یوسف عزیز کے دیس میں
گنداواہ بلوچستان کے کئی شہروں کی مانندکسی جزیرے کی طرح ہے۔ دور دور تک ویرانہ ۔۔۔
شاہ محمد مری نے ایک جگہ لکھا کہ' ہمیں ہماری جڑوں سے الگ کر دیا گیا ہے، ہم اپنی جڑوں سے جدا کیے گئے لوگ ہیں' اور یہ بھی کہ' بے جڑ ہوناا چھا نہیں، اس لیے اپنی جڑوں کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔یہ درست ہے کہ بے جڑ تو شجر بھی نہیں ہوتے، بے آشیاں تو چرند و پرند بھی نہیں ہوتے، تو اشرف المخلوق انسان بے جڑ کیسے رہ سکتا ہے۔ اس لیے بے جڑ کیے گئے انسانوں کو اپنی جڑوں کی بازیافت کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔اپنی جڑوں کی بازیافت کے اسی سلسلے میں'مہرد'کا قافلہ اب کے عشاق کے قافلے کے سب سے بڑے اکابر یوسف عزیز کے دیس پہنچا۔
یوسف عزیز کے قبیلے جھل مگسی کے نام سے منسوب بلوچستان کے اس ضلع کا صدر مقام اس سے ملحقہ ایک اور تاریخی قصبہ گنداواہ ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کسی زمانے میں بلوچوں کی سب سے وسیع سلطنت ہوا کرتی تھی۔ یہ چاکر وگہرام کی خون ریزیوں کا مرکزبھی رہاہے۔ اس تیس سالہ خون آشام جنگ نے اس پورے خطے کو ایسا برباد کیا کہ یہ آج تک آباد نہ ہو سکا۔ نہایت قلیل آبادی ، جس کی اکثریت چھوٹے چھوٹے دیہات میں منقسم ہے، جہاں ہزاروں ہاری آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے نوابوں اور سرداروں کی بزگری پہ مجبور ہیں، اور ستم یہ کہ کسی قسم کے سیاسی شعور سے عدم واقفیت کے باعث اپنے اس حال پہ قانع بھی ہیں۔
اس علاقے کی شہرت کی ایک وجہ تسمیہ یہاں کے اولیائے کرام بھی ہیں۔ مظلوم کسانوں کے حق کے لیے مقامی جاگیرداروں سے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ والے سندھ کے سوشلسٹ صوفی شاہ عنایت کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والے سائیں رکھ یَل شاہ اور چیزل شاہ کی موجودہ نسلیں حالانکہ مقامی جاگیرداروں کی طاقت کے سامنے بیعت کر چکی ہیں، لیکن ان کے مریدین یہاں سے لے کر سندھ تک آج بھی بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مارچ کے وسط میں ان کے عرس کی سالانہ تقریبات ہوتی ہیں جو اس سارے خطے میں تفریح کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مریدین اس ویرانے میں جمع ہوتے ہیں اور تین دن یہاں میلے کا سماں رہتا ہے۔ کچھ سال پہلے ہونے والے خوف ناک بم دھماکے کے باوجود یہاں زائرین کی آمد میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
گنداواہ بلوچستان کے کئی شہروں کی مانندکسی جزیرے کی طرح ہے۔ دور دور تک ویرانہ ، اور پھر سیکڑوں کلومیٹر بعد اچانک آبادی کا ایک جزیرہ نمودار ہوتا ہے۔ عرس کی تقریبات کے دوران ہی اس جنگل میں منگل کا سماں باندھنے کا سہرا یہاں کے سوشل ویلفیئر آفیسر حفیظ اللہ کھوسہ کے سر جاتا ہے، جنھوں نے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کے ساتھ مل کر دو روزہ علمی و سماجی تقریبات کااہتمام کر ڈالا۔ ان تقریبات میں ایک مذاکرہ، مشاعرہ، محفلِ موسیقی اور دو روزہ کتب میلہ کی سرگرمیاں شامل تھیں۔
