متحدہ کے کارکنوں کی دوران حراست ہلاکت متوفی نعمان کی بیوہ کا بیان قلمبند کرنے کا حکم دیدیا گیا

سندھ ہائیکورٹ نے محمد طاہرکے ماورائے عدالت قتل کے خلاف درخواست پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز سے جواب بھی طلب کرلیا


Staff Reporter April 25, 2014
کے الیکٹرک غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اووربلنگ کے متعلق جواب داخل نہیں کرسکی، عدالت نے19مئی تک مہلت دیدی فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کی گمشدگی کے دوران قتل کیے جانے کے الزام پر مبنی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو متوفی نعمان طالب کی بیوہ کابیان قلمبند کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے شہری محمد طاہرکے ماورائے عدالت قتل کے خلاف درخواست پر ڈائریکٹر جنرل رینجرز سے جواب طلب کرلیا،چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے مسمات ثمرین جہاں اور غلام سرور کی درخواستوں کی سماعت کی،ثمرین جہاں نے موقف اختیار کیاہے کہ درخواست گزرا کا شوہر نعمان طالب سرکاری ملازم تھا، وہ اپنی بہن سے ملنے 12دسمبر2013کو جناح اسپتال گیا تو رینجرز اہلکاروں نے اسے حراست میں لے لیا،بعد ازاں اسے قتل کرکے لاش سپر ہائی وے پر پھینک دی گئی،سماعت کے موقع پر ایس ایس پی اورنگی کی جانب سے بتایاگیا کہ درخواست گزا ر کی رہائش پیرآباد تھانہ کی حدود میں ہے تاہم پیرآباد پولیس نے نعمان طالب کو گرفتار نہیں کیا جبکہ جناح اسپتال بھی پیرآباد تھانے کی حدود میں نہیں آتا، اطلاعات کے مطابق نعمان طالب کی لاش23دسمبر کو تھانہ گڈاپ سٹی کی حدود سے ملی ہے،گڈاپ سٹی پولیس کی جانب سے عدالت کوبتایا گیا کہ واقعے کا مقدمہ 190/2013درج کرلیا گیاہے۔

عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ ثمرین جہاں اور اہل خانہ کا بیان بھی قلمبند کیا جائے،عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ متاثرہ فریق کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق حکومت سے ہدایت حاصل کرکے جواب داخل کریں،واضح رہے کہ 2روز قبل جاویدعرف بندا ،نعمان اور سلیم عرف کباڑی کی لاشیں سپر ہائی وے سے ملی تھیں جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے تینوں افراد کے ماورائے قتل کا الزام عائد کیا تھا،فاضل عدالت نے محمد طاہر کی ماورائے عدالت قتل کے خلاف درخواست پر ڈی جی رینجرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے اور ملیر کینٹ تھانہ کے تفتیشی افسر کو آئندہ سماعت پر تمام ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

غلام سرور نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ درخواست گزار کا بیٹا محمد طاہر28دسمبر2013کواہل خانہ کے ہمراہ گھر پر سو رہا تھا کہ وردی اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور اسے اپنے ہمراہ لے گئے، بعد ازاں ملیر کینٹ کے علاقے سے اس کی لاش برآمد ہوئی ،درخواست میں کہا گیا ہے کہ گھر کے قریب واقع امام بارگاہ میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں نے یہ منظر محفوظ کیاجس میں اہلکاروں کو بھی شناخت کیاجاسکتا ہے،واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے،عدالت نے 8مئی تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے، علاوہ ازیں کے الیکٹرک انتظامیہ غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اووربلنگ کے خلاف دائر درخواست پر عدالت میں جواب داخل کرنے میں ناکام رہی ہے، تاہم عدالت نے جواب داخل کرنے کے لیے 19مئی تک مہلت دے دی ہے،جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے رانا فیض الحسن کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کی۔

درخواست میں وفاقی وزارت برائے نجکاری،اوگرا،نیپرا اور کے الیکٹرک کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک جو ایک سرکاری ادارہ تھا کوایک کمپنی نے نجکاری کے عمل کے ذریعے 16ارب روپے میں خریدا اور کمپنی کو گِروی رکھ کر 100ارب روپے قرضہ حاصل کرلیا ، نجکاری کے بعد کے الیکٹرک کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اورخراب رہی ہے، مالی بوجھ کا بہانہ بنا کربڑی تعداد میں مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کیا گیا مگر ادارے کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہوسکی،درخواست گزار نے مزید موقف اختیار کیا ہے کہ شہر میں 10سے 12گھنٹے کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے جس سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں