جمہوری قید خانہ
یہ حکمراں حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے’’محبت اور نفرت‘‘ کی تھیوری پر عمل در آمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں
''تحفظ پاکستان بل کے تحت 90 روز تک کسی بھی شخص کو بلا وارنٹ قید میں رکھا جا سکتا ہے ،موقع پہ بھاگتے ہوئے شوٹ کیا جا سکتا ہے،تشدد کیا جاسکتاہے ، پوچھ گچھ کے نام پر نا معلوم مقام پر مقید رکھا جا سکتا ہے اور قید تنہائی میں بھی ۔ یقیناً ان عوامل کے دوران اگر قیدی ہلاک ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ حکمرانوں کے پاس اس کا کوئی ادراک ہے اور نہ کوئی جواب ۔ اس میں کچھ باتیں تو بڑی واضح ہو جاتی ہیں کہ بلوچستان میں لوگوں کو لا پتہ کرنے والوں کو تحفظ دینا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو اگر یہ قانون بن گیا تو شہری آزادیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پرست بلاول نے کہا کہ'' اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے توایک دن وزیر اعظم کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔''
ادھر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نے کہا کہ '' ایم کیو ایم تحفظ پاکستان بل 2014 ء کے نام پر مسلط کیے جانے والے غیر قانونی اور غیر انسانی کالے قانون کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کرے گی۔'' اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تحفظ پاکستان بل کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ اسے رد کر دیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے سوا کسی نے بھی اس بل کی حمایت نہیں کی ۔ بلکہ نوبت یہاں تک آگئی کہ بل کی کاپیاں اسمبلی میں برملا اسپیکر کے سامنے پھاڑی گئیں۔ اب یہ بل سینیٹ میں پیش ہونے پر مسترد ہوگیا اب قومی اسمبلی سے سادہ اکثریت میں پاس کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد حزب اختلاف سپریم کورٹ میں جا سکتی ہے ۔ اگر سپریم کورٹ نے اس بل کے خلاف فیصلہ دیا تو پھر ایک بار حکومت اور عدلیہ کے مابین تنائو اور بدمزگی پیدا ہو گی اور اسمبلی اس پر عمل در آمد کر بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔
یہ تضادات پاکستان کے ہر ادارے اور پارٹیوں میں موجود ہیں ، مسلم لیگ ن کے اندر جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے اندر ، پی پی پی کے اندر ، پولیس اور رینجرز کے درمیان حتیٰ کہ مساجد کے اندر ، مزارات اور گدی نشینوں کے اندر وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ بیانات تو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں کھل کر آرہے ہیں۔ پی پی پی متضاد بیانات دے رہی ہے ۔ خورشید شاہ اور اعتزاز حسن کے بیانات مختلف ہیں۔ پرویز رشید اور رفیق سعد کے بیانات مختلف ہیں ۔ جماعت اسلامی کے منور حسن اور سراج الحق کے بیانات مختلف ہیں۔ اسی طرح طالبان کے مختلف دھڑوں کے بیانات بھی مختلف ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک قریبی دوست اور کرم فرما شکیل احمد نے تجویز دی کہ تحفظ پاکستان بل پر کچھ لکھیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ حکمرانوں کے کھیل ہیں کہ عوام کو نان ایشوز پر الجھا دیں جس میں وہ دال دلیہ کی پریشانیوں پر رد عمل نہ کر سکیں۔
انھوں نے ازراہ مذاق میں کہا کہ یہ کھیل تو آج سے نہیں ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں، تو آپ بھی اپنا کھیل دکھائیں۔پھر میں نے چونکہ ان سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں اس پر کچھ ضرور لکھوں گا، اس لیے قلم اٹھانے کی کوشش کی ۔ اس بل میں ایک بات یہ ہے کہ'' ہم آپ پہ شک کرتے ہیں'' ۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص ''اللہ دتہ قطعی بے قصور ہے اور وہ گھر کا واحد خود کفیل ہے ، اس کے پانچ بچے ہیں، روز کا کمانا کھانا اس کا مقدر ہے ، اگر اسے 90 روز قید میں رکھا جائے اور 91 ویں روز چھوڑ کے اسے یہ کہا جائے کہ آپ بے قصور ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ فرض کریں کہ ایک اور شخص سیف ہے وہ ایک تاجر ہے ، اسے قید کر لیا جاتا ہے ۔ اس کے تجارت کا ایک تانہ بانہ ہے۔