گو کہ تقریبات اپنے متعین وقت کی بجائے قدرِ تاخیر سے شروع ہوئیں لیکن ہر لحاظ سے بھرپور رہیں۔اس سرگرمی میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے میرے ساتھ سنگت غلام رسول آزاد شامل تھے، جنھیں نوتال کے مقام سے گنداواہ لانے کی ذمے داری ہمارے دوست نور جتک کے ذمے تھی، جو تقریبات کے لیے دیگر سامان جیکب آباد سے لے کر آ رہے تھے۔ گنداواہ کی 'شہریت' کا اندازہ یہیں سے لگا لیں کہ تقریبات کے لیے کرسیوں اور ساؤنڈ سسٹم کا انتظام لگ بھگ سو کلومیٹر دورجیکب آباد سے کیا گیا تھا۔ یہاں سے سب سے بڑا قریبی شہر یہی ہے، یا دوسری طرف سے اوستہ محمد اور شہداد کوٹ۔
حفیظ اللہ کھوسہ کی انفرادی کاوشیں اپنی جگہ لیکن چونکہ تقریبات سرکاری محکمہ کے زیر انتظام ہو رہی تھیں، اس لیے انھیں باضابطہ سرکاری انداز میں منانے کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے روز تقریب کا آغاز ڈپٹی کمشنر جھل مگسی طارق الرحمان بلوچ نے باضابطہ طور پر فیتہ کاٹ کر کیا۔ مکران سے ہونے کے باعث طارق بلوچ خاصے باذوق ثابت ہوئے۔ ان کے ذوق کا اندازہ رات کی محفلِ مشاعرہ میں ہوا جب اظہارِ خیال کے دوران انھوں نے داغ دہلوی کی ایک غزل نہایت خوب صورت انداز اور درست تلفظ کے ساتھ تحت اللفظ میں داغ کی شاعری جیسے ہی دبنگ انداز میں سنائی اور خوب داد پائی۔پہلے روز کی افتتاحی تقریب کو میر یوسف عزیز کے نام سے منسوب کیا گیا۔ آغاز مجھ نااہل کی ایک تحریر سے ہوا۔ کلیدی مقالہ 'بلوچ شعرا کی اردو خدمات' کے موضوع پہ ایم فل کا مقالہ لکھنے والے پروفیسر منظور وفا نے پیش کیا۔
صدارتی تقریر ای ڈی او ایجوکیشن میر عبدالنبی بنگلزئی نے کی جو کہ خلافِ معمول لکھی ہوئی تھی اور غیر متوقع طور پر ماسوائے غیر ضروری طوالت کے ،نہایت برمحل تھی۔ انھوں نے یوسف عزیز کی سیاسی جدوجہد سمیت وہ تمام حوالے دیے جو اس موقع میں دینا ضروری تھے۔ جیسے یوسف عزیز نے لندن جلاوطنی سے قبل والدہ سے جب اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ واپسی پہ اپنی تین چوتھائی زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو والدہ نے غصے سے کہا، 'پاگل ہو گئے ہو، ہم کیا مٹی کھائیں گے؟' تو یوسف عزیز کا جواب تھا کہ ،'ہاں، غریبوں کا خون پینے سے بہتر ہے کہ ہم مٹی کھائیں!' اور یہ کہ انھوں نے اپنے نام سے منسلک 'نواب زادہ' کا لفظ کھرچ کھرچ کا مٹا ڈالا اور اپنے ایک دوست کو لکھا، 'سچ پوچھیے مجھے تو ایک ہی لفظ اچھا لگتا ہے؛ مسلمان، اور اس سے بھی بڑھ کر انسان!' ...اور یہ برمحل اشعار بھی ؛
اس کو مٹا جلدی مٹا
سردار ہو انگریز ہو
جو قوتِ شیطان ہو
جو ثانی چنگیز ہو
سو ایسی گفت گو سے ، ایسی شخصیت سے لوگ کیوں کر نہ متاثر ہوتے۔ سامعین انگلیاں دانتوں تلے دبائے حیرت سے سنتے رہے کہ ایسا گوہر نایاب انھی کی مٹی سے تھا، اسی سرزمین کا فرزند تھا اور وہ اس سے نابلد تھے۔ گویا اپنی جڑوں کی جانب بازیافت کا سفر کامیاب رہا۔
بسم اللہ خوب رہی۔ یہ سیشن دوپہرتک جاری رہا۔ جس کے بعد کتاب میلہ اور پھر ایک وقفے کے بعد شام ڈھلے محفلِ مشاعرہ۔ گنداواہ میں یہ پہلی محفلِ مشاعرہ تھی۔عوام کو اندازہ ہی نہ تھا کہ ایسی بھی کوئی محفل ہوتی ہے کہ شاعر مسند پہ بیٹھ کے کلام سنائے، اس سے محظوظ ہوا جائے۔ برے شعر پہ ہوٹنگ اور اچھے شعر پہ داد دی جائے۔اس تقریب کے منتظم نے نہایت تندہی اور جانفشانی سے گرد و نواح کے اچھے خاصے شاعر جمع کیے۔ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا، سامعین بھی آخر تک موجود رہے، ہوٹنگ اور داد دونوں کا مزہ لیتے رہے۔
