مبارک ہو تبدیلی آ چکی ہے
بہت بڑی خبر آئی ہے بلکہ بہت بڑی بریکنگ نیوز کہئے، اور اگر حقیقت کہئے تو اس صدی تو کیا اس بنی نوع انسان۔۔
بہت بڑی خبر آئی ہے بلکہ بہت بڑی بریکنگ نیوز کہئے، اور اگر حقیقت کہئے تو اس صدی تو کیا اس بنی نوع انسان اور اس کرہ ارض کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز بھی کہہ سکتے ہیں، خبر یہ ہے کہ مملکت ناپُرسان میں
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا
جس ''تبدیلی'' کے انتظار میں آدم سے لے کر ''تا ایں دم'' بیٹھی ہوئی تھی وہ تبدیلی آ گئی ہے۔ کرہ ارض کے سب سے مثالی ملک مملکت ناپرسان میں وہ تبدیلی نہ صرف آ چکی ہے بلکہ وہاں کے سرکاری اعلانات کے مطابق نظر بھی آنے لگی ہے، اب اتنی بڑی خبر ہو اور دنیا کے سب سے بڑے چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' پر اس کے چرچے نہ ہوں ناممکن، امپاسیبل، اسمبھئو، چنانچہ ہم نے فوری طور پر اپنا خصوصی ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' تیار کر لیا اور اب آپ کے متھے مارنے ہی والے ہیں، پروگرام کے دو دانشور، تجزیہ نگار، ماہرین تو ہمارے اسٹاک میں موجود ہی تھے البتہ مہمان خصوصی کو پکڑنے میں تھوڑی سی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ موصوف چونکہ مملکت ناپرسان میں ''منتخب نمایندے'' ہیں اس لیے ''فنڈز'' کو صحیح جگہ پہنچانے تمام سرکاری عہدیداروں کو غلط جگہ ٹرانسفر کرنے اور محکموں میں اپنے چمچے گھسانے میں اتنے ''بزی'' ہیں کہ کھانا کھانے اور پانی پینے تک کی فرصت نہیں ہے چنانچہ موصوف صرف پلاؤ اور مرغا مرغی کھانے اور شراپ پینے پر گزارہ کر رہے ہیں، لیکن ہماری ریکوئسٹ پر ایک خصوصی چمچے کے تعاون سے ہم ان کو پکڑ لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، نام نامی اور اسم گرامی ان کا عالم خان انتخاب ہے اور تخلص ''فنڈ پسند'' کرتے ہیں،
اینکر : جناب فنڈ خور صاحب
ووٹر : فنڈز خور نہیں فنڈ پسند تخلص ہے میرا
اینکر : او ساری میں نے سوچا ایک ہی بات ہے
ووٹر : نہیں ایک بات نہیں ووٹر خور کا مطلب تو یہ ہوا کہ ووٹ کھانے والا ۔۔۔ لیکن میں ووٹ صرف کھاتا نہیں بلکہ ان کو جمع کر کے آگے دوسروں کو کھلاتا ہوں
چشم : مفت
ووٹر : جب مجھے مفت نہیں ملے ہیں تو آگے کسی اور کو مفت کیسے دوں
علامہ : یہ تو سیدھی کلیہ سیاسیہ تجارتیہ وزیریہ ہے
اینکر : آپ مجھے اصل موضوع پر بات تو شروع کرنے دیں ۔۔۔ ہاں تو جناب ووٹر خور یا ووٹر پسند جو کچھ بھی آپ ہیں ۔۔۔ یہ بتایئے کہ کیا واقعی مملکت ناپرسان میں تبدیلی آ گئی ہے
ووٹر : نہ صرف آ چکی ہے بلکہ دکھائی دینے بھی لگی
چشم : آپ نے بچشم خود دیکھی ہے
علامہ : بچشمہ خود کہو، عینک نہیں دیکھ رہے ہو ان کی آنکھوں پر
چشم : (ترنم سے) عینک تیری کالی
ووٹر : عینک میری کالی نہیں بلکہ سبز ہے
چشم : آپ ساون کے اندھے ہیں کیا، ہری کیوں؟ کالی بھوری نیلی کیوں نہیں
ووٹر : وہ دراصل ہمارے صوبے کے والی وارث اور گارڈ فادر نے ریاست کو ''گرین'' بنانے کے لیے کہا ہے نا ۔۔۔۔
اینکر : آپ پھر بات کو اغواء کر کے دوسری طرف لے گئے ہم تبدیلی کی بات کر رہے ہیں
ووٹر : پورے مملکت ناپرسان کا تو پتہ نہیں لیکن ہماری ریاست ''خیر پہ خیر'' میں تو تبدیلی نہ صرف آ چکی ہے بلکہ انڈے بچے چوزے بھی دینے لگی ہے
اینکر : تبدیلی کے انڈے بھی ہوتے ہیں
ووٹر : جی ہاں بہت بڑے بڑے انڈے ہوتے ہیں جن کو ''انڈے کے فنڈے'' کہتے ہیں اور ''فنڈوں کے انڈے'' بھی
