سندھو سلطنت ایک غیر معمولی سفر نامہ
دریاؤں کو ہمیشہ سے محض ایک مظہر فطرت سے بڑھ کر زندہ شخصیت کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پانی نے قبل از تاریخ کے زمانوں سے انسانوں کو اپنے قریب جمع ہونے پر آمادہ کیا۔
یوں انسانی تہذیب دریاؤں کے کناروں پر پروان چڑھی۔ عظیم تہذیبوں کی زندگی کی ڈور عظیم دریاؤں کی روانی سے بندھی ہوئی تھی۔ وہ دریائے نیل ہو، دریائے فرات ہو، چین کا دریائے زرد ہو یا پھر پاکستان کا شیر دریا، دریائے سندھ ہو، ان دریاؤں کے پانیوں نے انسانی تہذیب و تمدن کو سیراب کیا ہے اور آج تک دریاؤں کے نسل انسانی پر احسانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
'The Charge of The Light Brigade' ایسی شہرہ آفاق نظم ہے جس نے لارڈ الفرڈ ٹینیسن کو عالمگیر شہرت عطا کی۔ برطانیہ کا وکٹورین عہد ٹینیسن کی شاعری کا عہد کہلاتا ہے۔
اس غیر معمولی نظم نے جہاں شمشیروں سے مسلح سات سو سپاہیوں کے ایک دستے کے توپوں کے ساتھ بِھڑ جانے کی کہانی بیان کی ہے، وہیں فوج میں حکم کو ہر حال میں ماننے کے اُصول کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ شعروں میں ڈھالا ہے۔ اس نظم کے دو مصرعے تو عسکری ڈسپلن کے لیے ضرب المثل کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔
Theirs not to reason why
Theirs but to do and die
انھی لارڈ ٹینیسن کی ایک نظم کا نام ہے 'The Brook'،اس نظم کا موضوع وہ ندی ہے جو کسی عظیم دریا کا منبع ہوتی ہے۔ بالائی پہاڑی علاقوں سے پھوٹنے والی یہ ندیاں پہاڑی ڈھلانوں سے پھسلتی، مڑتی، اُچھلتی کودتی دریاؤں سے ہمکنار ہوتی ہیں تو ایک عظیم سیل رواں کو جنم دیتی ہیں اور یہ دریا انسانی بستیوں کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ ٹینیسن نے اپنی نظم 'The Brook' یعنی 'ندی' میں بھی پانی کے اس سوتے کو ایک زندہ سانس لیتی، سوچتی سمجھتی، محسوس کرتی اور بولتی شخصیت کی طرح پیش کیا ہے۔
اس نظم میں ندی اپنے سفر کے آغاز سے لے کر دریا سے ہم آغوش ہونے کی کہانی خود اپنی زبانی بیان کر رہی ہے۔ لارڈ ٹینیسن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بلا کا ترنم اور نغمگی ہے، جو بالعموم انگریزی زبان کی شعری نگارشات میں ہم برصغیر کے اُردو بولنے والوں کو مفقود نظر آتی ہے۔
اس نظم میں ندی اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہتی ہے۔ ''میں نے وہاں سے اپنا سفر شروع کیا جو آبی پرندوں کا مسکن ہے اور پھر میں اچانک یوں پہاڑوں میں سے پھوٹ پڑی جیسے محاصرے میں آئی قلعہ بند فوج اچانک دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔
میں دسیوں پہاڑوں سے تیزی سے اُترتے ہوئے چٹانی درزوں سے پھسلتی چلی گئی، کئی بستیوں اور ایک قصبے سے گزرتے ہوئے میں کتنے ہی پلوں کے نیچے سے گزرتی ہوں اور دریا میں جا اُترتی ہوں،،۔ نظم میں وہ تمام خوبصورتیاں بیان ہوتی ہیں جو کسی پہاڑی ندی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اس کا شفاف پانی، اس کی تہہ میں چمکتے چکنے خوبصورت پتھر اور سنگ ریزے، اس کا بلندیوں سے نیچے وادیوں میں اُترنا، اس کے تیکھے موڑ اور شور مچاتا پانی، جنگلات، اس پر چمکتا پورا چاند اور جھلملاتے ستارے۔ نظم میں ایک مصرعہ بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہی مصرعہ اس نظم کی جان ہے، اور زندگی کا بنیادی فلسفہ بھی۔