اگلے روز کا پہلا سیشن مذاکرہ کا تھا۔ جس کا موضوع تھا؛ مطالعے کی اہمیت۔یہ بھی علاقے میں اپنی نوعیت کی اولین اور منفرد سرگرمی تھی۔ اس کے مقررین میں پروفیسر منظور وفا کے ساتھ، پروفیسر ایوب صابر اور میر عبدالنبی بنگلزئی شامل تھے۔ نظامت میرے ذمے آئی۔ مقررین سے آغاز کرنے کے بعد ہم نے مباحثے کے لیے سامعین کو بھی دعوت تھی۔ مختلف سوالات اور اظہارِ خیال کی صورت میں سامعین کی شرکت حیران کن حد تک حوصلہ افزا تھی۔ اس سے خود سامعین بھی محظوظ ہوئے اور منتظمین بھی۔ دوسرے سیشن میں ضلع جھل مگسی میں پولیو ورکرز کی کارکردگی کے پیش نظر محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے نقد انعامات اور سرٹیفکیٹس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ انعامات اے ڈی سی محمد رمضان نے تقسیم کیے۔ یہ نوجوان آفیسر بھی تمام تقریبات میں شاملِ حال رہے۔ اور نہایت اہم عہدے پہ ہونے کے باوجود بک اسٹال سے لے کر مشاعرے کی پچھلی نشستوں پہ بیٹھ کر ہوٹنگ اور داد کا مزہ لیتے رہے۔
دن ڈھل جانے کے باعث دور دراز سے آئے مہمان واپس ہوئے۔ ہم نے بھی رختِ سفر باندھا۔ جس کے باعث رات گئے ہونے والی کلاسیکل بلوچی موسیقی کی محفل میں شریک نہ ہوسکے، البتہ دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ محفل بھی خوب رہی۔ مجموعی طور پر یہ ایک صحت مند سرگرمی ثابت ہوئی۔ خود منتظمین اس قدر محظوظ ہوئے کہ اسے ہر برس سالانہ بنیادوں پر منانے کا اعلان کیا۔عوام نے اس بات کا بھرپور ثبوت دیا کہ وہ سماج کو باشعور بنانے کی ہر سرگرمی کا خیر مقدم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سماج کے باشعور افراد قدم آگے بڑھائیں اور عوام سے فکری جڑت پیدا کریں۔اہلِ دانش کی عوام سے فکری جڑت کا مشن، یوسف عزیز کا مشن ،آگے بڑھائیں۔
یوسف عزیز کے قبیلے جھل مگسی کے نام سے منسوب بلوچستان کے اس ضلع کا صدر مقام اس سے ملحقہ ایک اور تاریخی قصبہ گنداواہ ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کسی زمانے میں بلوچوں کی سب سے وسیع سلطنت ہوا کرتی تھی۔ یہ چاکر وگہرام کی خون ریزیوں کا مرکزبھی رہاہے۔ اس تیس سالہ خون آشام جنگ نے اس پورے خطے کو ایسا برباد کیا کہ یہ آج تک آباد نہ ہو سکا۔ نہایت قلیل آبادی ، جس کی اکثریت چھوٹے چھوٹے دیہات میں منقسم ہے، جہاں ہزاروں ہاری آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے نوابوں اور سرداروں کی بزگری پہ مجبور ہیں، اور ستم یہ کہ کسی قسم کے سیاسی شعور سے عدم واقفیت کے باعث اپنے اس حال پہ قانع بھی ہیں۔
