عجلت
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں جمہوریت کے نام پر میڈیا کے ادارے یا چینل برہنہ تلوار لیے کھڑے ہوں ۔۔۔
معروف اینکر پرسن حامد میر کراچی ایئرپورٹ سے مین روڈ شاہراہ فیصل پر گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے جو یقیناً ایک سانحے سے کم نہیں۔ ان کے ڈرائیور کی ہوشمندی نے بروقت انھیں اسپتال پہنچا دیا اور وہ بہ فضل خدا صحت یابی کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر گولی لگنے کے بعد جس قسم کی خبریں ایک موثر ٹی وی چینل سے چلائی گئیں وہ نہ صرف ایک غیر ذمے داری کا ثبوت تھیں بلکہ ایک بچگانہ طریقہ کار تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ چینل کو حملے کے چند منٹ بعد ہی حملہ آور کا علم ہو گیا ۔
یہ صحافت میں آدمی تو آدمی ہوتا ہے کتنا ہی غیر جانبدار ہو اس کا قلم کسی وقت بھی کسی بھی زیادتی کے نتیجے میں کسی بھی زاویے سے کسی کا ہمدرد اور کسی کے خلاف ہو سکتا ہے اور یہی حال چینل کا ہے۔ کسی بھی واقعے پر کسی بھی چینل کا فرد کسی واقعے کے پس منظر میں ڈوب کر حمایتی یا مخالف ہو سکتا ہے اور یہی کچھ حامد میر کے ساتھ ہوا مگر یہ کہنا کہ ایجنسی اس کو گولی مار کے ہٹائے گی درست نہیں کیوں کہ اس کو راستے سے ہٹانے کے کئی متبادلات موجود ہیں۔ مگر جس طرح اس خبر کو چلایا گیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ اس خبر کا چلانا کسی کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ تو یہ ہدف تو بین الاقوامی طور پر حاصل ہو گیا اس سے ادارے کی ناپختگی نمایاں ہے، بعد ازاں معافی۔ اس کو مرزا غالبؔ کی زبان میں کچھ یوں کہا جا سکتا ہے۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
خیر جو ہوا سو ہوا مگر اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ مجرم جلد بے نقاب ہوں گے کیوں کہ یہ معاملہ ایک ایجنسی کے خلاف دشنام طرازی کا ہے اور اگر اصل مجرم بے نقاب ہوئے اور یاوہ نہ ہوئے جن پر الزام لگا تومعاملہ کس قدر پر خطر ہو گا'اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ رہ گیا کہ ایک کمیشن بنے گا اور بن گیا وہ بھی عجلت میں تو جناب جس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا ہو بس اس کا کمیشن۔ ملک دو لخت ہوا، حمود الرحمن کمیشن کیا ہوا؟ اصغر خان کیس کا معاملہ کیا ہوا، کون بری ہوا اور کون بے نقاب، حسین حقانی کے کیس کا کیا ہوا، رہ گیا تھریٹ (Threat) شدید دھمکی کا تو محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے جن دھمکیوں کی جانب اشارہ کیا تھا ان کے بجائے حملہ کہیں اور سے ہوا یہ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر دو افراد یا نظریات کے لوگوں میں تصادم کی خبر عام ہو جائے تو پھر ایسے موقعے سے تیسری قوت فائدہ اٹھا لیتی ہے۔
اس طرح تضادات اور شدید ہو جاتے ہیں اور تیسری قوت کا الو سیدھا ہو جاتا ہے یقیناً اس واقعے میں کسی تیسری قوت کا عمل دخل ضروری ہے خصوصاً ایسے وقت پر جب عسکری اور غیر عسکری لیڈر شپ میں تنائو بڑھتا نظر آ رہا ہے اور شاہانہ جمہوریت اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جمہوریت کے قائدین ایک طرف تو وہ حامد میر کی عیادت کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھا عمل ہے مگر دوسری جانب اس عمل کو اس تاثر کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ یہ آئی ایس ائی کے خلاف یکجہتی کا ایک عمل ہے مگر یہ تاثر اس لیے قائم ہو رہا ہے کہ حکومت اور فوجی قیادت میں بدستور تنائو جاری ہے۔ ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عدالتی کمیشن تو عجلت میں قائم کر دیا گیا مگر ایف آئی آر اب جا کر نا معلوم ملزمان کے خلاف درج ہوئی۔ محض اس لیے فوری درج نہ ہوئی کہ اس میں کچا پن تھا پختگی نہ تھی کیوں کہ جذبات کے بعد جب ہوش آیا تو محسوس کیا کہ زبان کا تیر چل چکا۔