For Men May Come And men May go, But I go on Forever
''لوگ آتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں، لیکن مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہتے رہنا ہے''
کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب تبصرے کے لیے دفتر میں موصول ہوئی، جس کا نام ہے 'سندھو سلطنت، دریائے سندھ کی کہانی اس کی زبانی'۔ اس کتاب کا عنوان ہی میرے لیے بہت پُرکشش تھا۔ بڑی وجہ تو سیاحت سے لگاؤ اور دوسری وجہ یہ رہی کہ بہت برس پہلے پڑھی ممتاز برطانوی سیاح Dervla Murphy کی کتاب 'Where The Indus is Young' کی یاد آئی۔
میں نے اپنی زندگی میں جو بہترین سفرنامے پڑھے یہ کتاب اُن میں سے ایک ہے۔ سندھو سلطنت کو پڑھنا شروع کیا تو کتاب کے مصنف شہزاد احمد حمید کی زندگی کے دو ایسے حوالے سامنے آئے جو کہیں نہ کہیں میری زندگی کے ساتھ بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ پہلا حوالہ عطا محمد ہائی اسکول گوجرانوالہ ہے جو میرا بھی اسکول رہا ہے۔
گوکہ مصنف کے برعکس میرا شمار کلاس کے محنتی اور اچھا پڑھنے والوں میں نہیں ہوتا تھا، لیکن میرے زمانہ طالب علمی کی یادیں بھی انھی در دیوار اور اُسی گراؤنڈ کے ساتھ وابستہ ہیں جس کا ایک درخت ایستادہ ہونے کے بجائے زمین کی جانب اتنا جھکا ہوا تھا کہ ہم یوں اس پر چڑھ جاتے تھے جیسے کسی ڈھلان پر چڑھتے ہیں۔
دوسرا حوالہ کوئٹہ ہے جو مصنف کی جائے پیدائش ہے، لیکن میں نے اپنی ملازمت کا آغاز اس شہر کی جمعیت رائے روڈ پر واقع ایک اردو روزنامہ سے کیا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ حوالے تو کتاب اور صاحب کتاب کی جانب متوجہ کرنے کا باعث بنے لیکن یہ کتاب اپنے آپ میں ایک شاندار تصنیف ہے۔
سفرنامے اور سوانح کا شمار نثری اظہاریئے کے باب میں سب سے دلچسپ تخلیقات میں ہوتا ہے۔ مصنف نے اس سفرنامے کے بیانیے کو اس اعتبار سے اور بھی رومانوی رنگ دے دیا کہ دریائے سندھ لارڈ ٹینیسن کی 'ندی' کی طرح اپنی کہانی خود بیان کر رہا ہے۔
اس سفرنامے کا ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ یہ کسی مخصوص علاقے کو موضوع بنا کر نہیں لکھا گیا بلکہ اس کا اصل موضوع دریائے سندھ ہے اور وہ تمام علاقے اس دریا کے حوالے ہی سے زیر بحث آتے ہیں، جہاں جہاں سے اس دریا کا گزر ہوتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے اس سفرنامے کے صفحات پر پھیلی تحریر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ محض مصنف کی ذاتی آراء اور محسوسات تک محدود نہیں بلکہ اس کے لیے تاریخ اور دیگر متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کیا گیا ہے۔ شہزاد حمید سے اس بات کی توقع کی بھی جانی چاہیے کیونکہ مصنف پیشہ ورانہ اعتبار سے پاکستان سول سروس سے وابستہ رہے ہیں۔
