شاعری اور ناول
مصنفہ نے قاری کو الجھن یا ابہام سے دور رکھا ہے وہ اس طرح موجودہ حالات کی وضاحت کر رہی ہیں
'' مری شاعری گنگنا کر تو دیکھو'' ممتاز شاعرہ شگفتہ شفیق کی یہ پانچویں کتاب ہے، شگفتہ اپنے اچھے اخلاق اور شعر و سخن کے حوالے سے اپنی خصوصی شناخت رکھتی ہیں ان کا ایک حوالہ فیس بک بھی ہے ان کی شاعری اور حالات زندگی سے ان کی قدر اور محبت کرنے والے ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی شاعری پر گفتگو کرنے سے قبل ناول ''رگِ جاں'' کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔
''رگ جاں'' کی تخلیق کار گل بانو ہیں، ان کی تحریر اس ناول سے قبل میری نگاہ سے کبھی نہیں گزری، بقول مصنفہ کے کہ انھوں نے شذرات سے لے کر افسانے تک کا سفر کیا اور پھر کرم فرماؤں کی حوصلہ افزائی نے انھیں ناول لکھنے کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے اپنے قارئین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ '' اس ناول کی نوعیت واقعاتی ہے، یہ ایک آپ بیتی ہی نہیں، جگ بیتی بھی ہے۔ جو '' قرول باغ '' دہلی سے شروع ہوئی، پاکستان پہنچ کر کروٹ لی اور امریکا میں اختتام پذیر ہوئی۔''
اب بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑی تھی، دوکتابوں پر لکھنے کے لیے ایسی ہی صورت درپیش ہوتی ہے۔ اب یہ قلم کار پر منحصر ہے کہ وہ کس انداز میں حق ادا کرے۔شگفتہ شفیق نے لکھنے کی ابتدا غالباً 2000 سے کی اور دس سال متواتر لکھنے اور مختلف اخبارات میں چھپنے کے بعد انھوں نے صاحب کتاب بننے کا فیصلہ کیا، ان کی ایک طرف ادبی کاوش جاری تھی تو دوسری طرف کینسر جیسے موذی مرض سے نجات پانے کے لیے کیموتھیراپی ہو رہی تھی۔
انتھک محنت اور جدوجہد رنگ لائی اس طرح 2010 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ''میرا دل کہتا ہے'' منظر عام پر آیا، اس کتاب پر مثبت آرا، تبصروں اور مضامین نے شگفتہ کو حوصلہ بخشا اسی دوران انھوں نے مختلف ممالک کے سفر کیے، مشاعرے پڑھے، قارئین سے داد و تحسین حاصل کی، یہ وہ خوشی تھی جس نے نہ صرف یہ کہ بلڈ کینسر جیسے مرض کو ختم کردیا بلکہ اس دوران تین کتابیں مزید اشاعت کے مرحلے سے گزریں۔
'' مری شاعری گنگنا کر دیکھو'' مذکورہ کتاب میں جناب کرامت بخاری اور جناب زیب اذکار صاحب کی تحریریں شامل ہیں جو تجزیاتی اور مثبت فکر کی ترجمان بھی ہیں۔ کرامت بخاری جوکہ خود بہت اچھے تخلیق کار ہیں انھوں نے شگفتہ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے ''آج کا انسان ابتلا کا شکار ہے، تنہا ہے اور اکیلا ہے اور اگر وہ سچا تخلیق کار ہے تو وہ فن صرف اور صرف فن کی آبیاری نہیں کر رہا بلکہ فن کو اور اردو شاعری کو امر بھی کر رہا ہے، آج نفرت بھی عمیق ہے اور محبت بھی عمیق ہے۔ شگفتہ شفیق کی شگفتگی، شستگی اور شیفتگی سے بھرپور غزل کے شعر ملاحظہ ہوں:
رقص کرتا ہے دل محبت پر
یاد تیری دھمال ہے مجھ میں
ایک تُو ہی امڈ کر آتا ہے
اور کس کی مجال ہے مجھ میں
ممتاز ناقد اور افسانہ نگار زیب اذکار حسین کا مضمون بھی خاصے کی چیز ہے انھوں نے بڑے منفرد انداز میں شاعرہ کی شاعری کا جائزہ لے کر اشعار کا انتخاب کیا ہے۔
آنکھ میں اس کے دمکتے ہیں ستاروں کے ہجوم
اس کو بھاتے نہیں ہیں درد کے ماروں کے ہجوم
ہم ترے ہجر میں تنہا نہیں ہوتے ہیں کبھی
جوق در جوق چلے آتے ہیں یاروں کے ہجوم
شگفتہ شفیق محبت کی شاعرہ ہیں لیکن محبت کے باب میں وہ شکوے گلے بھی کرتی نظر آتی ہیں:
محبت تو مری سزا ہوگئی ہے
