ٹیکسٹائل برآمدات اور تیل کی قیمتوں میں کمی
پاکستان کپاس کی پیداوار میں اس وقت بھی دنیا کا چوتھا بڑا ملک مانا جاتا ہے۔ اگرچہ کپاس کی مجموعی پیداوار میں کسی سال اضافہ اور کبھی کمی واقع ہوتی رہتی ہے، کپاس کی پیداوار کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے سلسلے میں تخصیص حاصل تھی اور ٹیکسٹائل مصنوعات دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت سستی تیاری میں اپنا لوہا منوا چکا تھا۔
یورپ میں صنعتی انقلاب آیا، پھر وہاں ٹیکسٹائل مشینریاں بھی بننے لگیں، ادھر ہندوستان میں انگریز اپنے قدم جماتے ہوئے کراچی کی بندرگاہ تک پہنچے۔ پھر یہاں سے وہ ملیر تک پہنچے، ان کی نظر سندھ اور پنجاب کی زرخیز زمینوں پر تھی، جہاں کی روپہلی ریشوں (کپاس) کی مانگ مانچسٹر اور برمنگھم کی ٹیکسٹائل ملوں کی تھی۔
ان کی طلب پوری کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی اور 1843 میں انگریزوں نے کراچی سے کوٹری تک پہلی ریلوے لائن ڈال کر اس پر ریل گاڑی بھی چلا دی۔ بعد میں اس ریلوے لائن کی توسیع کرتے ہوئے اسے پنجاب سے ملا دیا گیا۔ ادھر بندرگاہ کی گودی تیار ہوئی اور وہاں پر کپاس کے ڈھیر لگائے جانے لگے اور جہاز بھر بھر کر انگلستان پہنچائے جاتے رہے ،جہاں سے ولایتی کپڑا تیار ہو کر دنیا بھر میں منہ مانگے داموں فروخت ہوتارہا۔
کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں چند ہی ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے سندھ، پنجاب اور دیگر ملحقہ علاقے نہری نظام سے وابستہ ہوگئے۔ کپاس کی خوب فصل پیدا ہوتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے کئی تاجر پیشہ خاندان جوکہ ٹیکسٹائل، کپڑے کی تجارت میں صدیوں کا تجربہ رکھتے تھے وہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی جانب متوجہ ہوئے پہلے دوسرے منصوبے میں اس جانب بھرپور توجہ دی گئی۔
سابقہ لائل پور جلد ہی پاکستان کا مانچسٹر بن گیا۔ لاہور، ملتان، کراچی اور دیگر شہروں قصبوں میں ٹیکسٹائل ملیں قائم ہونا شروع ہوگئیں اور پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے عروج کا دور شروع ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا مشرقی حصہ جوکہ پٹ سن کی پیداوار میں دنیا بھر میں مشہور تھا وہاں پر پٹ سن کی پیداوار سے مصنوعات بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں لگ گئیں۔
پاکستان نے جنوبی کوریا کی جنگ کے دوران پٹ سن اور کپاس کی بڑی مقدار برآمد کرکے اپنے توازن تجارت کو موافق بنالیا تھا جوکہ کرنسی کی مضبوطی کا سبب بھی بنا۔
پھر ایک دور آیا کہ پاکستان میں بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہونے لگی جسے پورا کرنے کے لیے تیل کے ذریعے مہنگی بجلی کی پیداوار شروع کی گئی جس نے ٹیکسٹائل مالکان کے لیے کاروبار کرنا مشکل کردیا کیونکہ بڑھتی لاگت کا مقابلہ عالمی مارکیٹ میں ممکن نہ رہا۔ پھر یہاں کے کئی صنعتکار اپنے تجربے کو لے کر بنگلہ دیش گئے۔
وہاں پر پاکستان سے خام مال کپاس، دھاگہ اور دیگر منگوا کر سستے داموں ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری شروع کردی۔ حکومت کی طرف سے وہاں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ہر طرح کی مراعات فراہم کی گئیں۔ مقامی صنعتکاروں نے بھی اس شعبے میں بھرپور حصہ لیا۔ عالمی سرمایہ کاروں نے بھی سرمایہ کاری کی۔ اب وہاں کی صرف گارمنٹ سیکٹر کی برآمدات پاکستان کی کل برآمدات سے بڑھ چکی ہیں۔
