگناز فورس کو مزید مستحکم کرلیا ہے۔
اسے علم ہے کہ یوکرین کے حامی اس کے ایئر ڈیفنس سسٹم، ٹریننگ اکیڈمی، ریڈار سسٹم اور ہتھیاروں کی تیاری کے مقامات کو نہیں بخشے گا تو اس نے جنگ کا طبل بجا دیا اور کہہ دیا کہ سمجھ لیا جائے کہ اگر کریمیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو روس یوکرین کو ختم کردے گا۔روس کے سینٹ پیٹرس برگ میں قائم ویگناز فورس کا ہیڈ کوارٹر اب پوری طرح مستعد ہو چکا ہے۔
ابھی چند مہینے پہلے ہی جس طرح روس نے یوکرین کے ریڈار سسٹم کو ناکارہ کرتے ہوئے پانچ میزائل داغے تھے جس نے یوکرین کے ساتھ عالمی طاقتوں جن میں مغربی ممالک خاص کر امریکا اور برطانیہ پیش پیش ہیں حیران رہ گئے تھے لیکن وہ نہیں جانتے کہ روس نے ویگناز فورس میں ابھی اور کیسے کیسے ہتھیار اور جنگی آلات چھپا رکھے ہیں جو کسی حد تک پراسرار اور طاقتور ہیں۔
ویگناز کی خوب صورت چوبیس منزلہ شیشوں سے مزین عمارت کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس عمارت میں کیسے کیسے شیطانی منصوبے بنانے والے دماغ اور آلات و ہتھیار موجود ہیں۔آج کا زمانہ تیز تر ڈیجیٹل کا دور ہے۔ پہلی بار روس نے ویگناز فورس اور اس کے خفیہ مرکز کی نقاب پوشی ایک بھارتی نیوز چینل کے ذریعے کی،کیا یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جب یوکرین کے صحافی نے واشنگٹن کے خفیہ منصوبے کی پول اخباری صفحات پر آشکار کی۔
کیا واقعی واشنگٹن روس کی بڑھتی طاقت اور جنگی جنون کو کچل کر رکھ دینا چاہتا ہے، کیا وہ واقعی بالواسطہ اس جنگ کے میدان میں اترنا چاہتا ہے۔
کیا واقعی روس امریکا اور برطانیہ کی خفیہ یا عیاں طاقت سے خوفزدہ ہے کیا وہ جانتا ہے کہ یوکرین اور ان مغربی طاقتوں کا اشتراک روس کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے؟ یہ وہی روس اور یوکرین ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ان کے علاقوں پر گدھوں کی مانند ٹوٹ پڑے تھے جنھوں نے وہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی تھی آج ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، ہم مذہب ہیں لیکن ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔
تاریخ کیسے کیسے باب دکھاتی ہے کیا کیا داستانیں اس میں رقم ہیں لیکن ایک بات ہر دور میں واضح ہے کہ اپنی زمین سے وفاداری، اپنے رب سے محبت اور لوگوں سے حسن سلوک ناکامی کی صورت میں بھی کامیابی کے طور پر جگمگاتا رہتا ہے۔
لہٰذا انسان کو طاقتوں کے زیر اثر محفوظ سمجھنے میں ہی عافیت نہیں ہے بلکہ سچ اور حق اور خلوص ہی ہر دور میں کامیاب رہا جاسکتا ہے کہ فیصلے تو اوپر والے کے ہوتے ہیں کس کا پلڑہ بھاری رکھنا اور کیوں رکھنا ہے یہ سب تو ان کی تدبیر اور حکمت ہے ورنہ آج کریمیا اور یوکرین میں آگ کے شعلے کیوں ابھرتے۔
پیوٹن اور زیلینسکی تو محض مہرے ہیں سچ اور حق سے خائف یہ دونوں کب تک جنگ کی آگ میں سلگتے ہیں خدا جانے۔ تاریخ ایک بار پھر منتظر ہے۔