یوں لگتا ہے مجھ سے خطا ہوگئی ہے
سب کو بھا جائے ایسا نغمہ ہوں
بس محبت کا بہتا دریا ہوں
شگفتہ شفیق نے نعتیہ اور حمدیہ شاعری بھی کی ہے جو ان کے پاکیزہ اور اپنے رب سے محبت کی عکاس ہے:
کس طرح شان مرے رب کی بتائے کوئی
ڈھونڈنے پر بھی مثال اس کی نہ پائے کوئی
میں نے مسجدوں میں فقط ایک تمنا کی تھی
آستیں کے سانپوں سے مجھے بچائے کوئی
شگفتہ شفیق سہل ممتنع کی شاعرہ ہیں، چھوٹی بحروں میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، اور بہترین شعر کہتی ہیں۔ اللہ تخلیقی سوتوں کو مزید جلا بخشے۔
''رگ جاں'' یہ ناول 2019 صفحات کا احاطہ کرتا ہے، گل بانو کی تحریر کی روانی اور مربوط کرداروں پر مبنی یہ داستان جوکہ ناول کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے قابل تعریف ہے۔ ناول کی زباں رواں دواں اور اسلوب بیان پُرتاثیر ہے۔ ناول پڑھ کر اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ گل بانو کا یہ پہلا ناول ہے۔ناول لکھنا آسان کام نہیں ہے، دقت طلب اور تحقیق و تجسس کا ترجمان ہوتا ہے اور اس کی بنت کاری کے لیے بہت سی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کرداروں کے باطن میں اترکر حقائق کی روشنی میں تخلیق کار اپنا سفر طے کرتا ہے، منظرنگاری بھی اس کا لازمی جز ہے اس کے بغیر کہانی ادھوری، بے مزہ اور نامکمل سی نظر آتی ہے۔
مکالمہ نگاری واقعات و حالات کا ربط قاری کو آگے پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے، منطقی انجام ناول کو کامیاب ناولوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے اردو ادب میں ہمیں جتنے بھی ناول نظر آتے ہیں وہ سب انھی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ ایک خاندان اور معاشرے کے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے تعلق دوسرے خاندان سے رشتہ داریاں یا میل جول آپس کے تلخ و شیریں تعلقات شادی بیاہ غرض رشتوں، ناتوں کا وجود اور آپس کی محبت اور یگانگت کی مہک ناول کو ایک خوبصورت موڑ عطا کرتی ہے۔
''رگ جاں'' ایسا ہی ناول ہے، انسانی جبلت، نفسیاتی مسائل، کم عمری کا عشق، سچے جذبات اور امنگوں کو پروان چڑھانے کے خیال و خواب، اس کے ساتھ ہی شہر اور گاؤں کے طور طریقے اور ثقافت، ایثار و قربانی کی داستان ساتھ میں مختلف مذاہب کے لوگوں میں محبت اور اعتماد کی فضا بھی گزرے زمانے کی وسیع النظری کو نمایاں کرتی ہے اور یہ حقیقت ہے آج کی طرح نفرت اور تعصب کے سیاہ رنگوں کا ظہور نہیں ہوا تھا۔
گل بانو کے ناول میں منظرنگاری اس طرح کی گئی ہے گویا مناظر لفظ کی زبان میں بدل گئے ہیں اور ہمارے سامنے آ کر ڈرامائی تشکیل کی ادائیگی میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ تحریر کی روانی نے اسے دلچسپ بنا دیا ہے۔ گل بانو ماضی اور حال کو ساتھ لے کر چلی ہیں۔ ایک طرف وہ ماضی کی پگڈنڈیوں پر سفر کر رہی ہیں تو دوسری طرف وہ کراچی اور لاہور میں فکر معاش کی تلاش اور ساتھ میں انٹرن شپ کی آفر اور ''مایو'' میں داخلے کی خواہش رکھتی ہیں۔
مصنفہ نے قاری کو الجھن یا ابہام سے دور رکھا ہے وہ اس طرح موجودہ حالات کی وضاحت کر رہی ہیں '' الٹے ہاتھ پر میوزیم کی پتھروں کی عمارت، برابر میں مایو اسکول آف آرٹ کی نقشین عمارت جس کا موجودہ نام NCA ہے۔'' وادی مالوف کی منظرکشی اور کردار نگاری بھی قاری کو معلومات فراہم کرتی ہے۔
