خبردار خُودکُشی حرام ہے۔۔۔۔۔۔۔

اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خود کشی انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے

اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خود کشی انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے۔ فوٹو: فائل

خود کشی، بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے۔ یہ کم زور و مایوس لوگوں کے لیے زندگی کے مسائل و مشکلات، آزمائشوں اور ذمے داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ایک غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے۔

اس وقت پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کشی کا رجحان آئے دن بڑھتا جا رہا ہے۔

مغربی ممالک میں تو اخلاقی اور سماجی نظام کے انتشار کے سبب خود کشی کے واقعات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ خود کشی انسان کا نجی حق تسلیم کیا جائے۔

چناں چہ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں، خودکشی کی یہ شرح ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے، دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ فی صد ہے اور اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے، اِس کا مرتکب اﷲ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اﷲ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اﷲ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ بہ ہر صورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانۂ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔

یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ ہلاکت میں ڈالنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔

ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک! اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔'' (البقرۃ: 195)

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ''اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک! اﷲ تم پر مہربان ہے اور جو کوئی ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عن قریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔'' (النساء: 29، 30)

حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔'' (بخاری) یہ حکمِ نبوی ﷺ واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، تو کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام خودکُش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اپنی جان کے ساتھ دوسرے پُرامن شہریوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے کی اجازت دے! حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کے بارے میں فرمایا، مفہوم: ''وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔''

اور خودکش دہرے عذاب کا مستحق ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔'' (بخاری)


حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لیے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہاں ہمیشہ سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، یا پھر ہمیشہ ہمیشہ سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

اگر کوئی شخص خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تب تو ہمیشہ اس کی یہ سزا ہوگی، اور اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کو مباح سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے جب چاہے معاف کرکے جنت میں داخل کردے۔

اﷲ تعالیٰ نے خود کشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہوگیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔'' (بخاری)

اور دوران جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے۔ ایک غزوہ میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔

بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بہ ظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اﷲ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔

اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ قتلِ عمد کی سزا موت ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے شدید اور دردناک عذاب کی وعید ہے۔

جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل حتی کہ اپنی جان کو بھی تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کے جان و مال کو تلف کرنے کی اجازت دے! لہٰذا جو لوگ نوجوانوں کو خون ریزی اور قتلِ عام پر اُکساتے ہیں اور جو نوجوان ایسے گم راہ لوگوں کے کہنے پر خود کش حملوں میں حصہ لیتے ہیں۔

دونوں ناصرف دنیا میں اسلامی تعلیمات سے اِنحراف کے مرتکب ہوتے ہیں بل کہ آخرت میں بھی شدید عذاب کے حق دار ہیں۔ کیوں کہ وہ اسلام جیسے پرامن اور متوازن دین کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں اور پوری اِنسانیت کو نفرتوں کی آگ میں دھکیلنے کا سبب بھی۔

یاد رکھیں! خود کشی کرنا شاید آسان حل لگتا ہو لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ یہ کئی دیگر مسائل کی ابتدا ہے لہذا اپنی زندگی کی قدر کیجیے، اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر کیجیے۔ اپنے ذہن کو منفی سوچوں کی آماج گاہ نہ بننے دیجیے کسی بھی پریشانی کا آغاز منفی سوچ سے ہی ہوتا ہے اسی طرح مثبت رویہ اپنا کر ہم بہت سارے مسائل سے نجات پاسکتے ہیں۔

آج کے اس مادی دور میں ہر انسان کو سکون کی تلاش ہے اور اﷲ تعالی نے سکون اپنے ذکر میں رکھا ہے اﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، اسی طرح احادیث میں مختلف اوقات کی جو دعائیں منقول ہیں اور غم اور پریشانی کے اوقات اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن دعاؤں کی تلقین کی ہے ہمیں ان پر پابندی سے عمل کرنا چاہیے۔

اﷲ تعالی ہمیں اپنی رضا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
Load Next Story