سائبیریا سے پاکستان آنیوالے مہمان پرندوں کی تعداد میں نمایاں کمی ریکارڈ
آبی گزرگاہوں میں پانی کی کمی، آلودگی اور بے تحاشہ شکار کی وجہ سے کمی ریکارڈ ہوئی
آبی گزرگاہوں میں پانی کی کمی، آلودگی اور بے تحاشہ شکار کی وجہ سے سائبیریا سے پاکستان آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پنجاب وائلڈلائف ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے مطابق صرف ایک سال میں پنجاب کے اندر مہمان مرغابیوں کی تعداد میں 34 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ہر سال موسم سرما میں لاکھوں پرندے سائبیریا سے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں ان مہمان پرندوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں کیے گئے حالیہ سروے کے مطابق مہمان پرندوں کی تعداد میں 33 اعشاریہ 87 فیصد تک کمی آئی ہے۔
وائلڈلائف ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گٹ والا فیصل آباد نے رواں سال پنجاب میں 11 مقامات پر کونجوں، مرغابیوں سمیت دیگر مہمان پرندوں کی تعداد جانچنے کے لیے سروے کیا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کو موصول ہونے والی سروے رپورٹ کے مطابق ہیڈ مرالہ کے مقام پر سال 2021 اور 2022 میں 5121 پرندے دیکھے گئے جبکہ سال 2022 اور 2023 میں یہ تعداد کم ہوکر 3173 رہ گئی۔
ہیڈ قادرآباد کے مقام پر تعداد 716 سے کم ہوکر 571 ریکارڈ کی گئی، رسول بیراج پر 3245 سے کم ہوکر 1801، کلرکہارجھیل پر 2932 سے کم ہوکر 1894، آحمد آباد جھیل پر 780 سے کم ہوکر 409، چشمہ بیراج پر 30489 سے کم ہوکر 4732، جناح بیراج پر 749 سے کم ہوکر 401 اورنمل جھیل پر سب سے زیادہ کمی یعنی 5079 سے کم ہوکرصرف 418 ریکارڈ کی گئی ہے۔ تاہم سروے کے دوران چند ایک مقامات پر ان مہمان پرندوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ کھبیکی جھیل پر411 سے بڑھ کر 1272، اچھالی جھیل پر 9995 سے بڑھ کر 22425، جھالر جھیل پر 494 سے بڑھ کر 2297 ریکارڈ کی گئی ہے۔
وائلڈلائف ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح سرور نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ان کا شعبہ ہرسال پنجاب میں پائی جانے والی مختلف جنگلی انواع خاص طور پر چنکارہ ہرن، پاڑہ ہرن، اڑیال وار نیل گائے کا سروے کرتا ہے۔ اسی طرح مختلف پرندوں کے سروے کیے جاتے ہیں جن میں سائبیریا سے آنے والے مہمان پرندے بھی شامل ہیں۔ اس سروے کا مقصد جانوروں اور پرندوں کی درست تعداد کا تخمینہ لگا کر ان کی پروٹیکشن، کنزرویشن اور سپورٹس ہنٹنگ کے لیے سفارشات تیار کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مصباح سرور نے مزید بتایا کہ سال 2021-22 میں کیے گئے سروے میں پنجاب کے 11 مقامات پر مہمان پرندوں کی تعداد کا تخمینہ 60 ہزار 11 لگایا گیا تھا جبکہ سال 2022-23 میں یہ تعداد کم ہوکر 39 ہزار 698 ریکارڈ کی گئی ہے، مجموعی طور پر مہمان پرندوں کی تعداد میں 34 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
انکے مطابق مہمان پرندوں کی تعداد میں کمی کی وجہ آب گاہوں میں پانی کی کمی، بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت، غیرقانونی شکار، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے ہر سال یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک مرغابیوں، کونجوں سمیت دیگر آبی پرندوں کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ دو ہزار روپے لائسنس فیس کے ساتھ مخصوص تعداد میں پرندوں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے تاہم اکثر شکاری مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ شکار کرتے ہیں۔
دوسری طرف ماہرین جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو جہاں مہمان پرندوں کے مساکن کی بحالی، انسانی مداخلت کم کرنے اور آلودگی ختم کرنے کی ضرورت ہے وہیں قوانین پرسختی سے عمل درآمد کروانا ہوگا ورنہ جس تیزی سے مہمان پرندوں کی تعداد کم ہو رہی ہے خدشہ ہے کہ صورتحال ایسی ہی رہی تو آنے والی چند دہائیوں میں یہ مہمان پرندے پاکستان سے مکمل روٹھ جائیں گے۔
وائلڈ لائف فاؤنڈیشن پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر وسیم احمد خان مہمان پرندوں کی تعداد کم ہونے سے اختلاف کرتے ہیں۔
ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ماضی کی نسبت اس سال مہمان پرندے زیادہ آئے ہیں۔ خاص طور پر سیلاب کی وجہ سے کئی علاقوں میں جھیلیں بننے اور پہلے سے موجود آب گاہوں میں پانی کی سطح بڑھنے سے پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ''کسی بھی مقام پر ایک دن کے سروے سے مہمان پرندوں کی تعداد کا نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں ہے، مہمان پرندے غول درغول اور مختلف دنوں کے وقفے سے آتے ہیں۔ طویل سفر کے بعد وہ کسی جھیل کنارے آرام کے لیے چند گھنٹے یا چند دن قیام کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اس لیے مہمان پرندوں کے مساکن کی مسلسل مانیٹرنگ کرنا پڑتی ہے۔ ممکن ہے جس دن سروے ٹیم نے وزٹ کیا وہاں پرندے کافی زیادہ تعداد میں تھے لیکن اگلے دن وہ وہاں سے اگلی منزل کی طرف پرواز کرگئے۔