اینکر : یہ جو محترمہ ہے مسماۃ تبدیلی ۔۔۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے
ووٹر : دیکھا کیا ۔۔۔ استعمال کیا ہے اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ پہلے استعمال کرو اور پھر وشواس کرو
چشم : کیسی ہے یہ مس تبدیلی
علامہ : تمہیں کیا پتہ کہ مس ہے یا مسز
چشم : پتہ تو نہیں ہے لیکن جس طرح کے اس کے چرچے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ''مس'' ہی ہو گی
علامہ : یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے
چشم : تمام کہانیوں میں جن جن ہیروئنوں کا ذکر ہوتا ہے وہ ''مس'' ہی ہوتی ہے مثلاً
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک سوداگر
لڑکی اس کی تھی ایک ماہ جبیں
شادی جس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
اینکر : یہ تم لوگ کیا فضولیات لے بیٹھے، ہمیں بات کرنے دو ۔۔۔ ہاں تو جناب یہ بتایئے کہ آپ نے تو محترمہ تبدیلی کو دیکھا ہے، کیسی ہے چندے آفتاب چندے ماہتاب یا ۔۔۔
ووٹر : کیا بتاؤں تبدیلی کا حسن اتنا کرشمہ ساز ہے،
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
اینکر : ذرا کچھ اور بتایئے آپ نے تو دیکھا ہے تبدیلی کو
ووٹر : میں نے کہا کہ استعمال بھی کیا ہے
اینکر : کیسے؟
ووٹر : وہ ایسے کہ میں نے منتخب ہوتے ہی تبدیلی کو پکڑا اور اپنے حلقے کے تمام سرکاری حلقوں کو دے مارا چنانچہ جن جن لوگوں نے الیکشن میں میری مخالفت کی تھی ان سب کو پکڑا اور یہاں وہاں پھینک دیا کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
اینکر : اچھا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ''تبدیلی'' کو خوب اچھی طرح استعمال کیا ہے
ووٹر : ایسا استعمال کیا ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے اور دفتر کو نہیں چھوڑا اور دُھنک کر رکھ دیا
چشم : مطلب یہ کہ
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
علامہ : نہیں بلکہ یوں کہو کہ تبدیلی
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اینکر : اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی وسیع پیمانے پر آئی ہے
ووٹر : اتنے وسیع پیمانے پر آئی ہے کہ پولیس کے سپاہیوں، اسکولوں کے چوکیداروں اور دفاتر کے چپراسیوں تک کو ''لگ'' پتہ گیا ۔۔۔ اتنے دور دراز پھینکوا دیے گئے کہ ساری تنخواہ صرف وہاں جانے میں صرف ہو جاتی ہے اور آنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے
اینکر : یہ تبدیلی صرف آپ کے حلقے میں آئی ہے یا ہر جگہ، اس کا ظہور ہوا ہے
ووٹر : ہر اس حلقے میں جہاں ہماری پارٹی کے منتخب نمایندے کامیاب ہوئے ہیں
اینکر : اور جہاں کامیاب نہیں ہوئے ہیں؟
ووٹر : وہاں وزیروں کو اللہ رکھے وہ تبدیلی کا طوفان لائے ہیں کہ نہ شجر بچا ہے نہ حجر
کس درجہ ترا حسن بھی آشوب جہاں ہے
جس ''ذرے'' کو دیکھا وہ تڑپتا نظر آیا
چشم : اتنے وسیع پیمانے پر تبدیلی لاتے ہوئے آپ کا دل نہیں کانپا
ووٹر : دل کیوں کانپے گا ۔۔۔ تبدیلی ہم لائے ہیں اور ہم ہی استعمال کریں گے کیوں کہ ہمیں اس کے استعمال کا حق ہے
اینکر : اچھا یہ بتایئے کہ تبدیلی کے سوا بھی آپ نے کچھ کیا ہے
ووٹر : کچھ اور کیوں کریں گے پہلے تبدیلی سے تو فارغ ہو لیں
اینکر : میں نے تو سنا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ آپ تقرریاں بھی کر رہے ہیں