اس سلسلے میں چند اعداد و شمار پیش خدمت ہیں۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2021 تا مارچ 2022 ان 9 ماہ کی ٹیکسٹائل برآمدات 14 ارب 24 کروڑ 26 لاکھ ڈالرز کی تھیں اور رواں مالی سال جولائی 2022 تا مارچ 2023 تک کی ٹیکسٹائل برآمدات 12 ارب 47 کروڑ 64 لاکھ 59 ہزار ڈالرز کے ساتھ 12.40 فیصد کمی نوٹ کی گئی۔
اس دوران بنگلہ دیش کی صرف گارمنٹ ایکسپورٹ میں 12.17 فیصد اضافہ ہوکر جولائی 2022 تا مارچ 2023 کے دوران 35 ارب ڈالر کی رہیں۔ اب آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان میں 12 فیصد کمی اور بنگلہ دیش میں 12 فیصد اضافہ صرف یہی نہیں اصل بات یہ ہے کہ صرف گارمنٹ برآمدات ہی ہماری کل ٹیکسٹائل برآمدات سے تقریباً تین گنا زائد ہے یعنی ہماری تقریباً ساڑھے 12 ارب ڈالر اور ان کی 35 ارب ڈالر سے زائد یہ ایک تین کی نسبت ظاہر کر رہی ہے۔
اس طرح سے معاملات مسلسل بگڑتے چلے جائیں گے، لہٰذا حکومت کوئی ایسی مستقل پالیسی کا اجرا کرے جس پر آنے جانے والی حکومتوں کے اثرات کم اور صرف برآمدات تجارت و معیشت کو ہی مدنظر رکھا جائے۔
چند دن قبل حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے ضمن میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے تیس روپے تک کمی کردی ہے۔
اس سے قبل جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی یا قدرے زیادہ اضافہ ہوتا رہا ہے، ٹرانسپورٹرز، سوزوکی، ٹیکسی، رکشہ، مزدا، وین، چنگچی والے اپنے کرایوں میں من مانہ اضافہ کرتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ اس کمی کے باوجود ان کی طرف سے خاموشی ہے۔ جواز یہ کہ پٹرول، ڈیزل کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ صوبہ سندھ کی طرف سے اگر سخت اقدام اٹھایا جاتا ہے تو یہ بات قابل ستائش ہوگی کہ کرایوں میں کمی لائی جائے اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں کی انتظامیہ کو بھی اسے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک بھر میں کرایوں میں کمی لائی جائے اور 31 مئی کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی لائی جائے تاکہ کرائے مزید کم ہو کر مہنگائی میں مزید کمی ہو۔
یورپ میں صنعتی انقلاب آیا، پھر وہاں ٹیکسٹائل مشینریاں بھی بننے لگیں، ادھر ہندوستان میں انگریز اپنے قدم جماتے ہوئے کراچی کی بندرگاہ تک پہنچے۔ پھر یہاں سے وہ ملیر تک پہنچے، ان کی نظر سندھ اور پنجاب کی زرخیز زمینوں پر تھی، جہاں کی روپہلی ریشوں (کپاس) کی مانگ مانچسٹر اور برمنگھم کی ٹیکسٹائل ملوں کی تھی۔
ان کی طلب پوری کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی اور 1843 میں انگریزوں نے کراچی سے کوٹری تک پہلی ریلوے لائن ڈال کر اس پر ریل گاڑی بھی چلا دی۔ بعد میں اس ریلوے لائن کی توسیع کرتے ہوئے اسے پنجاب سے ملا دیا گیا۔ ادھر بندرگاہ کی گودی تیار ہوئی اور وہاں پر کپاس کے ڈھیر لگائے جانے لگے اور جہاز بھر بھر کر انگلستان پہنچائے جاتے رہے ،جہاں سے ولایتی کپڑا تیار ہو کر دنیا بھر میں منہ مانگے داموں فروخت ہوتارہا۔
کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں چند ہی ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے سندھ، پنجاب اور دیگر ملحقہ علاقے نہری نظام سے وابستہ ہوگئے۔ کپاس کی خوب فصل پیدا ہوتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے کئی تاجر پیشہ خاندان جوکہ ٹیکسٹائل، کپڑے کی تجارت میں صدیوں کا تجربہ رکھتے تھے وہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی جانب متوجہ ہوئے پہلے دوسرے منصوبے میں اس جانب بھرپور توجہ دی گئی۔