اس علاقے کی شہرت کی ایک وجہ تسمیہ یہاں کے اولیائے کرام بھی ہیں۔ مظلوم کسانوں کے حق کے لیے مقامی جاگیرداروں سے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ والے سندھ کے سوشلسٹ صوفی شاہ عنایت کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والے سائیں رکھ یَل شاہ اور چیزل شاہ کی موجودہ نسلیں حالانکہ مقامی جاگیرداروں کی طاقت کے سامنے بیعت کر چکی ہیں، لیکن ان کے مریدین یہاں سے لے کر سندھ تک آج بھی بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مارچ کے وسط میں ان کے عرس کی سالانہ تقریبات ہوتی ہیں جو اس سارے خطے میں تفریح کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مریدین اس ویرانے میں جمع ہوتے ہیں اور تین دن یہاں میلے کا سماں رہتا ہے۔ کچھ سال پہلے ہونے والے خوف ناک بم دھماکے کے باوجود یہاں زائرین کی آمد میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
گنداواہ بلوچستان کے کئی شہروں کی مانندکسی جزیرے کی طرح ہے۔ دور دور تک ویرانہ ، اور پھر سیکڑوں کلومیٹر بعد اچانک آبادی کا ایک جزیرہ نمودار ہوتا ہے۔ عرس کی تقریبات کے دوران ہی اس جنگل میں منگل کا سماں باندھنے کا سہرا یہاں کے سوشل ویلفیئر آفیسر حفیظ اللہ کھوسہ کے سر جاتا ہے، جنھوں نے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کے ساتھ مل کر دو روزہ علمی و سماجی تقریبات کااہتمام کر ڈالا۔ ان تقریبات میں ایک مذاکرہ، مشاعرہ، محفلِ موسیقی اور دو روزہ کتب میلہ کی سرگرمیاں شامل تھیں۔
گو کہ تقریبات اپنے متعین وقت کی بجائے قدرِ تاخیر سے شروع ہوئیں لیکن ہر لحاظ سے بھرپور رہیں۔اس سرگرمی میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے میرے ساتھ سنگت غلام رسول آزاد شامل تھے، جنھیں نوتال کے مقام سے گنداواہ لانے کی ذمے داری ہمارے دوست نور جتک کے ذمے تھی، جو تقریبات کے لیے دیگر سامان جیکب آباد سے لے کر آ رہے تھے۔ گنداواہ کی 'شہریت' کا اندازہ یہیں سے لگا لیں کہ تقریبات کے لیے کرسیوں اور ساؤنڈ سسٹم کا انتظام لگ بھگ سو کلومیٹر دورجیکب آباد سے کیا گیا تھا۔ یہاں سے سب سے بڑا قریبی شہر یہی ہے، یا دوسری طرف سے اوستہ محمد اور شہداد کوٹ۔
حفیظ اللہ کھوسہ کی انفرادی کاوشیں اپنی جگہ لیکن چونکہ تقریبات سرکاری محکمہ کے زیر انتظام ہو رہی تھیں، اس لیے انھیں باضابطہ سرکاری انداز میں منانے کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے روز تقریب کا آغاز ڈپٹی کمشنر جھل مگسی طارق الرحمان بلوچ نے باضابطہ طور پر فیتہ کاٹ کر کیا۔ مکران سے ہونے کے باعث طارق بلوچ خاصے باذوق ثابت ہوئے۔ ان کے ذوق کا اندازہ رات کی محفلِ مشاعرہ میں ہوا جب اظہارِ خیال کے دوران انھوں نے داغ دہلوی کی ایک غزل نہایت خوب صورت انداز اور درست تلفظ کے ساتھ تحت اللفظ میں داغ کی شاعری جیسے ہی دبنگ انداز میں سنائی اور خوب داد پائی۔پہلے روز کی افتتاحی تقریب کو میر یوسف عزیز کے نام سے منسوب کیا گیا۔ آغاز مجھ نااہل کی ایک تحریر سے ہوا۔ کلیدی مقالہ 'بلوچ شعرا کی اردو خدمات' کے موضوع پہ ایم فل کا مقالہ لکھنے والے پروفیسر منظور وفا نے پیش کیا۔
صدارتی تقریر ای ڈی او ایجوکیشن میر عبدالنبی بنگلزئی نے کی جو کہ خلافِ معمول لکھی ہوئی تھی اور غیر متوقع طور پر ماسوائے غیر ضروری طوالت کے ،نہایت برمحل تھی۔ انھوں نے یوسف عزیز کی سیاسی جدوجہد سمیت وہ تمام حوالے دیے جو اس موقع میں دینا ضروری تھے۔ جیسے یوسف عزیز نے لندن جلاوطنی سے قبل والدہ سے جب اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ واپسی پہ اپنی تین چوتھائی زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو والدہ نے غصے سے کہا، 'پاگل ہو گئے ہو، ہم کیا مٹی کھائیں گے؟' تو یوسف عزیز کا جواب تھا کہ ،'ہاں، غریبوں کا خون پینے سے بہتر ہے کہ ہم مٹی کھائیں!' اور یہ کہ انھوں نے اپنے نام سے منسلک 'نواب زادہ' کا لفظ کھرچ کھرچ کا مٹا ڈالا اور اپنے ایک دوست کو لکھا، 'سچ پوچھیے مجھے تو ایک ہی لفظ اچھا لگتا ہے؛ مسلمان، اور اس سے بھی بڑھ کر انسان!' ...اور یہ برمحل اشعار بھی ؛