شہزاد حمید کے ساتھ میرا تعارف اسی ایک کتاب کے توسط سے ہوا ہے لیکن اس سے قبل بھی ان کی تین کتابیں 'قراقرم کے ساتھ ساتھ' 'جہانِ سنگ' اور 'ریت سے روح تک' شایع ہوچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب دریائے سندھ کے منبع کے بارے میں بحث سے لے کر اس کے سمندر سے ہم آغوش ہونے تک' راستے میں آنے والے تمام علاقوں کے حوالے سے دلچسپ معلومات اور مصنف کے اپنے محسوسات پر مشتمل ہے۔
ایک معیاری سفرنامے کا سب سے بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ دوران سفر کوئی اہم تاریخی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی حوالہ سامنے آنے کے بعد اس بارے میں پیدا ہونے والے تمام امکانی سوالات کا شافی جواب فراہم کرے۔ زیر نظر سفرنامہ اس معیار پر پورا اُترتا ہے۔
یہ اسی طرح سے ہے جیسے سڑک پر چلتے چلتے مسافر دائیں بائیں پگڈنڈیوں پر دور تک نکل جاتا ہے اور پھر واپس اصل راستے پر آجاتا ہے۔ یوں یہ کتاب محض ایک سفرنامہ نہیں رہی بلکہ اس کی اہمیت حوالہ جاتی ہوگئی ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ مسافت کا یہ تجربہ ایک ہی سانس میں طے نہیں ہوا اور ایسا کر پانا ممکن بھی نہیں رہا ہوگا، بلکہ یہ سفر مختلف اوقات میں پانچ مراحل میں مکمل ہوا ہے اور پھر کتابی شکل میں مربوط کیا گیا ہے۔
میرے لیے اس سفرنامے کے ساتھ وقت گزارنا بجا طور پر ایک ایسا تجربہ رہا ہے جس میں انسان دوسروں کو شریک کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے اور یہ کالم اسی خواہش کی کسی حد تک تشفی کرنے کی ایک سبیل ہے۔
یوں انسانی تہذیب دریاؤں کے کناروں پر پروان چڑھی۔ عظیم تہذیبوں کی زندگی کی ڈور عظیم دریاؤں کی روانی سے بندھی ہوئی تھی۔ وہ دریائے نیل ہو، دریائے فرات ہو، چین کا دریائے زرد ہو یا پھر پاکستان کا شیر دریا، دریائے سندھ ہو، ان دریاؤں کے پانیوں نے انسانی تہذیب و تمدن کو سیراب کیا ہے اور آج تک دریاؤں کے نسل انسانی پر احسانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
'The Charge of The Light Brigade' ایسی شہرہ آفاق نظم ہے جس نے لارڈ الفرڈ ٹینیسن کو عالمگیر شہرت عطا کی۔ برطانیہ کا وکٹورین عہد ٹینیسن کی شاعری کا عہد کہلاتا ہے۔
اس غیر معمولی نظم نے جہاں شمشیروں سے مسلح سات سو سپاہیوں کے ایک دستے کے توپوں کے ساتھ بِھڑ جانے کی کہانی بیان کی ہے، وہیں فوج میں حکم کو ہر حال میں ماننے کے اُصول کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ شعروں میں ڈھالا ہے۔ اس نظم کے دو مصرعے تو عسکری ڈسپلن کے لیے ضرب المثل کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔
Theirs not to reason why
Theirs but to do and die