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں جمہوریت کے نام پر میڈیا کے ادارے یا چینل برہنہ تلوار لیے کھڑے ہوں اور تمام اخلاقیات بالائے طاق رکھے کھڑے ہوں۔ آزادی صحافت کیا اسی عمل کو کہہ سکتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر خاص آدمی بھی محفوظ نہیں۔ آئے دن کراچی میں جو لاشیں گر رہی ہیں یہ بھی تو اسی عمل کا حصہ ہو سکتا ہے۔ کوئی گروہ، کوئی حلقہ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ حامد میر کی گفتگو کو ہرزہ سرائی سمجھتا ہو اور اس کا آئی ایس آئی سے تعلق نہ ہو۔ مگر چونکہ یہ بات اب عام لوگوں تک پہنچ چکی ہے کہ عسکری قوت اور پاکستان کی جمہوری قوت کے رہنما ایک صفحے پر نہیں ہیں اس کا اثر ظاہر ہے مختلف سمتوں میں ہو گا اور شکوک در شکوک کے دریچے کھلتے چلے جائیں گے اور معاملات کچھ اس انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں جیسے دونوں سمت سے صف آرائی ہو رہی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ فوج کا رویہ تحمل کا ہے۔
لیکن مسنگ پرسن (Missing Persons) غائب شدہ لوگ اور مسخ شدہ لاشوں پر حامد میر نے جو پروگرام کرائے اس پر ممکن ہو کہ حامد میر اور ایجنسی میں اختلاف ہو مگر یہ سمجھنا کہ یہ اختلاف جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے امکانات معدوم ہیں، لہٰذا جو لوگ اس واقعے کا رخ موڑنا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ تصادم کے نئے رخ کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر روز ان معاملات کو جس طرح پیش کیا جا رہا ہے اس سے جمہوریت کی موجودہ قسم کو کوئی فائدہ ہرگز نہ ہو گا اور جمہوریت کا یہ چکر زیادہ عرصے گردش نہ کر سکے گا۔ بیرون دنیا سے آنے والے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ جمہوریت کے کڑے وقت پر یہ ریت کی دیوار سے بھی کم تر ثابت ہوں گی۔
یہ صحافت میں آدمی تو آدمی ہوتا ہے کتنا ہی غیر جانبدار ہو اس کا قلم کسی وقت بھی کسی بھی زیادتی کے نتیجے میں کسی بھی زاویے سے کسی کا ہمدرد اور کسی کے خلاف ہو سکتا ہے اور یہی حال چینل کا ہے۔ کسی بھی واقعے پر کسی بھی چینل کا فرد کسی واقعے کے پس منظر میں ڈوب کر حمایتی یا مخالف ہو سکتا ہے اور یہی کچھ حامد میر کے ساتھ ہوا مگر یہ کہنا کہ ایجنسی اس کو گولی مار کے ہٹائے گی درست نہیں کیوں کہ اس کو راستے سے ہٹانے کے کئی متبادلات موجود ہیں۔ مگر جس طرح اس خبر کو چلایا گیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ اس خبر کا چلانا کسی کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ تو یہ ہدف تو بین الاقوامی طور پر حاصل ہو گیا اس سے ادارے کی ناپختگی نمایاں ہے، بعد ازاں معافی۔ اس کو مرزا غالبؔ کی زبان میں کچھ یوں کہا جا سکتا ہے۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