ایک طرف حسن کے جلوے، فطرت کے نظارے اور دوسری طرف پختونوں کی مہمان نوازی، تدریس کی ذمے داری اور بڑے سے پتھر کو گرم کرکے روٹیاں پکانا، لہسن کی چٹنی پیس کر خاطر تواضع کرنا۔ گل بانو کا ناول ''رگ جاں'' تقسیم ہند کے تناظر میں لکھا گیا ہے، سادہ بیانیہ اور اسلوب بیان نے ناول کو دلکش بنا دیا ہے، میری دعا ہے کہ گل بانو اسی طرح لکھتی رہیں۔
''رگ جاں'' کی تخلیق کار گل بانو ہیں، ان کی تحریر اس ناول سے قبل میری نگاہ سے کبھی نہیں گزری، بقول مصنفہ کے کہ انھوں نے شذرات سے لے کر افسانے تک کا سفر کیا اور پھر کرم فرماؤں کی حوصلہ افزائی نے انھیں ناول لکھنے کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے اپنے قارئین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ '' اس ناول کی نوعیت واقعاتی ہے، یہ ایک آپ بیتی ہی نہیں، جگ بیتی بھی ہے۔ جو '' قرول باغ '' دہلی سے شروع ہوئی، پاکستان پہنچ کر کروٹ لی اور امریکا میں اختتام پذیر ہوئی۔''
اب بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑی تھی، دوکتابوں پر لکھنے کے لیے ایسی ہی صورت درپیش ہوتی ہے۔ اب یہ قلم کار پر منحصر ہے کہ وہ کس انداز میں حق ادا کرے۔شگفتہ شفیق نے لکھنے کی ابتدا غالباً 2000 سے کی اور دس سال متواتر لکھنے اور مختلف اخبارات میں چھپنے کے بعد انھوں نے صاحب کتاب بننے کا فیصلہ کیا، ان کی ایک طرف ادبی کاوش جاری تھی تو دوسری طرف کینسر جیسے موذی مرض سے نجات پانے کے لیے کیموتھیراپی ہو رہی تھی۔
انتھک محنت اور جدوجہد رنگ لائی اس طرح 2010 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ''میرا دل کہتا ہے'' منظر عام پر آیا، اس کتاب پر مثبت آرا، تبصروں اور مضامین نے شگفتہ کو حوصلہ بخشا اسی دوران انھوں نے مختلف ممالک کے سفر کیے، مشاعرے پڑھے، قارئین سے داد و تحسین حاصل کی، یہ وہ خوشی تھی جس نے نہ صرف یہ کہ بلڈ کینسر جیسے مرض کو ختم کردیا بلکہ اس دوران تین کتابیں مزید اشاعت کے مرحلے سے گزریں۔
'' مری شاعری گنگنا کر دیکھو'' مذکورہ کتاب میں جناب کرامت بخاری اور جناب زیب اذکار صاحب کی تحریریں شامل ہیں جو تجزیاتی اور مثبت فکر کی ترجمان بھی ہیں۔ کرامت بخاری جوکہ خود بہت اچھے تخلیق کار ہیں انھوں نے شگفتہ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے ''آج کا انسان ابتلا کا شکار ہے، تنہا ہے اور اکیلا ہے اور اگر وہ سچا تخلیق کار ہے تو وہ فن صرف اور صرف فن کی آبیاری نہیں کر رہا بلکہ فن کو اور اردو شاعری کو امر بھی کر رہا ہے، آج نفرت بھی عمیق ہے اور محبت بھی عمیق ہے۔ شگفتہ شفیق کی شگفتگی، شستگی اور شیفتگی سے بھرپور غزل کے شعر ملاحظہ ہوں:
رقص کرتا ہے دل محبت پر
یاد تیری دھمال ہے مجھ میں
ایک تُو ہی امڈ کر آتا ہے
اور کس کی مجال ہے مجھ میں
ممتاز ناقد اور افسانہ نگار زیب اذکار حسین کا مضمون بھی خاصے کی چیز ہے انھوں نے بڑے منفرد انداز میں شاعرہ کی شاعری کا جائزہ لے کر اشعار کا انتخاب کیا ہے۔
آنکھ میں اس کے دمکتے ہیں ستاروں کے ہجوم
اس کو بھاتے نہیں ہیں درد کے ماروں کے ہجوم
ہم ترے ہجر میں تنہا نہیں ہوتے ہیں کبھی
جوق در جوق چلے آتے ہیں یاروں کے ہجوم
شگفتہ شفیق محبت کی شاعرہ ہیں لیکن محبت کے باب میں وہ شکوے گلے بھی کرتی نظر آتی ہیں:
محبت تو مری سزا ہوگئی ہے
یوں لگتا ہے مجھ سے خطا ہوگئی ہے
سب کو بھا جائے ایسا نغمہ ہوں
بس محبت کا بہتا دریا ہوں
شگفتہ شفیق نے نعتیہ اور حمدیہ شاعری بھی کی ہے جو ان کے پاکیزہ اور اپنے رب سے محبت کی عکاس ہے:
کس طرح شان مرے رب کی بتائے کوئی
ڈھونڈنے پر بھی مثال اس کی نہ پائے کوئی