اس کی گرفتاری سے اگر فیکٹری اور در آمد، بر آمد رک جاتی ہے ، کیا وہ 90 روز کے بعد واپس آکر کام سنبھالنے کا اہل ہو سکتا ہے اور حکومت بھی اس کی کوئی گارنٹی دے سکتی ہے؟ اگر کسی طالب علم کا ایک ہفتے بعد فائنل امتحان ہے اور اسے قید کر لیا جاتا ہے، پھر امتحانات کے اوقات اور تاریخیں نکل جاتی ہیں تو اس کا سال ضایع ہو جاتا ہے اور مستقبل کا ذمے دار کون ہو گا؟نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ پاکستانی شہری اس قید خانے کو خیر باد کہہ کر بیرونی ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اس لیے کہ آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نان اشوز پر سیاسی جماعتیں اکثر ہڑتالیں کرتی ہیں مگر اس اہم انسانی اور بنیادی حقوق کی کھلم کھلا اسمبلی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمراں بل پاس کرنے پر اتر آتے ہیں تو اس کے رد عمل میں کوئی ہڑتال کی کال دیتا ہے اور نہ اسمبلی کا مستقل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتا ہے۔
یہ حکمراں حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے(لو اینڈ ہیٹ) ''محبت اور نفرت'' کی تھیوری پر عمل در آمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،اس لیے کہ ہر ایک اپنے مفادات سے وابستہ ہے ۔ اس وقت بہت سے اداروں کے ملازمین کو مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں ، بہت سے اداروں کے محنت کشوں کو اداروں کی نجکاری سے بے روزگار ہونے کا خوف ہے، ملیں بند ہوتی جا رہی ہیں اور بے روزگاری بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ محکمہ صحت اور تعلیم کا بجٹ بہت ہی مختصر ہے جن میں گزارا مشکل ہے۔ اسپتالوں میں ادویات اور خاص کر کے جان بچانے کی فوری ادویات ناپید ہیں ۔ قحط سے لوگ مر رہے ہیں ۔ لوگ بھوک سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ والدین اپنے لخت جگر کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
زندگی ایک ذلت ، اذیت اور عذاب مسلسل بن گئی ہے۔ اس لیے عوام ہر روز کسی نہ کسی شہر، گلی اور کوچوں میں احتجاج کرتے ہیں ، خود سوزی کرتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں اور لوٹ مار بھی کر تے ہیں ۔ جب کہ حکمراں کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے رد عمل کو روکنے کے لیے اب حکمراں بے بس اور لاچار ہو گئے ہیں اس لیے وہ قانون شکنی پر اتر آئے ہیں اور تحفظ پاکستان کے نام پر محکوم، محنت کش ، شہری، غریبوں اور کارکنوں کی زبان بندی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کو ہر صورت میں پاس کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے محنت کش عوام اس بل کو کبھی بھی پاس نہیں ہونے دیں گے۔ وہ اسمبلی کا گھیرائو بھی کر سکتے ہیں اور ایک غیر طبقاتی اشتمالی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے سارے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں ۔
ادھر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نے کہا کہ '' ایم کیو ایم تحفظ پاکستان بل 2014 ء کے نام پر مسلط کیے جانے والے غیر قانونی اور غیر انسانی کالے قانون کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کرے گی۔'' اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تحفظ پاکستان بل کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ اسے رد کر دیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے سوا کسی نے بھی اس بل کی حمایت نہیں کی ۔ بلکہ نوبت یہاں تک آگئی کہ بل کی کاپیاں اسمبلی میں برملا اسپیکر کے سامنے پھاڑی گئیں۔ اب یہ بل سینیٹ میں پیش ہونے پر مسترد ہوگیا اب قومی اسمبلی سے سادہ اکثریت میں پاس کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد حزب اختلاف سپریم کورٹ میں جا سکتی ہے ۔ اگر سپریم کورٹ نے اس بل کے خلاف فیصلہ دیا تو پھر ایک بار حکومت اور عدلیہ کے مابین تنائو اور بدمزگی پیدا ہو گی اور اسمبلی اس پر عمل در آمد کر بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔
یہ تضادات پاکستان کے ہر ادارے اور پارٹیوں میں موجود ہیں ، مسلم لیگ ن کے اندر جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے اندر ، پی پی پی کے اندر ، پولیس اور رینجرز کے درمیان حتیٰ کہ مساجد کے اندر ، مزارات اور گدی نشینوں کے اندر وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ بیانات تو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں کھل کر آرہے ہیں۔ پی پی پی متضاد بیانات دے رہی ہے ۔ خورشید شاہ اور اعتزاز حسن کے بیانات مختلف ہیں۔ پرویز رشید اور رفیق سعد کے بیانات مختلف ہیں ۔ جماعت اسلامی کے منور حسن اور سراج الحق کے بیانات مختلف ہیں۔ اسی طرح طالبان کے مختلف دھڑوں کے بیانات بھی مختلف ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک قریبی دوست اور کرم فرما شکیل احمد نے تجویز دی کہ تحفظ پاکستان بل پر کچھ لکھیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ حکمرانوں کے کھیل ہیں کہ عوام کو نان ایشوز پر الجھا دیں جس میں وہ دال دلیہ کی پریشانیوں پر رد عمل نہ کر سکیں۔