خیر جو ہوا سو ہوا مگر اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ مجرم جلد بے نقاب ہوں گے کیوں کہ یہ معاملہ ایک ایجنسی کے خلاف دشنام طرازی کا ہے اور اگر اصل مجرم بے نقاب ہوئے اور یاوہ نہ ہوئے جن پر الزام لگا تومعاملہ کس قدر پر خطر ہو گا'اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ رہ گیا کہ ایک کمیشن بنے گا اور بن گیا وہ بھی عجلت میں تو جناب جس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا ہو بس اس کا کمیشن۔ ملک دو لخت ہوا، حمود الرحمن کمیشن کیا ہوا؟ اصغر خان کیس کا معاملہ کیا ہوا، کون بری ہوا اور کون بے نقاب، حسین حقانی کے کیس کا کیا ہوا، رہ گیا تھریٹ (Threat) شدید دھمکی کا تو محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے جن دھمکیوں کی جانب اشارہ کیا تھا ان کے بجائے حملہ کہیں اور سے ہوا یہ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر دو افراد یا نظریات کے لوگوں میں تصادم کی خبر عام ہو جائے تو پھر ایسے موقعے سے تیسری قوت فائدہ اٹھا لیتی ہے۔
اس طرح تضادات اور شدید ہو جاتے ہیں اور تیسری قوت کا الو سیدھا ہو جاتا ہے یقیناً اس واقعے میں کسی تیسری قوت کا عمل دخل ضروری ہے خصوصاً ایسے وقت پر جب عسکری اور غیر عسکری لیڈر شپ میں تنائو بڑھتا نظر آ رہا ہے اور شاہانہ جمہوریت اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جمہوریت کے قائدین ایک طرف تو وہ حامد میر کی عیادت کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھا عمل ہے مگر دوسری جانب اس عمل کو اس تاثر کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ یہ آئی ایس ائی کے خلاف یکجہتی کا ایک عمل ہے مگر یہ تاثر اس لیے قائم ہو رہا ہے کہ حکومت اور فوجی قیادت میں بدستور تنائو جاری ہے۔ ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عدالتی کمیشن تو عجلت میں قائم کر دیا گیا مگر ایف آئی آر اب جا کر نا معلوم ملزمان کے خلاف درج ہوئی۔ محض اس لیے فوری درج نہ ہوئی کہ اس میں کچا پن تھا پختگی نہ تھی کیوں کہ جذبات کے بعد جب ہوش آیا تو محسوس کیا کہ زبان کا تیر چل چکا۔
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں جمہوریت کے نام پر میڈیا کے ادارے یا چینل برہنہ تلوار لیے کھڑے ہوں اور تمام اخلاقیات بالائے طاق رکھے کھڑے ہوں۔ آزادی صحافت کیا اسی عمل کو کہہ سکتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر خاص آدمی بھی محفوظ نہیں۔ آئے دن کراچی میں جو لاشیں گر رہی ہیں یہ بھی تو اسی عمل کا حصہ ہو سکتا ہے۔ کوئی گروہ، کوئی حلقہ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ حامد میر کی گفتگو کو ہرزہ سرائی سمجھتا ہو اور اس کا آئی ایس آئی سے تعلق نہ ہو۔ مگر چونکہ یہ بات اب عام لوگوں تک پہنچ چکی ہے کہ عسکری قوت اور پاکستان کی جمہوری قوت کے رہنما ایک صفحے پر نہیں ہیں اس کا اثر ظاہر ہے مختلف سمتوں میں ہو گا اور شکوک در شکوک کے دریچے کھلتے چلے جائیں گے اور معاملات کچھ اس انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں جیسے دونوں سمت سے صف آرائی ہو رہی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ فوج کا رویہ تحمل کا ہے۔
لیکن مسنگ پرسن (Missing Persons) غائب شدہ لوگ اور مسخ شدہ لاشوں پر حامد میر نے جو پروگرام کرائے اس پر ممکن ہو کہ حامد میر اور ایجنسی میں اختلاف ہو مگر یہ سمجھنا کہ یہ اختلاف جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے امکانات معدوم ہیں، لہٰذا جو لوگ اس واقعے کا رخ موڑنا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ تصادم کے نئے رخ کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر روز ان معاملات کو جس طرح پیش کیا جا رہا ہے اس سے جمہوریت کی موجودہ قسم کو کوئی فائدہ ہرگز نہ ہو گا اور جمہوریت کا یہ چکر زیادہ عرصے گردش نہ کر سکے گا۔ بیرون دنیا سے آنے والے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ جمہوریت کے کڑے وقت پر یہ ریت کی دیوار سے بھی کم تر ثابت ہوں گی۔