نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت

ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذہنی امراض سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس فوج ہی نہیں ہے

shaikhjabir@gmail.com

دفترکی سیڑھیاں اترتے ہوئے اْسے احساس ہوا کہ اْس کے والد ایک دورافتادہ کونے میں کھڑے اْسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ٹھٹکا، ٹھہرا پھر گردن جھٹک کے اپنی راہ لی۔ اْسے اپنے والد سے بڑی محبت اور اْنسیت تھی۔

کِسے نہیں ہوتی ، لیکن ... لیکن اْن کا تعلق خاص تھا ... منفرد ... ادھر گزشتہ دنوں یہ ہوا کہ قضائے الٰہی سے اْس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اِس صدمہِ جاںکاہ نے اْس کی زندگی ہلا دی، ذہن مفلوج کر دیا۔ اْسے یوں لگتا کہ وہ خود آدھا مر گیا ہو۔ ساری دنیا اْسے خالی خالی اور ویران لگتی تھی۔ دنیا سے، زندگی سے اْس کا دل اْچاٹ ہو گیا تھا۔

سمجھانے والوں نے اْسے لاکھ سمجھایا کہ مرنے والے کے ساتھ نہیں مرا جاتا لیکن دل کو کون سمجھاتا۔ باوجود کوشش اور خواہش وہ دکھ کی دلدل سے کسی طرح نکل نہیں پارہا تھا بلکہ اور دھنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ طرح طرح کے واہمے اْسے ستانے لگے تھے، کبھی والد کی آواز سنائی دیتی کبھی یہ لگتا کہ وہ برابر کے کمرے میں باتیں کر رہے ہیں۔ کبھی یہ لگتا کہ وہ ابھی آ جائیں گے۔ کبھی یہ اچانک سے اٹھ کر بھاگتا کہ مجھے آواز دی ہے۔ غرض صدمے کی انتہا نے دماغ پلٹ دیا تھا، زندہ در گور کر دیا تھا۔

نکاح کیا ٹوٹا وہ خود ٹوٹ گئی۔ ایسی بِکھری کہ سمٹنا ممکن نہ رہا۔ طلاق جس قدر عام ہوتی جا رہی ہے۔ رشتے داروں کا خیال تھا کہ جلد وہ یہ سانحہ بھول کے روزمرہ کی زندگی کی طرف لوٹ آئے گی، مگر یہ ہو نہ سکا۔ اْسے غیر ضروری طور پر یہ احساس ستانے لگا کہ وہ ایک ناکام، نامراد اور مسترد کردہ شخصیت ہے۔ والدین ، بھائی بہنوں اور سہیلیوں نے لاکھ سمجھانا چاہا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ہر طرح کے کام کاج یہاں تک کہ روزے نماز سے بھی اْس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ کھانا پینا بھی بہت کم رہ گیا تھا۔ نہ کسی چیز کی اشتہا باقی رہی تھی نہ خواہش۔

ایک کمرے تک محدود نہ کسی سے ملنا جلنا نہ بات کرنا۔ بس جیئے چلی جا رہی تھی ، نہ جانے کیوں۔ شادی سے پہلے سوفٹ ویئر ہاؤس میں اچھی بھلی ملازمت تھی۔ اب وہاں بھی نہیں جا رہی تھی۔ دفتر سے بلاوے پر بلاوا آ رہا تھا اور یہ اپنے ہر طرح کے نفع نقصان سے بے نیاز اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔ وہ دنیا جہاں صرف یاسیت کے مہیب سائے تھے۔ دکھ تھا اور وہ تھی، اگرکبھی کسی سے کچھ بولتی بھی تو صرف اتنا کہ میرے ساتھ یہ کیوں ہوا؟

اِیک ذرا دقتِ نظر سے اپنے آس پاس کا جائزہ لیں، اگر آپ نے حساس دِل کے ساتھ ذرا غورکیا تو آپ کو اپنے آس پاس ، زندگی کے ہر گوشے میں مصائب ، آلام، خوف ، پریشانیوں اور ذہنی امراض کے مہیب سائے منڈلاتے نظر آئیں گے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر ہر فرد اپنے دِل کے نہاں خانے میں کوئی نہ کوئی دکھ، پریشانی، تکلیف، الم یا خوف چھپائے بیٹھا ہے۔وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے مطابق پاکستان کا شمار ذہنی صحت کے پس ماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ ِ صحت کے حوالے سے وفاقی وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم از کم 3 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ نیز اِن کے علاج کے لیے نفسیاتی معالجین کی میسر تعداد صرف 500 ہے۔ جی ہاں 3 کروڑ سے زائد مریضوں کے لیے معالجین صرف 500۔ گویا 80 فی صد سے یا اِس سے بھی زائد ذہنی امراض میں مبتلا مریض بغیر کسی علاج کے جینے پر مجبور ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف ڈپریشن کے عوارض اور اضطراب میں مبتلا مریضوں کا اوسط 34 فی صد ہے۔ ابھی ہمارے زیرِ بحث یہ نہیں ہے کہ معالجین سے محروم یہ مریض اپنے امراض کے علاج کے لیے کِس کِس طرح اتائیوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور پھر کِس طرح اْن کے مسائل مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اچھا یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ صرف ہمارا ہی بْرا حال ہے ذہنی بیماریاں اور متعلقہ پیچیدگیاں کچھ ہمارے ہی ساتھ خاص ہیں۔

ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذہنی امراض سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس فوج ہی نہیں ہے۔ وگرنہ خود امریکا میں ہر 5 میں سے 1 بالغ امریکی کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ ہر 5 میں سے 1 امریکی نوجوان ابھی یا اپنی اب تک کی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر قریبا معذورکردینے والے کسی نہ کسی مرض میں مبتلا رہ چکا ہے۔ ہر 25 میں سے 1 امریکی بالغ کسی نہ کسی سنگین نفسیاتی مرض کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے مثلاً شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر یا بڑے ڈپریشن وغیرہ۔

یہ 1963کی بات ہے جب رئیس امروہوی مرحوم نے عام فرد کی نفسیاتی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے'' نفسیات و مابعدالنفسیات '' پر سلسلہ مضامین شروع کیا۔ اِن مضامین کو حیرت انگیز قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ ہزاروں یا لاکھوں افراد نے اپنے نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے حضرت سے رجوع کیا اور منزلِ مراد پائی۔ رئیس امروہوی لکھتے ہیں '' اِس سلسلہ مضامین کے موضوعات بے شمار ہیں۔ مختلف تجربوں اور حوالوں کے بعد ایک کورس '' نصابِ تعمیر و تنظیمِ شخصیت، سیلف کلچر ٹریننگ کورس '' کے نام سے مرتب کیا گیا ہے۔

اِس کورس کے نمایاں خدوخال حسبِ ذیل ہیں۔ حبسِ دم اور پاس انفاس کی مشقوں کے ذریعے جسمانی صحت کو بحال کرنا، جسمانی صحت کے کی بحالی کے لیے دل و دماغ کی مقید ( اور غیر مستعمل ) جذباتی توانائی کو آزاد کر کے ذہن کی اِس مخفی قوت کو شخصیت کی تعمیر نو کے لیے استعمال کرنا۔ محاسبہ نفس کے ذریعے فرد کو اِس قابل بنانا کہ وہ شعور کی روشنی میں اپنے اندر اْلٹے پائوں سفر کر کے اْن غلطیوں اور لغزشوں کی نشان دہی کر سکے جو اْس کے ذہنی عدم ِتوازن اور خلل اعصاب کی تہہ میں کام کر رہی ہیں۔

استغراق کی مشقوں اور مراقبے کے ذریعے انسان کی تمام اعصابی اور دماغی توانائیوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر کے، اْس کی کھوئی ہوئی خود اعتمادی اور خود شناسی کی صلاحیت کو بر تنا اور بحال کرنا۔ میں نے دوستوں کے اصرار پر ذہنی بحالی اور تعمیر شخصیت کے لیے سانس ، استغراق، محاسبہ نفس، خود نویسی، خود تنویمی، خود ترغیبی، آزاد نگاری ، ذاتی تحلیل نفسی، تنویم اور بعض دوسری مشقیں ضرورت مند افراد کو بتانی شروع کیں اور یہ محسوس کر لیا کہ اِن مشقوں سے اعصاب، دل ودماغ اور ذہن کو بہت حد تک فائدہ پہنچتا ہے تو لا محالہ اِس کام کو منظم کرنے کا خیال ذہن میں آیا۔

1964 میں خاموشی کے ساتھ ادارہ '' من عرفہ نفسہْ '' (مخفف معن یا م ع ن) کی بنیاد رکھی گئی۔ اور '' نصابِ تعمیر و تنظیمِ شخصیت'' کے نام سے چھ چھ ماہ کے اسباق پر مشتمل ایک سہ سالہ نصابِ عمل مرتب کیا گیا۔

آج 2023 میں اِس امر کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ کوئی اِس نصاب کو پھر عام کرے اور سماج کی ذہنی اور جذباتی الجھنوں اور زخموں پر پھایا رکھے۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ جس طرح جسمانی ورزش کے فوائد معلوم و معروف ہیں بعینہ ذہنی مشقوں کے فوائد انسانی جسم و جان پر بے اندازہ ہیں۔ جان لیجیے کہ اگر مگدر ہلا کے کوئی رستمِ زماں بن سکتا ہے تو '' نصابِ تعمیر و تنظیم'' کی مشقیں کسی کو بھی '' فاتحِ زماں'' بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
Load Next Story