اس کو مٹا جلدی مٹا
سردار ہو انگریز ہو
جو قوتِ شیطان ہو
جو ثانی چنگیز ہو
سو ایسی گفت گو سے ، ایسی شخصیت سے لوگ کیوں کر نہ متاثر ہوتے۔ سامعین انگلیاں دانتوں تلے دبائے حیرت سے سنتے رہے کہ ایسا گوہر نایاب انھی کی مٹی سے تھا، اسی سرزمین کا فرزند تھا اور وہ اس سے نابلد تھے۔ گویا اپنی جڑوں کی جانب بازیافت کا سفر کامیاب رہا۔
بسم اللہ خوب رہی۔ یہ سیشن دوپہرتک جاری رہا۔ جس کے بعد کتاب میلہ اور پھر ایک وقفے کے بعد شام ڈھلے محفلِ مشاعرہ۔ گنداواہ میں یہ پہلی محفلِ مشاعرہ تھی۔عوام کو اندازہ ہی نہ تھا کہ ایسی بھی کوئی محفل ہوتی ہے کہ شاعر مسند پہ بیٹھ کے کلام سنائے، اس سے محظوظ ہوا جائے۔ برے شعر پہ ہوٹنگ اور اچھے شعر پہ داد دی جائے۔اس تقریب کے منتظم نے نہایت تندہی اور جانفشانی سے گرد و نواح کے اچھے خاصے شاعر جمع کیے۔ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا، سامعین بھی آخر تک موجود رہے، ہوٹنگ اور داد دونوں کا مزہ لیتے رہے۔
اگلے روز کا پہلا سیشن مذاکرہ کا تھا۔ جس کا موضوع تھا؛ مطالعے کی اہمیت۔یہ بھی علاقے میں اپنی نوعیت کی اولین اور منفرد سرگرمی تھی۔ اس کے مقررین میں پروفیسر منظور وفا کے ساتھ، پروفیسر ایوب صابر اور میر عبدالنبی بنگلزئی شامل تھے۔ نظامت میرے ذمے آئی۔ مقررین سے آغاز کرنے کے بعد ہم نے مباحثے کے لیے سامعین کو بھی دعوت تھی۔ مختلف سوالات اور اظہارِ خیال کی صورت میں سامعین کی شرکت حیران کن حد تک حوصلہ افزا تھی۔ اس سے خود سامعین بھی محظوظ ہوئے اور منتظمین بھی۔ دوسرے سیشن میں ضلع جھل مگسی میں پولیو ورکرز کی کارکردگی کے پیش نظر محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے نقد انعامات اور سرٹیفکیٹس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ انعامات اے ڈی سی محمد رمضان نے تقسیم کیے۔ یہ نوجوان آفیسر بھی تمام تقریبات میں شاملِ حال رہے۔ اور نہایت اہم عہدے پہ ہونے کے باوجود بک اسٹال سے لے کر مشاعرے کی پچھلی نشستوں پہ بیٹھ کر ہوٹنگ اور داد کا مزہ لیتے رہے۔
دن ڈھل جانے کے باعث دور دراز سے آئے مہمان واپس ہوئے۔ ہم نے بھی رختِ سفر باندھا۔ جس کے باعث رات گئے ہونے والی کلاسیکل بلوچی موسیقی کی محفل میں شریک نہ ہوسکے، البتہ دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ محفل بھی خوب رہی۔ مجموعی طور پر یہ ایک صحت مند سرگرمی ثابت ہوئی۔ خود منتظمین اس قدر محظوظ ہوئے کہ اسے ہر برس سالانہ بنیادوں پر منانے کا اعلان کیا۔عوام نے اس بات کا بھرپور ثبوت دیا کہ وہ سماج کو باشعور بنانے کی ہر سرگرمی کا خیر مقدم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سماج کے باشعور افراد قدم آگے بڑھائیں اور عوام سے فکری جڑت پیدا کریں۔اہلِ دانش کی عوام سے فکری جڑت کا مشن، یوسف عزیز کا مشن ،آگے بڑھائیں۔