وزرائے خارجہ کی حاصلات
اس خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جو خطرناک حد تک فروغ حاصل ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے
ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ختم ہوگئی۔
دونوں ملکوں کے درمیان ویزا کے طریقۂ کار میں آسانی، تجارت میں اضافے کے حوالے سے کچھ ناتمام یا ادھورے فیصلے کیے گئے، اس کے علاوہ جو اہم بات کی گئی وہ یہ کہ دونوں ملک ممبئی حملوں اور مسئلہ کشمیر کے کولہو سے نکل کر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے کام کریں گے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلادیں گے۔
اس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ سیاچن سرکریک جیسے دیرینہ مسائل کو بھی ترجیحاً حل کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے دونوں ملکوں کے عوام کو آنے جانے کی زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے، خاص طور پر مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں کے نمایندوں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، فنکاروں کو ممکنہ آزادی کے ساتھ ایک دوسرے ملکوں میں آنے جانے کی آزادی ملنی چاہیے لیکن ویزا پالیسی کو نرم کرنے کے حوالے سے جو اعلانات ہوئے ہیں ان میں تاجروں، صنعت کاروں کو تو کچھ سہولتیں مہیا کی گئی ہیں لیکن جو لوگ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، انھیں وہ سہولتیں فراہم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی، جس کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے جو ضروری اقدامات کیے جانے تھے، ان میں ادبی کتابوں اور اخبارات و رسائل کی ترسیل ایک اہم ترین ضرورت ہے لیکن اس مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ فی الوقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ادبی کتاب کی جو قیمت ہوتی ہے، اس سے زیادہ اس کے منگوانے پر ڈاک کا خرچہ آتا ہے۔ اخبارات جو دونوں ملکوں کی رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کی آزادانہ ترسیل کا کوئی راستہ نہیں نکالا جاسکا۔ آج کی دنیا میں الیکٹرانک میڈیا ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے، دونوں ملک اگر تعلقات میں بہتری لانے کے لیے واقعی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو الیکٹرانک میڈیا کے کردار کو صرف تفریحی پروگراموں تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک منظم پالیسی کے تحت ایسے پروگراموں، ٹاک شوز اور خبروں کو فروغ دینا چاہیے جو دونوں ملکوں کے عوام میں صوبوں پر پھیلی عداوتوں، غلط فہمیوں اور اجنبیت کو دور کرکے ایک دوسرے کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ ویزا میں نرمی اور تجارت میں اضافے سے دوستی کا جو ماحول پیدا ہوگا وہ ماحول کشمیر، سیاچن جیسے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ خیال بادی النظر میں بڑا معروضی اور منطقی معلوم ہوتا ہے لیکن اس فلسفے کو اگر محض پروپیگنڈے اور وقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے جو دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار دوستی اور اعتمادِ باہمی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ بات اس لیے کہنی پڑرہی ہے کہ ماضی میں اس قسم کے فلسفے نیک نیتی سے پیش نہیں کیے گئے بلکہ ان فلسفوں کا مقصد وقت حاصل کرنا اور اہم تصفیہ طلب مسائل کو پسِ پشت ڈالنا رہا ہے۔
ہمارا تعلق انسانوں کے اس قبیلے سے ہے جو انسانوں کی شناخت مذہب و ملت، رنگ، نسل، زبان اور قومیتوں کے حوالے سے نہیں بلکہ آدم کی اولاد کے حوالے سے کرتا ہے۔ لیکن اس وژن کے باوجود ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ مختلف حوالوں سے مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی اس دنیا کو قریب لانے کے لیے ایسے متنازع مسائل کو حل کرنا ضروری ہے جو انسانوں کی تقسیم کو گہرا کرنے اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کشمیری عوام اگر پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نہ انھیں جنت مل جائے گی نہ ان کی بدحال زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی، لیکن ہمیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جو خطرناک حد تک فروغ حاصل ہورہا ہے اس کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے بعض معاشی مفادات کشمیر سے وابستہ ہیں، مثلاً پانی کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کی سرحدوں کی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ چونکہ حالات نے ان مسئلوں کو دونوں ملکوں کے مشترکہ مسائل میں بدل دیا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو دونوں ملکوں کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ اس طرح حل کیا جائے کہ کشمیری عوام کی رائے بھی اس میں شامل ہو اور انتہا پسند طاقتوں کو اس مسئلے سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
دونوں ملکوں میں جو وفود آتے جاتے رہتے ہیں، ان کی سرگرمیاں عموماً فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ایسی جگہوں تک محدود رہتی ہیں، جہاں تک عوام کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ عوام سے عوام کی دوستی کے لیے عوام سے عوام تک رسائی ناگزیر ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے دونوں ملکوں کے وفود کو آزادی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے نمایندوں سے ملنے جلنے کی سہولتیں مہیا کی جانی چاہییں۔ ادبی کتابوں، رسائل اور اخبارات منگوانے اور بھیجنے کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں دونوں ملکوں کے مسائل کو سمجھنے کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام میں اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کی توجہ اس ضرورت کی طرف بھی مبذول کرائی گئی کہ دونوں ملکوں کے بڑے شہروں میں ویزا کی سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ عوام دور دراز کے غیر ضروری سفر وقت اور اخراجات سے بچ سکیں۔
دونوں ملکوں میں تجارت بڑھانے کے لیے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی رسمی کارروائی تو کردی گئی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملک ڈیوٹیوں، کسٹم وغیرہ کے حوالے سے جو ٹیکس عاید کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے ٹیکسوں میں زیادہ سے زیادہ کمی سے دونوں ملکوں کے مہنگائی سے پریشان عوام کو بہت ریلیف مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ درآمدی اشیاء پر منافعے کی حد متعین کرتے ہوئے ایک ایسا میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ناجائز منافع خوری کو روک سکے۔
دونوں ملکوں میں ایسی انتہا پسند طاقتیں موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے سخت خلاف ہیں۔ پاکستان میں ایسی طاقتیں کشمیر کے مسئلے کے حل سے پہلے تجارتی تعلقات کے سخت خلاف ہیں۔ اسی طرح بھارت میں بھی انتہا پسند طاقتیں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے خلاف ہیں، وہ اس حوالے سے اس حد تک آگے چلی جاتی ہیں کہ وہ پاکستان کے فنکاروں اور کھلاڑیوں کو ہندوستان آنے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں۔ پاکستان کے فنکاروں کے خلاف یہ طاقتیں منفی پروپیگنڈا کرتی رہی ہیں بلکہ کئی فنکاروں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس رجحان کی مذمت کی جانی چاہیے۔