شکست و ریخت
آپ جیسی ، جتنی اور جہاں تک ملک کی سرحد ہے سیاست کیجیے لیکن مذہب اور مدینے کو بیچ میں لائے بغیر
اگر سوشل میڈیا پر آپ صرف چند گھنٹے گزار لیں تو بجا طور پر آپ کسی اچھے پاگل خانے میں داخل ہونے کے لیے بالکل فٹ قرار پائیں گے۔
درجنوں چینلز، درجنوں وی لاگرز، مختلف آراء ، صحافی حضرات ، اینکرز صاحبان اور ان کی سنائی گئی کہانیاں، سمجھ میں نہیں آتا کس پر یقین کریں ؟ کسے سچ مانیں اور کسے نہ مانیں ؟ لیکن وہاں تو ہر ایک تُلا بیٹھا ہے کہ گویا وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وزیراعظم سے، صدر سے اور وزیر اعلیٰ سے مل کر آیا ہے اور اس کا کہا ہوا سو فیصد درست ہے ! ممکن ہے درست بھی ہو لیکن شور اس قدر ہے کہ کان پڑے آواز سنائی نہیں دیتی تو کیا کِیا جائے بس سنتے رہتے ہیں، پڑھتے رہتے ہیں لیکن کوئی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
بہرحال ایک سچ جو ہمارے سامنے ہے وہ تو ماننا ہی ہوگا کہ ملک کے حالات دن بہ دن پیچیدگی اختیار کرتے جا رہے ہیں برداشت کا عنصر تقریبا مفقود ہوچکا۔ یہ ملک کبھی ہماری ترجیح ہوا کرتا تھا کچھ بھی ہو کیسے ہی حالات ہوں، آ پس میں اختلافات کی نوعیت کتنی ہی شدید ہو پہلے پاکستان ہوا کرتا تھا وہ سب کچھ ختم ہوا۔
اب تو حکومت چاہیے ہر قیمت پر ہر حالت میں خواہ ملک رہے نہ رہے ، قوم رہے نہ رہے اقتدار مل جائے اور اس تبدیلی میں ہر طبقہ فکر شامل ہے ، اس میں ہر ایک بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے کسی کو ذرا برابر خیال نہیں کہ پڑوسی ملک میں وہ قوم بیٹھی ہے جس کے قومی ترانے میں آج بھی سندھ کا نام شامل ہے۔ '' سندھ گجرات ، پنجاب مراٹھا ، دراون ، اچل بنگا۔ ''
بد قسمتی ایک قوم کی ایک ملک کی۔ کیا کریں کوئی سننے کو تیار نہیں کسی کو احساس نہیں کہ وہ اس دھرتی پر پیدا ہوا تھا، اسی ملک میں اللہ نے اسے کتنی نعمتوں سے نوازا لیکن ہم سب نے اپنے ملک کو ایک سرائے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ، اس کے وسائل کو لوٹ کا مال سمجھ کر بے دریغ کرپشن کی جب اسے بجلی کی ضرورت تھی تو وہ غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کردی گئی جب اسے ڈیمز کی ضرورت تھی تو اس کے فنڈز کو ہڑپ لیا جب اسے صبر و تحمل کی ضرورت تھی تو بے مقصد لڑائیاں لڑیں ، اپنے بچوں کو تعلیم یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں سے دلوائی ، علاج باہر کے ملکوں سے، انصاف کو درجات میں تقسیم کردیا جو غریب اور امیر کے لیے کبھی یکساں نہیں رہا۔
غریب مرتا رہا ، آپ کے جلسوں ، ریلیوں میں نعرے لگاتا رہا ، فاقے کرتا رہا اپنے بچوں کو دریا اور نہروں میں پھینکتا رہا اور آپ تماشہ دیکھتے رہے ایک ڈپٹی کمشنر ایک ایس ایس پی دس دس ایکڑوں کے بنگلوں میں رہتے ہیں ایک وزیر ، مشیر کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے ایک جج صاحب کی تنخواہ لاکھوں روپے میں ہوتی ہے اور یہ سڑک چھاپ جن کی کمائی سے آپ یہ سب عیش کرتے ہیں وہ خون تھوکتا رہے کیا یہی عدل ہے ، انصاف ہے؟
کیا زمانے کے چلن یہی ہیں اور ان بھوکے ننگے لوگوں کی پیٹھ پر آپ سواری کرتے ہوئے الیکشن لڑتے ہیں انھیں سارے دن کے نعروں کے بدلے میں ایک وقت کی روٹی کھلا کر ان پر احسان کرتے ہیں اور آپ میں سے ہر ایک سیاسی جماعت اور ہر ادارہ ان کی خیر خواہی کا دعوے دار بنتا ہے کہتا ہے کہ اسے عوامی حمایت حاصل ہے یہ جسے آپ عوام کہتے ہیں کبھی آپ نے ان کے گھر دیکھے ہیں؟ آپ کبھی ان کے محلوں میں گئے ہیں ؟ آ پ نے ان کے اسکول ، اسپتال ، گلیاں دیکھی ہیں ؟ جن کی عزت افزائی فرما کر آپ انھیں عوام کا درجہ دیتے ہیں۔