سابقہ لائل پور جلد ہی پاکستان کا مانچسٹر بن گیا۔ لاہور، ملتان، کراچی اور دیگر شہروں قصبوں میں ٹیکسٹائل ملیں قائم ہونا شروع ہوگئیں اور پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے عروج کا دور شروع ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا مشرقی حصہ جوکہ پٹ سن کی پیداوار میں دنیا بھر میں مشہور تھا وہاں پر پٹ سن کی پیداوار سے مصنوعات بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں لگ گئیں۔
پاکستان نے جنوبی کوریا کی جنگ کے دوران پٹ سن اور کپاس کی بڑی مقدار برآمد کرکے اپنے توازن تجارت کو موافق بنالیا تھا جوکہ کرنسی کی مضبوطی کا سبب بھی بنا۔
پھر ایک دور آیا کہ پاکستان میں بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہونے لگی جسے پورا کرنے کے لیے تیل کے ذریعے مہنگی بجلی کی پیداوار شروع کی گئی جس نے ٹیکسٹائل مالکان کے لیے کاروبار کرنا مشکل کردیا کیونکہ بڑھتی لاگت کا مقابلہ عالمی مارکیٹ میں ممکن نہ رہا۔ پھر یہاں کے کئی صنعتکار اپنے تجربے کو لے کر بنگلہ دیش گئے۔
وہاں پر پاکستان سے خام مال کپاس، دھاگہ اور دیگر منگوا کر سستے داموں ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری شروع کردی۔ حکومت کی طرف سے وہاں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ہر طرح کی مراعات فراہم کی گئیں۔ مقامی صنعتکاروں نے بھی اس شعبے میں بھرپور حصہ لیا۔ عالمی سرمایہ کاروں نے بھی سرمایہ کاری کی۔ اب وہاں کی صرف گارمنٹ سیکٹر کی برآمدات پاکستان کی کل برآمدات سے بڑھ چکی ہیں۔
اس سلسلے میں چند اعداد و شمار پیش خدمت ہیں۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2021 تا مارچ 2022 ان 9 ماہ کی ٹیکسٹائل برآمدات 14 ارب 24 کروڑ 26 لاکھ ڈالرز کی تھیں اور رواں مالی سال جولائی 2022 تا مارچ 2023 تک کی ٹیکسٹائل برآمدات 12 ارب 47 کروڑ 64 لاکھ 59 ہزار ڈالرز کے ساتھ 12.40 فیصد کمی نوٹ کی گئی۔
اس دوران بنگلہ دیش کی صرف گارمنٹ ایکسپورٹ میں 12.17 فیصد اضافہ ہوکر جولائی 2022 تا مارچ 2023 کے دوران 35 ارب ڈالر کی رہیں۔ اب آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان میں 12 فیصد کمی اور بنگلہ دیش میں 12 فیصد اضافہ صرف یہی نہیں اصل بات یہ ہے کہ صرف گارمنٹ برآمدات ہی ہماری کل ٹیکسٹائل برآمدات سے تقریباً تین گنا زائد ہے یعنی ہماری تقریباً ساڑھے 12 ارب ڈالر اور ان کی 35 ارب ڈالر سے زائد یہ ایک تین کی نسبت ظاہر کر رہی ہے۔
اس طرح سے معاملات مسلسل بگڑتے چلے جائیں گے، لہٰذا حکومت کوئی ایسی مستقل پالیسی کا اجرا کرے جس پر آنے جانے والی حکومتوں کے اثرات کم اور صرف برآمدات تجارت و معیشت کو ہی مدنظر رکھا جائے۔
چند دن قبل حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے ضمن میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے تیس روپے تک کمی کردی ہے۔
اس سے قبل جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی یا قدرے زیادہ اضافہ ہوتا رہا ہے، ٹرانسپورٹرز، سوزوکی، ٹیکسی، رکشہ، مزدا، وین، چنگچی والے اپنے کرایوں میں من مانہ اضافہ کرتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ اس کمی کے باوجود ان کی طرف سے خاموشی ہے۔ جواز یہ کہ پٹرول، ڈیزل کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ صوبہ سندھ کی طرف سے اگر سخت اقدام اٹھایا جاتا ہے تو یہ بات قابل ستائش ہوگی کہ کرایوں میں کمی لائی جائے اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں کی انتظامیہ کو بھی اسے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک بھر میں کرایوں میں کمی لائی جائے اور 31 مئی کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی لائی جائے تاکہ کرائے مزید کم ہو کر مہنگائی میں مزید کمی ہو۔