ناکام شب خون
بہت تیزی سے کھیلے ہیں خان صاحب ! ان کی مقبولیت بھی مصنوعی نکلی
خان صاحب، فاسٹ بالر تھے۔ بے نظیر بھٹو کو جب معلوم ہوا، وہ سیاست میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ اچھا رہے گا تاہم یہ ضروری ہوگا کہ وہ بال ٹیمپرنگ والے کام نہ کریں۔
اب ان کی مقبولیت کا جو شور و غوغا ہے، مجھے تب سے ہی اندیشہ تھا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے، وہ گیارہ مئی تک بھی مقبولیت کے پہلے پائیدان پرکھڑے ہوئے نظر آئے۔ پھر کیا ہوا، خان صاحب کی مقبولیت تو کہیں دب گئی، یہاں تو لینے کے دینے پڑگئے۔ عوام میں مقبول سیاسی جماعتیں کبھی دہشت گردی،تخریب کاری، شرپسندی اور گھیراؤ جلاؤ کو ہتھیار نہیں بناتیں۔
بلاشبہ خان صاحب کا اپنا سحر تھا۔ خواتین میں ان کی مقبولیت کا اپنا مقام تھا۔ بچوں بوڑھوں میں وہ یکساں مقبول تھے، مگر سیاسی لغت اور کلچر میں اسے مقبولیت نہیں کہا جاتا۔کرکٹ میں ہم بھی ان کے کھیل کے مداح تھے، مگر سیاست کسی اور چیز کا نام ہے۔ یہاں مقبولیت کے پیمانے اور زاویے کچھ اور ہیں۔ سب کچھ مست مست چل رہا تھا، جیسے ٹی ٹوئنٹی کا میچ کھیلا جا رہا ہو، مطلب آر یا پار۔ وہ سیاست میں بھی ایسے ہی فاسٹ بالر نظر آئے۔ رگڑ رگڑ کر بال پھینکتے رہے، مگر یہ کرکٹ نہ تھی، یہ سیاست کا میدان تھا۔
نو مئی کا واقعہ ؟ کیا تھا ؟ وہ دراصل شب خون تھا، مگر ناکام شب خون ! پاکستان کی تاریخ کا پہلا ناکام شبِ خون ۔ اس شب خون نے اپنا طریقہ واردات خود متعین کیا اور وہ تھا سسٹم کو melt down کرو۔ فوج کے moral کو اتنا گرا دو کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہ رکھ سکے،کیونکہ لانگ مارچ سے لے کر نو مئی تک کوئی رکاوٹیں نہ تھیں، معیشت کی تباہی موجودہ حکومت کے کھاتے میں، عدالتوں کی ان سے جو محبت تھی اس نے بھی مقننہ و پارلیمینٹ کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
اس ناکام شب خون کے پیچھے اندرونی اورکچھ بیرونی عناصر بھی تھے، ماضی کی طرح۔ اس شب خون کے بیانیے اور زلمے خلیل زاد کی باتوں میں حیران کن مماثلت تھی۔ 2014 میں جب سی پیک میں جانے کی ایک پالیسی بنائی گئی یہ بات کچھ بیرونی طاقتوں کو ناگوار گذری۔ خان صاحب نے ٹھیک انھیں زمانوں میں عروج پکڑا۔
یہ موصوف مشرف کے ساتھ دبئی گئے تھے، جب لندن سے بے نظیر بھٹو دبئی پہنچی تھیں۔ مشرف کو کمزور سیاستدانوں نے نہیں کیا، کیونکہ یہ لوگ جلا وطن تھے، بس محاذ آرائی پر اتر آئے۔ چیف جسٹس کی سپورٹ میں پہلے وکلاء نے تحریک کا آغاز کیا پھر سیاسی قیادت بھی ساتھ آگئی اور یوں مشرف کے دورکا خاتمہ ہوا۔
خان صاحب کی فارن فنڈنگ کی گانٹھیں اب تک بہت سی کھل چکی ہیں اور مزید کھلنی بھی ہیں۔ خان صاحب جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ یا جنرل (ر) حمید گل کا پروجیکٹ نہیں بلکہ یہ سب خود بیرونی پروجیکٹ تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی طرح تھے، اس پروجیکٹ کی بہت سی ڈوریں نظام انصاف میں موجود سہولت کاروں سے بندھی ہیں۔ اس مرتبہ مقصد شاید پاکستان کو ہی انتشار میں ڈالنا تھا اور یہ کام وہ کرگئے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب بھی بانی ایم کیو ایم کی طرح ماضی کا حصہ بننے جا رہے ہیں، لیکن اس بسترکو باندھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ اس کام کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ یہ بڑے نازک معاملات ہیں، ہماری معیشت ابھی سنبھلی نہیں ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی بنیادیں جسٹس ثاقب نثار نے ہلا دیں۔یہ سب اس لیے ہوا کہ یہاں پارلیمنٹ مضبوط نہ تھی۔ یہاں سول و ملٹری افسر شاہی مضبوط تھی اور نظام انصاف کو یہاں مفلوج کردیا گیا تھا، ان کے فیصلے آئین و قانون کے مطابق نہ تھے، انصاف compromised ہوا۔
پاکستان، ہندوستان و بنگلا دیش سے کوسوں پیچھے رہ گیا اور حالات مزید تباہی کی طرف ہیں کہ یہ ملک کہیں چین کا اتحادی نہ بنے تو اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے سازشیں ہوئیں۔ ہماری پارلیمنٹ جہاں نمایندے ایک مخصوص شرفاء کے طبقے سے ہیں۔ یہاں عوام کے لیے کچھ نہیں ! کوئی ریلیف نہیں۔ بجٹ کا اسی فیصد حصہ اندرونی و بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے۔
ضرورت اب اس بات کی ہے ایک بہت بڑی تبدیلی لائی جائے سوچ میں۔ وفاق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ مجموعی طور پر قومی قیادت کو مضبوط کرنا پڑے گا اس بات کی تجدید کے ساتھ کہ تمام فیصلے پارلیمنٹ میں طے ہونے چاہئیں۔
آج جس جگہ پاکستان ہے اس کے گہرے اسباب بیرونی طاقتوں کے فوجی طاقتوں سے گٹھ جوڑ بنا کر اس قوم پر فیصلے مسلط کرنا ہے جیسا کہ ہمیں افغانستان کی جنگ میں دھکیلا گیا۔ پاکستان کے آگے نکلنے کے راستے، اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار ختم ہونے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ کام اتنی جلدی ممکن تو نہیں مگر آہستہ آہستہ ایک پالیسی کے تحت اسی سمت بڑھ رہا ہے۔
بہت تیزی سے کھیلے ہیں خان صاحب ! ان کی مقبولیت بھی مصنوعی نکلی۔ ان کی سیاسی پیدائش، وزیر اعظم بننا ، پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھنا، سب جنرل فیض اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے مرہونِ منت تھا۔ باجوہ صاحب اپنی توسیع کے چکر میں تھے، فیض حمید اپنی پروموشن کے چکر میں۔ سید عاصم منیر کے چیف بننے میں بہت سے روڑے اٹکائے گئے، باجوہ صاحب اتنا بڑا بحران پیدا کرگئے کہ شاید ایسا بحران پہلے کسی آمر نے پیدا نہیں کیا۔ یہ سانحہ 1971کے بعد دوسرا سانحہ ہے۔ یہ ملک اس دوراہے پرکھڑا ہے جہاں خان صاحب پاکستان کی تاریخ کے بند اوراق میں جارہے ہیں۔ اب ان کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آرہا۔
اب قوی امکان یہ ہے کہ اس پارٹی کی باگ ڈور اب جہانگیر ترین کے ہاتھوں میں آجائے گی اور پھر پی ایم ایل (کیو) کی طرح آہستہ آہستہ اختتام کو پہنچے گی۔ اب ہماری اسٹیلشمنٹ اور سیاسی قیادت کو بھی ہوش میں آنا چاہیے کہ ففتھ جنریشن وار کے بہانے جو sycophant جو پے رول پر رکھے ، جو اینکرز بریگیڈ بنایا، جو خان صاحب کے پاس چلا گیا، ایسے ایڈونچرز خدارا بند کردیں تو یہ ریاست کے لیے بھی اچھا ہے اور عوام کے لیے بھی۔