چین وسطی ایشیا سربراہی اجلاس قریبی تعلقات استوارکرنےکیلئے سنگ میل ثابت ہو گا

چ

27 اکتوبر 2020ء کو کرغیزستان میں شمال جنوب ہائی وے کے دوسرے مرحلے کے تعمیراتی کام کا فضائی منظر۔ فوٹو: شنہوا

عالمی منظر نامے پر ایک غیر معمولی و تاریخی سربراہی اجلاس چین میں ہو چکا ہے۔ جس میں چین اور 5 وسطی ایشیائی ممالک نےمشترکہ اور محفوظ مستقبل کے لئے ہم آہنگی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر مستحکم دنیا کو مکمل یکجہتی، پائیدار ترقی اور امن کا پیغام دیا ہے۔

چین کے صدر شی جن پھنگ نے چین - وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کی صدارت کی اوریہ چین اوروسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات تھی جو کہ 18 اور 19 مئی کو چین کے شمال مغربی صوبے شانشی کے شہر شی آن میں منعقد ہوئی۔ اجلاس میں سربراہان کی جانب سے چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تعلقات کی مزید مضبوطی کے لئے بھرپور تجاویز پیش کی گئیں۔

اس سربراہی اجلاس کو چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تیزی سے بڑھتے تعلقات، اقتصادی تعاون اور عوامی سطح پر روابط کے قیام کیلئے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

باہمی سیاسی اتحاد

2013ء میں شی جن پھنگ چین کے سربراہ کے طور پر پہلی بار وسطی ایشیا گئے جہاں انہوں نے ترکمانستان، قازقستان، ازبکستان اور کرغیزستان کے دورے کیے۔

شی نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ چین اور وسطی ایشیائی ممالک مشترکہ پہاڑوں اور دریاؤں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہمسایہ دوست ممالک ہیں۔ چین ان ممالک کے ساتھ اپنی دوستی اور تعاون کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انہیں اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحی فہرست میں رکھتا ہے۔

دوروں کے دوران وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کو فروغ دیا گیا۔ اگلے سال، شی نے تاجکستان کا سرکاری دورہ کیا، جس کے دوران دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لئے اتفاق رائے ہوا۔

گزشتہ دہائی میں، شی نے 7 مرتبہ وسطی ایشیا کا دورہ کیا اور چین میں متعدد وسطی ایشیائی قائدین کی میزبانی بھی کی۔ شی نے خطے کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے ساتھ اہم امور پر بھرپور تبادلہ خیال اور مشاورت کی، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات ایک منفرد قسم کے عالمی تعلقات کے قیام کا بہترین نمونہ ہیں۔

ان بے مثال روابط میں بہت سے ناقابل فراموش لمحات بھی موجود ہیں، شی نے روایتی تاجک لباس پہنا، کرغیز محاوروں کا حوالہ دیا، ازبکستان کے قدیم شہروں اور ترکمانستان کے ایک چھوٹے سے قصبے کی سیر کی، جبکہ چین میں خون کا عطیہ کرنے والے قازق طالب علم کی کہانی سنائی۔ ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ صدرشی نے 5 وسطی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ مصروف ترین وقت گزارا۔

چینی سربراہ مملکت کی سفارت کاری کی رہنمائی میں چین اور وسطی ایشیا کے درمیان دوستی اور باہمی سیاسی اعتماد کو مسلسل بڑھایا گیا ہے۔

چین اور وسطی ایشیائی ممالک نے خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت سے متعلق معاملات میں ہمیشہ ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کی ہے اس کے علاوہ ترقی کے راستوں اور انتظامی نمونوں کے قیام کے لئے بھرپور تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی، بین الاقوامی منظم جرائم اور منشیات کی اسمگلنگ سے لڑنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون شروع کیا۔ انہوں نے بیرونی مداخلت یا "رنگین انقلاب" کو بھڑکانے کی کوششوں کی بھی سخت مخالفت کی ہے۔

جنوری 2022ء میں، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر ورچوئل سربراہی اجلاس سے خطاب میں، شی نے کہا کہ "گزشتہ تین دہائیوں کے دوران چین اور وسطی ایشیا کے 5 ممالک کے درمیان کامیاب اور بھرپور تعاون کا راز باہمی احترام، بطور ہمسائے اچھی دوستی، مشکل وقت میں غیر متزلزل یکجہتی اور مشترکہ مفادات کے لئے ہمارے مستقل عزم میں مضمر ہے۔"

سب کے بہتر مستقبل کے لئے تعاون


7 ستمبر 2013ء کو، قازقستان کی نظر بایف یونیورسٹی میں خطاب کے دوران، شی نے پہلی بار " اکنامک بیلٹ اینڈ سلک روڈ" منصوبے کے قیام کی تجویز پیش کی۔

