’’تیرے بن‘‘ کا غیر اخلاقی پن

اس ڈرامے نے جہاں مقبولیت کی حدوں کو عبور کیا، وہیں اخلاقیات کی حدوں کو بھی پار کرلیا ہے


سعدیہ شعیب May 19, 2023
کیا پاکستان کا سنسر بورڈ اس واہیات مواد سے ناواقف ہے؟ (فوٹو: فائل)

اِن دِنوں نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے 'تیرے بن' کے خوب چرچے ہورہے ہیں اور جسے دیکھو اسی ڈرامے کی بات کرتا نظر آرہا ہے۔ تاہم اب لوگ وہ دیکھ رہے ہیں جو پاکستانی ڈراموں کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں دکھایا گیا۔


اس ڈرامے نے جہاں مقبولیت کی حدوں کو عبور کیا، وہیں اخلاقیات کی حدوں کو بھی پار کرلیا ہے۔ اب تک میں نے یہ ڈرامہ مکمل تو نہیں دیکھا مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس کی ویڈیوز سے بخوبی علم ہورہا ہے کہ اس ڈرامے میں کیا واہیات مواد دکھانے اور خواتین کو سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔


اگر آپ نے بھی یہ ڈرامہ نہیں دیکھا تو آئیے آپ کو اس کا ایک مختصر مگر واضح خلاصہ بتادیتی ہوں۔ ڈرامے کا آغاز میرب نامی ایک لڑکی کی اس کے کزن سے زبردستی شادی سے ہوا، جہاں شروعات سے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ پہلی قسط سے ہی یہ دکھایا گیا ہے کہ میرب اپنے کزن مرتسم سے شادی پر ناخوش ہے اور بے حد بدتمیزی کرتی ہے۔ شوہر کی نافرمان ہے۔ ساس سے بدتمیزی کی تمام حدیں پار کرتی ہے جبکہ شوہر کو ہر قسم کے حقوق سے بھی محروم رکھتی ہے۔


میرب بدتمیز تو تھی ہی مگر اب اپنے مجازی خدا پر ہاتھ اٹھانے کےلیے بھی ذرا لحاظ نہیں کرتی۔ جی ہاں! 'تیرے بن' کی گزشتہ قسط میں دکھایا گیا ہے کہ شوہر کو اس کی دوسری کزن (جوکہ اسے پسند کرتی ہے) کے ساتھ دیکھ کر میرب آگ بگولا ہوجاتی ہے اور مرتسم کے گال پر زور دار تھپڑ رسید کردیتی ہے، یہی نہیں بلکہ اس کے منہ پر تھوک کر چلی جاتی ہے۔


ڈرامے میں اس سین کے بعد مزید انتہا کردی گئی، جس کا کم از کم پاکستانی میڈیا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بیوی کے تھپڑ مارنے کے بعد مرتسم بھی حیوانیت پر اُتر آیا اور اپنی ہی بیوی کو ''زیادتی'' کا نشانہ بنا ڈالا۔


اُف کیا واقعی یہ ڈرامہ ہمارے معاشرے کے مرد و خواتین کی نمائندگی کرتا ہے۔ آخر ہمارے معاشرے کے خواتین اور مردوں کو یہ سب کیا دکھایا جارہا ہے اور کیا سبق دیا جارہا ہے؟ میں حیران ہوں کہ ایسا ڈرامہ مقبول ہورہا ہے اور اگر ہورہا ہے تو نئی نسل کو کیا سکھا رہا ہے؟ شوہر کو طمانچہ دَھر دو؟ اور اس سے بھی دل نہ بھرے تو منہ پر تھوک دو؟


اس ڈرامے کو رومانوی مناظر کی وجہ سے شہرت تو مل گئی مگر گزشتہ قسط نے اس ڈرامے کے مداحوں کو بھی حیران کرکے رکھ دیا۔ ڈرامے کی اس قسط کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے کہ اچانک یہ کیا ہوگیا۔ شکر یہ ہے کہ مداحوں کی بھی آنکھیں کھل گئیں اور اب وہ بھی اس ڈرامے کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں۔


میرا سوال یہ ہے کہ جس ڈرامے کے پڑوسی ملک سمیت پوری دنیا میں چرچے ہورہے ہیں کیا پاکستان کا سنسر بورڈ اس واہیات مواد سے ناواقف ہے؟ شوہر کو تھپڑ مارنا، منہ پر تھوکنا اور شوہر کا بیوی کو زیادتی کا نشانہ بنانا، کیا یہ سب پاکستان کے عوامی چینلز پر دکھائے جانے کے قابل ہے؟ سنسر بورڈ کون سی غفلت کی نیند سورہا ہے جو پہلے اس ڈرامے کے ضرورت سے زیادہ رومانوی مناظر اور اب شوہر کی بےعزتی اور بیوی کی بے حرمتی پر خاموش ہے؟


اس ڈرامے کو لکھنے والی خاتون کو میرا سلام ہے۔ یہ یقیناً 'اپنا کھانا خود گرم کرو' والی برگر خاتون ہیں، جو اس ڈرامے کی پہلی قسط سے لے کر اب تک بس یہی ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ 'میرا جسم میری مرضی' ہی چلے گی۔ شوہر کی عزت، اُس کی فرمانبرداری اور اس کے حقوق کو کھاتے میں ہی نہیں لانا چاہتیں۔ اس کے برعکس مرتسم ایک اچھا اور محبت کرنے والا شوہر دکھائی دے رہا ہے جو اپنی بیوی کی ہر غلطی اور بدتمیزی کو برداشت کررہا ہے۔


یعنی اس ڈرامے میں ایک سیدھے سادھے اور قابلِ عزت مرد کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پہلے تو اپنی بیوی کی ہر ضد کو برداشت کرے اور جب برداشت سے باہر ہوجائے تو اس کی بے حرمتی پر اُتر آئے۔ ایسے ڈرامے سے قوم کیا سیکھے گی؟ اس طرح کے ڈرامے خواتین اور مردوں کو کیا کرنے پر اُکسائیں گے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔


اگر اس طرح کے ایک دو اور ڈرامے بن گئے تو یقین جانیے، جن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ٹِک ٹاک پر بےحیائی سے ہم پریشان تھے، اب وہ اس جیسے ڈراموں کی وجہ سے حقیقی زندگی میں بھی اتنے ہی میرب اور مرتسم بن جائیں گے اور پھر ان کے گھروں کا اللہ ہی حافظ ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں