خیبر پختونخوا شہد کی مکھیوں کی افزائش کا سب سے بڑا مرکز بن گیا

صوبے میں سالانہ 30 ہزار ٹن شہد پیدا ہونے لگا

پشاور کی پاک انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ سے سالانہ 300 سے 400 کنٹیرز بیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں

خیبر پختونخوا شہد کی مکھیوں کے افزائش کا سب سے بڑا مرکز بن گیا اور یہاں سالانہ 30 ہزار ٹن شہد پیدا ہونے لگی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور کی پاک انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی شہد کی منڈی ہے جہاں سے سالانہ 300 سے 400 کنٹیرز بیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں سن 1989ء میں افغان مہاجرین کی جانب سے شہد کی مکھی کی صنعت متعارف کرائی گئی، اب صوبے میں شہد کی مکھی کا پانچ بکسوں سے شروع ہونے والا کاروبار لاکھوں بکسوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس کاروبار سے 10 سے 15 لاکھ افراد وابستہ ہیں جبکہ سالانہ 30 ہزار ٹن شہد پیدا کیا جارہا ہے جسے خلیجی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔

صوبے کے مختلف اضلاع میں بیری، پلائی، سپرکے اور روبی نیا کا شہد پیدا کیا جاتا ہے جس میں ضلع کرک کے بیری کے شہد کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ پشاور کی پاک انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی شہد کی منڈی ہے جہاں سے سالانہ 300 سے 400 کنٹیرز بیرون ملک برآمد کئے جاتے ہیں۔


کرک میں پیدا ہونے والا بیری کا شہد دنیا کے بہترین شہد میں شمار ہوتا ہے، کرک میں کروڑوں روپے کا شہد پیدا کیا جاتا ہے تاہم شہد کی مکھی کا زہر شہد سے زیادہ مہنگا ہے جو کہ مخلتف ادویات میں استعمال ہوتا ہے جس کی پیداوارکیلئے کئی جدید آلات اور اوزار کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت کی سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے شہد کی مکھی کے زہر کے لیے مگس بان جدید آلات سے آراستہ نہیں ہوسکے۔

آل پاکستان بی کیپرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان مومند کا کہنا ہے کہ موحولیاتی تبدیلی، جدید سہولیات نہ ہونے سے شہد کی پیدوار میں کمی ہو رہی ہے، صوبائی حکومت کی جانب سے شہد کی صنعت کو جدید سہولیات نہ دینے کی وجہ سے انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ کے تاجر پریشان ہیں، شہد کی مکھیوں کا زہر نایاب اور قیمتی ہے اس کو ایکسپورٹ کے قابل بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، شہد کے کاروبار سے وابستہ مگس بان مشکلات کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں سب سے پہلے کورونا وبا دوسری وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور تیسری وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2005 تک بی کیپرز خوش تھے لیکن حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے اب کافی مشکلات کا سامنا ہے جس کا بی کیپرز اور ٹریڈرز کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، شہد کی مکھی کی افزائش جن علاقوں میں ہوتی تھی وہاں جنگلات کا خاتمہ کیا گیا ہے جبکہ موحولیاتی تبدیلی جس میں اچانک بارش کا ہونا اور موسم کے غیر متوقع تبدیلی کی وجہ سے شہد کی پیدوار میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مگس بان کو جدید سہولیات مہیا کی جائیں تاکہ پاکستان اور خاص کر صوبہ خیبرپختونخوا میں بہترین شہد پیدا کیا جا سکے جبکہ یورپی ممالک تک شہد کے ٹریڈ کو پہنچانے کیلئے حکومت اقدامات کرے تاکہ اس صنعت میں مزید مواقع پیدا ہوسکیں۔
Load Next Story