کاش آپ کو ان کے حالات کا علم ہوتا۔ کاش! آپ کو جانتے کہ یہ آٹا کیسے خریدتے ہیں صر ف دال ، سبزی خریدنے کے لیے روزانہ انھیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑ تے ہیں۔ آپ نے تو ان چوبیس کروڑ انسانوں کا تماشہ ہی بنا دیا ، کیا دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں بھی اپنی عوام کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتی ہیں ؟ کیا ہر ملک میں ڈرامے باز ، جھوٹے ، مکار ، کرپٹ سیاستدان ہوتے ہیں۔ کیا کہیں انسان ایک انسانی معاشرے میں آباد نہیں ؟ تقریبا ہر ملک میں ہیں سوائے پاکستان کے جو بنتے ہی نازک دور میں داخل ہوگیا تھا اور پھر کبھی اس نازک دور سے نہیں نکلا۔
ایک جماعت کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں اسلامی طر ز ریاست کے خواہاں ہیں وہ ریاستِ مدینہ کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی کئی خیراتی ادارے قائم کرچکے ہیں جو کامیابی سے گامزن ہیں لیکن سوال یہ ہے کے welfareسیاست سے مختلف ہے میرا خیال ہے کہ آج تک پاکستان میں عبدالستار ایدھی سے زیادہ ویلفیئر کرنے والا کوئی نہیں رہا ، لیکن کیا وہ سیاست میں بھی کامیاب تھے ؟
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیاست میں ایسے کسی فرد کی گنجائش نہیں ہوتی، کیوں نہیں، لیکن محض اس وجہ کو کسی کامیابی کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا اور ہم بعینہِ وہی کچھ دیکھ بھی رہے ہیں کہ کوئی اگر اچھا playerہے اور وہ مزید کچھ صلاحیتیں بھی رکھتا ہے تو وہ ہر مقام پر فٹ ہوجائے ممکن نہیں ، لہٰذا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ملکی معاملات کو ایک میچ کی طرح سے dealکرتے ہیں، ان کا مزاج ایک فاسٹ بالر جیسا ہے جو جب دل چاہے باؤنس مار دیتا ہے ، جیسے حالیہ دنوں میں ان کی گرفتاری کے بعد دیکھنے میں آیا۔
سارے ملک میں جلائو گھیرائو کی ایک شرمناک مہم چلائی گئی جس میں نہ مسجد کا خیال کیا گیا نہ مریضوں کو اسپتال لے جا نیوالی ایمبولینس کا جو ملا جلا دیا ، لوٹ لیا توڑ دیا اور پھر یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ توڑ پھوڑ تو ہماری پارٹی پالیسی کا کبھی حصہ ہی نہیں رہی ، ہمارے کارکنان تو نہایت شریف ، پر امن ہیں یہ تو دراصل حکومت اور ان کے ہینڈلرز کی سازش ہے سارے شرپسند ان کے بھیجے ہوئے تھے ! عجیب ہے سب کچھ اور پھر جو ہوا وہ بھی میں نے کبھی ہوتے نہیں دیکھا ۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی طرز سیاست ہے ، کیسی طرز حکومت ہے اور کیسی عدالت ہے ؟ یہ کون لوگ ہیں جو سچ بول کر نہیں دیتے جھوٹ ، جھوٹ اور سر تا پہ جھوٹ۔
میں بڑے ادب سے عمران خان صاحب سے ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ جیسی ، جتنی اور جہاں تک ملک کی سرحد ہے سیاست کیجیے لیکن مذہب اور مدینے کو بیچ میں لائے بغیر ، میری اس گزارش کے عقب میں بھی کوئی ادب یا احترام کا پہلو نہیں، بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ یہ قوم جہاں اور بہت سارے معاملات میں confuse وہاں اس معاملے میں بھی ان کا یہی حال ہے اگر آپ سے شعلہ بیانی میں کسی دن کوئی غلط شبد نکل گیا تو پھر جو ہوگا وہ کئی بار انفرادی طور پر تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا اجتماعی اب ہوجائے گا۔ آ پ اپنی پالیسیز بیان کریں اور موجودہ دنیا کو follow کریں ، لیکن اس پہلو سے اجتناب برتیں تو بہتر رہے گا۔