انھی لارڈ ٹینیسن کی ایک نظم کا نام ہے 'The Brook'،اس نظم کا موضوع وہ ندی ہے جو کسی عظیم دریا کا منبع ہوتی ہے۔ بالائی پہاڑی علاقوں سے پھوٹنے والی یہ ندیاں پہاڑی ڈھلانوں سے پھسلتی، مڑتی، اُچھلتی کودتی دریاؤں سے ہمکنار ہوتی ہیں تو ایک عظیم سیل رواں کو جنم دیتی ہیں اور یہ دریا انسانی بستیوں کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ ٹینیسن نے اپنی نظم 'The Brook' یعنی 'ندی' میں بھی پانی کے اس سوتے کو ایک زندہ سانس لیتی، سوچتی سمجھتی، محسوس کرتی اور بولتی شخصیت کی طرح پیش کیا ہے۔
اس نظم میں ندی اپنے سفر کے آغاز سے لے کر دریا سے ہم آغوش ہونے کی کہانی خود اپنی زبانی بیان کر رہی ہے۔ لارڈ ٹینیسن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بلا کا ترنم اور نغمگی ہے، جو بالعموم انگریزی زبان کی شعری نگارشات میں ہم برصغیر کے اُردو بولنے والوں کو مفقود نظر آتی ہے۔
اس نظم میں ندی اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہتی ہے۔ ''میں نے وہاں سے اپنا سفر شروع کیا جو آبی پرندوں کا مسکن ہے اور پھر میں اچانک یوں پہاڑوں میں سے پھوٹ پڑی جیسے محاصرے میں آئی قلعہ بند فوج اچانک دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔
میں دسیوں پہاڑوں سے تیزی سے اُترتے ہوئے چٹانی درزوں سے پھسلتی چلی گئی، کئی بستیوں اور ایک قصبے سے گزرتے ہوئے میں کتنے ہی پلوں کے نیچے سے گزرتی ہوں اور دریا میں جا اُترتی ہوں،،۔ نظم میں وہ تمام خوبصورتیاں بیان ہوتی ہیں جو کسی پہاڑی ندی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اس کا شفاف پانی، اس کی تہہ میں چمکتے چکنے خوبصورت پتھر اور سنگ ریزے، اس کا بلندیوں سے نیچے وادیوں میں اُترنا، اس کے تیکھے موڑ اور شور مچاتا پانی، جنگلات، اس پر چمکتا پورا چاند اور جھلملاتے ستارے۔ نظم میں ایک مصرعہ بار بار دہرایا جاتا ہے اور یہی مصرعہ اس نظم کی جان ہے، اور زندگی کا بنیادی فلسفہ بھی۔
For Men May Come And men May go, But I go on Forever
''لوگ آتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں، لیکن مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہتے رہنا ہے''
کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب تبصرے کے لیے دفتر میں موصول ہوئی، جس کا نام ہے 'سندھو سلطنت، دریائے سندھ کی کہانی اس کی زبانی'۔ اس کتاب کا عنوان ہی میرے لیے بہت پُرکشش تھا۔ بڑی وجہ تو سیاحت سے لگاؤ اور دوسری وجہ یہ رہی کہ بہت برس پہلے پڑھی ممتاز برطانوی سیاح Dervla Murphy کی کتاب 'Where The Indus is Young' کی یاد آئی۔
میں نے اپنی زندگی میں جو بہترین سفرنامے پڑھے یہ کتاب اُن میں سے ایک ہے۔ سندھو سلطنت کو پڑھنا شروع کیا تو کتاب کے مصنف شہزاد احمد حمید کی زندگی کے دو ایسے حوالے سامنے آئے جو کہیں نہ کہیں میری زندگی کے ساتھ بھی جُڑے ہوئے ہیں۔ پہلا حوالہ عطا محمد ہائی اسکول گوجرانوالہ ہے جو میرا بھی اسکول رہا ہے۔
گوکہ مصنف کے برعکس میرا شمار کلاس کے محنتی اور اچھا پڑھنے والوں میں نہیں ہوتا تھا، لیکن میرے زمانہ طالب علمی کی یادیں بھی انھی در دیوار اور اُسی گراؤنڈ کے ساتھ وابستہ ہیں جس کا ایک درخت ایستادہ ہونے کے بجائے زمین کی جانب اتنا جھکا ہوا تھا کہ ہم یوں اس پر چڑھ جاتے تھے جیسے کسی ڈھلان پر چڑھتے ہیں۔