ووٹر : سچ سنا ہے ۔۔۔ پچھلے ادوار میں بڑی غلط تقرریاں ہوئیں ان سب کو منسوخ کر کے نئی تقرریاں کرنا بھی تو تبدیلی کا حصہ ہے کیوں کہ ہمارا نعرہ ہے ۔۔۔ تبدیلی اور صرف تبدیلی ۔۔۔ تبدیلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا
جس ''تبدیلی'' کے انتظار میں آدم سے لے کر ''تا ایں دم'' بیٹھی ہوئی تھی وہ تبدیلی آ گئی ہے۔ کرہ ارض کے سب سے مثالی ملک مملکت ناپرسان میں وہ تبدیلی نہ صرف آ چکی ہے بلکہ وہاں کے سرکاری اعلانات کے مطابق نظر بھی آنے لگی ہے، اب اتنی بڑی خبر ہو اور دنیا کے سب سے بڑے چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' پر اس کے چرچے نہ ہوں ناممکن، امپاسیبل، اسمبھئو، چنانچہ ہم نے فوری طور پر اپنا خصوصی ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' تیار کر لیا اور اب آپ کے متھے مارنے ہی والے ہیں، پروگرام کے دو دانشور، تجزیہ نگار، ماہرین تو ہمارے اسٹاک میں موجود ہی تھے البتہ مہمان خصوصی کو پکڑنے میں تھوڑی سی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ موصوف چونکہ مملکت ناپرسان میں ''منتخب نمایندے'' ہیں اس لیے ''فنڈز'' کو صحیح جگہ پہنچانے تمام سرکاری عہدیداروں کو غلط جگہ ٹرانسفر کرنے اور محکموں میں اپنے چمچے گھسانے میں اتنے ''بزی'' ہیں کہ کھانا کھانے اور پانی پینے تک کی فرصت نہیں ہے چنانچہ موصوف صرف پلاؤ اور مرغا مرغی کھانے اور شراپ پینے پر گزارہ کر رہے ہیں، لیکن ہماری ریکوئسٹ پر ایک خصوصی چمچے کے تعاون سے ہم ان کو پکڑ لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، نام نامی اور اسم گرامی ان کا عالم خان انتخاب ہے اور تخلص ''فنڈ پسند'' کرتے ہیں،
اینکر : جناب فنڈ خور صاحب
ووٹر : فنڈز خور نہیں فنڈ پسند تخلص ہے میرا
اینکر : او ساری میں نے سوچا ایک ہی بات ہے
ووٹر : نہیں ایک بات نہیں ووٹر خور کا مطلب تو یہ ہوا کہ ووٹ کھانے والا ۔۔۔ لیکن میں ووٹ صرف کھاتا نہیں بلکہ ان کو جمع کر کے آگے دوسروں کو کھلاتا ہوں
چشم : مفت
ووٹر : جب مجھے مفت نہیں ملے ہیں تو آگے کسی اور کو مفت کیسے دوں
علامہ : یہ تو سیدھی کلیہ سیاسیہ تجارتیہ وزیریہ ہے
اینکر : آپ مجھے اصل موضوع پر بات تو شروع کرنے دیں ۔۔۔ ہاں تو جناب ووٹر خور یا ووٹر پسند جو کچھ بھی آپ ہیں ۔۔۔ یہ بتایئے کہ کیا واقعی مملکت ناپرسان میں تبدیلی آ گئی ہے
ووٹر : نہ صرف آ چکی ہے بلکہ دکھائی دینے بھی لگی
چشم : آپ نے بچشم خود دیکھی ہے
علامہ : بچشمہ خود کہو، عینک نہیں دیکھ رہے ہو ان کی آنکھوں پر
چشم : (ترنم سے) عینک تیری کالی
ووٹر : عینک میری کالی نہیں بلکہ سبز ہے
چشم : آپ ساون کے اندھے ہیں کیا، ہری کیوں؟ کالی بھوری نیلی کیوں نہیں
ووٹر : وہ دراصل ہمارے صوبے کے والی وارث اور گارڈ فادر نے ریاست کو ''گرین'' بنانے کے لیے کہا ہے نا ۔۔۔۔
اینکر : آپ پھر بات کو اغواء کر کے دوسری طرف لے گئے ہم تبدیلی کی بات کر رہے ہیں
ووٹر : پورے مملکت ناپرسان کا تو پتہ نہیں لیکن ہماری ریاست ''خیر پہ خیر'' میں تو تبدیلی نہ صرف آ چکی ہے بلکہ انڈے بچے چوزے بھی دینے لگی ہے
اینکر : تبدیلی کے انڈے بھی ہوتے ہیں
ووٹر : جی ہاں بہت بڑے بڑے انڈے ہوتے ہیں جن کو ''انڈے کے فنڈے'' کہتے ہیں اور ''فنڈوں کے انڈے'' بھی
اینکر : یہ جو محترمہ ہے مسماۃ تبدیلی ۔۔۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے
ووٹر : دیکھا کیا ۔۔۔ استعمال کیا ہے اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ پہلے استعمال کرو اور پھر وشواس کرو