انھوں نے ازراہ مذاق میں کہا کہ یہ کھیل تو آج سے نہیں ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں، تو آپ بھی اپنا کھیل دکھائیں۔پھر میں نے چونکہ ان سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں اس پر کچھ ضرور لکھوں گا، اس لیے قلم اٹھانے کی کوشش کی ۔ اس بل میں ایک بات یہ ہے کہ'' ہم آپ پہ شک کرتے ہیں'' ۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص ''اللہ دتہ قطعی بے قصور ہے اور وہ گھر کا واحد خود کفیل ہے ، اس کے پانچ بچے ہیں، روز کا کمانا کھانا اس کا مقدر ہے ، اگر اسے 90 روز قید میں رکھا جائے اور 91 ویں روز چھوڑ کے اسے یہ کہا جائے کہ آپ بے قصور ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ فرض کریں کہ ایک اور شخص سیف ہے وہ ایک تاجر ہے ، اسے قید کر لیا جاتا ہے ۔ اس کے تجارت کا ایک تانہ بانہ ہے۔
اس کی گرفتاری سے اگر فیکٹری اور در آمد، بر آمد رک جاتی ہے ، کیا وہ 90 روز کے بعد واپس آکر کام سنبھالنے کا اہل ہو سکتا ہے اور حکومت بھی اس کی کوئی گارنٹی دے سکتی ہے؟ اگر کسی طالب علم کا ایک ہفتے بعد فائنل امتحان ہے اور اسے قید کر لیا جاتا ہے، پھر امتحانات کے اوقات اور تاریخیں نکل جاتی ہیں تو اس کا سال ضایع ہو جاتا ہے اور مستقبل کا ذمے دار کون ہو گا؟نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ پاکستانی شہری اس قید خانے کو خیر باد کہہ کر بیرونی ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اس لیے کہ آزادی سے سانس تو لے سکیں گے۔ مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نان اشوز پر سیاسی جماعتیں اکثر ہڑتالیں کرتی ہیں مگر اس اہم انسانی اور بنیادی حقوق کی کھلم کھلا اسمبلی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمراں بل پاس کرنے پر اتر آتے ہیں تو اس کے رد عمل میں کوئی ہڑتال کی کال دیتا ہے اور نہ اسمبلی کا مستقل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتا ہے۔
یہ حکمراں حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے(لو اینڈ ہیٹ) ''محبت اور نفرت'' کی تھیوری پر عمل در آمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،اس لیے کہ ہر ایک اپنے مفادات سے وابستہ ہے ۔ اس وقت بہت سے اداروں کے ملازمین کو مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں ، بہت سے اداروں کے محنت کشوں کو اداروں کی نجکاری سے بے روزگار ہونے کا خوف ہے، ملیں بند ہوتی جا رہی ہیں اور بے روزگاری بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ محکمہ صحت اور تعلیم کا بجٹ بہت ہی مختصر ہے جن میں گزارا مشکل ہے۔ اسپتالوں میں ادویات اور خاص کر کے جان بچانے کی فوری ادویات ناپید ہیں ۔ قحط سے لوگ مر رہے ہیں ۔ لوگ بھوک سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ والدین اپنے لخت جگر کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
زندگی ایک ذلت ، اذیت اور عذاب مسلسل بن گئی ہے۔ اس لیے عوام ہر روز کسی نہ کسی شہر، گلی اور کوچوں میں احتجاج کرتے ہیں ، خود سوزی کرتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں اور لوٹ مار بھی کر تے ہیں ۔ جب کہ حکمراں کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے رد عمل کو روکنے کے لیے اب حکمراں بے بس اور لاچار ہو گئے ہیں اس لیے وہ قانون شکنی پر اتر آئے ہیں اور تحفظ پاکستان کے نام پر محکوم، محنت کش ، شہری، غریبوں اور کارکنوں کی زبان بندی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کو ہر صورت میں پاس کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے محنت کش عوام اس بل کو کبھی بھی پاس نہیں ہونے دیں گے۔ وہ اسمبلی کا گھیرائو بھی کر سکتے ہیں اور ایک غیر طبقاتی اشتمالی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے سارے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں ۔