میں نے مسجدوں میں فقط ایک تمنا کی تھی
آستیں کے سانپوں سے مجھے بچائے کوئی
شگفتہ شفیق سہل ممتنع کی شاعرہ ہیں، چھوٹی بحروں میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، اور بہترین شعر کہتی ہیں۔ اللہ تخلیقی سوتوں کو مزید جلا بخشے۔
''رگ جاں'' یہ ناول 2019 صفحات کا احاطہ کرتا ہے، گل بانو کی تحریر کی روانی اور مربوط کرداروں پر مبنی یہ داستان جوکہ ناول کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے قابل تعریف ہے۔ ناول کی زباں رواں دواں اور اسلوب بیان پُرتاثیر ہے۔ ناول پڑھ کر اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ گل بانو کا یہ پہلا ناول ہے۔ناول لکھنا آسان کام نہیں ہے، دقت طلب اور تحقیق و تجسس کا ترجمان ہوتا ہے اور اس کی بنت کاری کے لیے بہت سی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کرداروں کے باطن میں اترکر حقائق کی روشنی میں تخلیق کار اپنا سفر طے کرتا ہے، منظرنگاری بھی اس کا لازمی جز ہے اس کے بغیر کہانی ادھوری، بے مزہ اور نامکمل سی نظر آتی ہے۔
مکالمہ نگاری واقعات و حالات کا ربط قاری کو آگے پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے، منطقی انجام ناول کو کامیاب ناولوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے اردو ادب میں ہمیں جتنے بھی ناول نظر آتے ہیں وہ سب انھی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ ایک خاندان اور معاشرے کے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے تعلق دوسرے خاندان سے رشتہ داریاں یا میل جول آپس کے تلخ و شیریں تعلقات شادی بیاہ غرض رشتوں، ناتوں کا وجود اور آپس کی محبت اور یگانگت کی مہک ناول کو ایک خوبصورت موڑ عطا کرتی ہے۔
''رگ جاں'' ایسا ہی ناول ہے، انسانی جبلت، نفسیاتی مسائل، کم عمری کا عشق، سچے جذبات اور امنگوں کو پروان چڑھانے کے خیال و خواب، اس کے ساتھ ہی شہر اور گاؤں کے طور طریقے اور ثقافت، ایثار و قربانی کی داستان ساتھ میں مختلف مذاہب کے لوگوں میں محبت اور اعتماد کی فضا بھی گزرے زمانے کی وسیع النظری کو نمایاں کرتی ہے اور یہ حقیقت ہے آج کی طرح نفرت اور تعصب کے سیاہ رنگوں کا ظہور نہیں ہوا تھا۔
گل بانو کے ناول میں منظرنگاری اس طرح کی گئی ہے گویا مناظر لفظ کی زبان میں بدل گئے ہیں اور ہمارے سامنے آ کر ڈرامائی تشکیل کی ادائیگی میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ تحریر کی روانی نے اسے دلچسپ بنا دیا ہے۔ گل بانو ماضی اور حال کو ساتھ لے کر چلی ہیں۔ ایک طرف وہ ماضی کی پگڈنڈیوں پر سفر کر رہی ہیں تو دوسری طرف وہ کراچی اور لاہور میں فکر معاش کی تلاش اور ساتھ میں انٹرن شپ کی آفر اور ''مایو'' میں داخلے کی خواہش رکھتی ہیں۔
مصنفہ نے قاری کو الجھن یا ابہام سے دور رکھا ہے وہ اس طرح موجودہ حالات کی وضاحت کر رہی ہیں '' الٹے ہاتھ پر میوزیم کی پتھروں کی عمارت، برابر میں مایو اسکول آف آرٹ کی نقشین عمارت جس کا موجودہ نام NCA ہے۔'' وادی مالوف کی منظرکشی اور کردار نگاری بھی قاری کو معلومات فراہم کرتی ہے۔
ایک طرف حسن کے جلوے، فطرت کے نظارے اور دوسری طرف پختونوں کی مہمان نوازی، تدریس کی ذمے داری اور بڑے سے پتھر کو گرم کرکے روٹیاں پکانا، لہسن کی چٹنی پیس کر خاطر تواضع کرنا۔ گل بانو کا ناول ''رگ جاں'' تقسیم ہند کے تناظر میں لکھا گیا ہے، سادہ بیانیہ اور اسلوب بیان نے ناول کو دلکش بنا دیا ہے، میری دعا ہے کہ گل بانو اسی طرح لکھتی رہیں۔