چشم : کیسی ہے یہ مس تبدیلی
علامہ : تمہیں کیا پتہ کہ مس ہے یا مسز
چشم : پتہ تو نہیں ہے لیکن جس طرح کے اس کے چرچے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ''مس'' ہی ہو گی
علامہ : یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے
چشم : تمام کہانیوں میں جن جن ہیروئنوں کا ذکر ہوتا ہے وہ ''مس'' ہی ہوتی ہے مثلاً
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
اس میں رہتا تھا ایک سوداگر
لڑکی اس کی تھی ایک ماہ جبیں
شادی جس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
اینکر : یہ تم لوگ کیا فضولیات لے بیٹھے، ہمیں بات کرنے دو ۔۔۔ ہاں تو جناب یہ بتایئے کہ آپ نے تو محترمہ تبدیلی کو دیکھا ہے، کیسی ہے چندے آفتاب چندے ماہتاب یا ۔۔۔
ووٹر : کیا بتاؤں تبدیلی کا حسن اتنا کرشمہ ساز ہے،
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
اینکر : ذرا کچھ اور بتایئے آپ نے تو دیکھا ہے تبدیلی کو
ووٹر : میں نے کہا کہ استعمال بھی کیا ہے
اینکر : کیسے؟
ووٹر : وہ ایسے کہ میں نے منتخب ہوتے ہی تبدیلی کو پکڑا اور اپنے حلقے کے تمام سرکاری حلقوں کو دے مارا چنانچہ جن جن لوگوں نے الیکشن میں میری مخالفت کی تھی ان سب کو پکڑا اور یہاں وہاں پھینک دیا کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
اینکر : اچھا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ''تبدیلی'' کو خوب اچھی طرح استعمال کیا ہے
ووٹر : ایسا استعمال کیا ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے اور دفتر کو نہیں چھوڑا اور دُھنک کر رکھ دیا
چشم : مطلب یہ کہ
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
علامہ : نہیں بلکہ یوں کہو کہ تبدیلی
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اینکر : اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی وسیع پیمانے پر آئی ہے
ووٹر : اتنے وسیع پیمانے پر آئی ہے کہ پولیس کے سپاہیوں، اسکولوں کے چوکیداروں اور دفاتر کے چپراسیوں تک کو ''لگ'' پتہ گیا ۔۔۔ اتنے دور دراز پھینکوا دیے گئے کہ ساری تنخواہ صرف وہاں جانے میں صرف ہو جاتی ہے اور آنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے
اینکر : یہ تبدیلی صرف آپ کے حلقے میں آئی ہے یا ہر جگہ، اس کا ظہور ہوا ہے
ووٹر : ہر اس حلقے میں جہاں ہماری پارٹی کے منتخب نمایندے کامیاب ہوئے ہیں
اینکر : اور جہاں کامیاب نہیں ہوئے ہیں؟
ووٹر : وہاں وزیروں کو اللہ رکھے وہ تبدیلی کا طوفان لائے ہیں کہ نہ شجر بچا ہے نہ حجر
کس درجہ ترا حسن بھی آشوب جہاں ہے
جس ''ذرے'' کو دیکھا وہ تڑپتا نظر آیا
چشم : اتنے وسیع پیمانے پر تبدیلی لاتے ہوئے آپ کا دل نہیں کانپا
ووٹر : دل کیوں کانپے گا ۔۔۔ تبدیلی ہم لائے ہیں اور ہم ہی استعمال کریں گے کیوں کہ ہمیں اس کے استعمال کا حق ہے
اینکر : اچھا یہ بتایئے کہ تبدیلی کے سوا بھی آپ نے کچھ کیا ہے
ووٹر : کچھ اور کیوں کریں گے پہلے تبدیلی سے تو فارغ ہو لیں
اینکر : میں نے تو سنا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ آپ تقرریاں بھی کر رہے ہیں
ووٹر : سچ سنا ہے ۔۔۔ پچھلے ادوار میں بڑی غلط تقرریاں ہوئیں ان سب کو منسوخ کر کے نئی تقرریاں کرنا بھی تو تبدیلی کا حصہ ہے کیوں کہ ہمارا نعرہ ہے ۔۔۔ تبدیلی اور صرف تبدیلی ۔۔۔ تبدیلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