پچھلی دہائی کے دوران، وسطی ایشیائی ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے بانی یا آغاز کرنیوالے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور انہوں نے اس خطے کو بی آر آئی کی اعلیٰ معیار کی ترقی کی ایک مثال کے طور پر تعمیر کیا ہے،سامان سے مکمل طور پر بھری ہوئے فراٹے بھرتی ٹرینوں سے لے کر پیداواری اہداف کے حصول اور قدرتی گیس کی پائپ لائنز تک، بھرپور تعاون کے نتیجے میں مشترکہ ترقی کے ثمرات نمایاں ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں، ایک مال بردار ٹرین 260 سے زائد نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیاں لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچی۔ بی آر آئی کی 10 ویں سالگرہ کے موقع پر، اس ٹرین کا 12 روزہ سفر شی آن سے شروع ہوا، جو کہ قدیم شاہراہ ریشم کے آغاز کا مقام ہے۔

اس وقت، 17 ریلوے کے روٹس شی آن شہر کو وسطی ایشیائی ممالک اور بہت سے دوسرے ایشیائی اور یورپی مقامات سے جوڑنے کے لئے موجود ہیں، جہاں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران 1100 سے زائد ٹرینوں کی آمد و رفت ہوئی ہے، یہ مصروف ٹرینیں چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان مضبوط تجارت کا مظہر ہیں۔ 2022 میں، تجارتی حجم 70.2 ارب امریکی ڈالر کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، جو تقریباً 3 دہائیوں قبل سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد سے 100 گنا زیادہ تھا۔

چین - وسطی ایشیا گیس پائپ لائن اور ازبکستان میں قامچق ریلوے سرنگ سے لے کر قازقستان میں زہنتاس ونڈ پاور سٹیشن اور کرغیزستان میں شمال۔جنوب ہائی وے کے قیام تک، متعدد مشترکہ منصوبے صنعتی ترقی اور معاشی بہتری کا ذریعہ بنے ہیں۔

حکام اور ماہرین پرامید ہیں کہ سربراہی اجلاس چین - وسطی ایشیا تعاون میں ایک نئے اور روشن باب کا آغاز کرے گا۔

وزارت تجارت کی ترجمان شو جوئے ٹنگ نے کہا کہ چین نے سربراہی اجلاس کو ایک موقع کے طور لیا ہے اور مستقبل میں اقتصادی و تجارتی تعاون کو نئی سطح پر لے جانے کے لئے وسطی ایشیا کے 5 ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز میں انسٹی ٹیوٹ آف رشین، ایسٹرن یورپی اور سنٹرل ایشین اسٹڈیز کے محقق سو چانگ کے مطابق چین - وسطی ایشیا کے اقتصادی تعاون کو مزید شعبوں تک فروغ دیا جائے گا، خاص طور پر ان میں ای کامرس، ڈیجیٹل اکانومی اور کاروبار کی نئی اقسام سمیت مختلف شعبہ جات شامل ہیں۔

مختلف شعبوں میں باہمی روابط

اب تک چین اور 5 وسطی ایشیائی ممالک کے 124صوبوں، علاقوں اور شہروں کو جڑواں قرار دیا جا چکا ہے۔ چینی جامعات عوامی سطح پر مضبوط رابطوں، باہمی افہام و تفہیم اور تعلق کو فروغ دینے کے لئے وسطی ایشیاکے زیادہ سے زیادہ طلباء کو داخل کر رہی ہیں۔

قازقستان سے اسماعیل داؤروو نے حصول علم کے لئے 9 سال شی آن میں گزارے۔ وہ شانشی کو اپنا دوسرا آبائی شہر قرار دیتے ہیں، اس نے کووِڈ 19 وبا کے دوران مقامی افراد کے ساتھ رضاکارانہ طور پر امدادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔

اسماعیل کا کہنا تھا "میں ایک غیر ملکی ضرور ہوں، لیکن میں چین میں خود کو اجنبی تصور نہیں کرتا" چین میں بہت سے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ چینی صدر شی نے اپنے الفاظ کو چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے عوام کے درمیان دوستی کی بہترین مثال کے طور پر بھی پیش کیا۔

اسماعیل کی طرح، بہت بڑی تعداد میں وسطی ایشیائی طلبا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے چین کو اپنی ترجیحی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔ کوویڈ - 19 کے وبائی مرض سے پہلے، چین میں زیر تعلیم وسطی ایشیائی طلباء کی تعداد میں 2010ء اور 2018ء کے درمیان سالانہ 12 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا۔ جوں جوں دنیا وبائی مرض کے اثرات سے نکل رہی ہے، ایک دوسرے کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم چینی اور وسطی ایشیائی طلباء کی تعداد میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کی توقع بڑھ رہی ہے۔

چائنا یونیورسٹی آف پیٹرولیم میں زیر تعلیم وسطی ایشیائی طلبا کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے، صدر شی نے طلبہ کی ان الفاظ سے حوصلہ افزائی کی کہ وہ دوستی کے سفیر ہیں، آپس میں تعلقات کو مزید بڑھانے اور بہترین بنانے کے لئے پل کا کرداد ادا کرنے کے ساتھ ساتھ چین - وسطی ایشیا کے عوام کو مزید قریب لانے اور مشترکہ تابناک مستقل کے لئے اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔

چین - وسطی ایشیاسربراہی اجلاس کے ٹھوس نتائج برآمد ہونے کے ساتھ، یہ توقع بھی ہے کہ چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں نئی پیش رفت ہو گی۔
Load Next Story