دوسرا حوالہ کوئٹہ ہے جو مصنف کی جائے پیدائش ہے، لیکن میں نے اپنی ملازمت کا آغاز اس شہر کی جمعیت رائے روڈ پر واقع ایک اردو روزنامہ سے کیا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ حوالے تو کتاب اور صاحب کتاب کی جانب متوجہ کرنے کا باعث بنے لیکن یہ کتاب اپنے آپ میں ایک شاندار تصنیف ہے۔
سفرنامے اور سوانح کا شمار نثری اظہاریئے کے باب میں سب سے دلچسپ تخلیقات میں ہوتا ہے۔ مصنف نے اس سفرنامے کے بیانیے کو اس اعتبار سے اور بھی رومانوی رنگ دے دیا کہ دریائے سندھ لارڈ ٹینیسن کی 'ندی' کی طرح اپنی کہانی خود بیان کر رہا ہے۔
اس سفرنامے کا ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ یہ کسی مخصوص علاقے کو موضوع بنا کر نہیں لکھا گیا بلکہ اس کا اصل موضوع دریائے سندھ ہے اور وہ تمام علاقے اس دریا کے حوالے ہی سے زیر بحث آتے ہیں، جہاں جہاں سے اس دریا کا گزر ہوتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے اس سفرنامے کے صفحات پر پھیلی تحریر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ محض مصنف کی ذاتی آراء اور محسوسات تک محدود نہیں بلکہ اس کے لیے تاریخ اور دیگر متعلقہ موضوعات کا گہرا مطالعہ کیا گیا ہے۔ شہزاد حمید سے اس بات کی توقع کی بھی جانی چاہیے کیونکہ مصنف پیشہ ورانہ اعتبار سے پاکستان سول سروس سے وابستہ رہے ہیں۔
شہزاد حمید کے ساتھ میرا تعارف اسی ایک کتاب کے توسط سے ہوا ہے لیکن اس سے قبل بھی ان کی تین کتابیں 'قراقرم کے ساتھ ساتھ' 'جہانِ سنگ' اور 'ریت سے روح تک' شایع ہوچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب دریائے سندھ کے منبع کے بارے میں بحث سے لے کر اس کے سمندر سے ہم آغوش ہونے تک' راستے میں آنے والے تمام علاقوں کے حوالے سے دلچسپ معلومات اور مصنف کے اپنے محسوسات پر مشتمل ہے۔
ایک معیاری سفرنامے کا سب سے بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ دوران سفر کوئی اہم تاریخی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی حوالہ سامنے آنے کے بعد اس بارے میں پیدا ہونے والے تمام امکانی سوالات کا شافی جواب فراہم کرے۔ زیر نظر سفرنامہ اس معیار پر پورا اُترتا ہے۔
یہ اسی طرح سے ہے جیسے سڑک پر چلتے چلتے مسافر دائیں بائیں پگڈنڈیوں پر دور تک نکل جاتا ہے اور پھر واپس اصل راستے پر آجاتا ہے۔ یوں یہ کتاب محض ایک سفرنامہ نہیں رہی بلکہ اس کی اہمیت حوالہ جاتی ہوگئی ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ مسافت کا یہ تجربہ ایک ہی سانس میں طے نہیں ہوا اور ایسا کر پانا ممکن بھی نہیں رہا ہوگا، بلکہ یہ سفر مختلف اوقات میں پانچ مراحل میں مکمل ہوا ہے اور پھر کتابی شکل میں مربوط کیا گیا ہے۔
میرے لیے اس سفرنامے کے ساتھ وقت گزارنا بجا طور پر ایک ایسا تجربہ رہا ہے جس میں انسان دوسروں کو شریک کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے اور یہ کالم اسی خواہش کی کسی حد تک تشفی کرنے کی ایک سبیل ہے۔