قلی مہنگائی کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور

قلیوں کو کوئی میڈیکل کی سہولت میسر ہے اورنہ ہی ان کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کی سہولت ہے

—فائل فوٹو

لاہور ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کا بوجھ اٹھانے والے قلی آج بھی مہنگائی کی وجہ سے کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

قلی دن بدن ان کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ قلیوں کو کوئی میڈیکل کی سہولت میسر ہے اورنہ ہی ان کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کی سہولت ہے۔ دن بھر بوجھ اٹھانے سے حاصل ہونیوالی آمدنی کا بڑا حصہ ٹھیکدارکودینا پڑتا ہے۔

لاہورریلوے اسٹیشن پر گزشتہ 37 سال سے بطور قلی کام کرنیوالے محمدرزاق چٹھہ نے بتایا ان کا تعلق سرگودھا سے ہے ،ان کے پانچ بچے ہیں ،ان کے بیوی بچے سرگودھا میں ہی رہتے ہیں وہ دو،تین ماہ بعد انہیں پیسے بھیج دیتے ہیں۔

محمدرزاق نے بتایا کہ وہ یومیہ ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے کمالیتے ہیں۔ ان کے پاس قلی کی دو وردیاں ہیں۔ بڑی مشکل سے گزارہ ہورہا ہے۔ اس ماہ پانچ ہزار روپے بجلی کا بل آیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ کسی دن گوشت کے ساتھ روٹی کھاؤں لیکن اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے ہیں۔

ایک اورقلی محمداقبال نے بتایا ان کے 8 بچے ہیں ،پانچ بیٹیاں اورتین بیٹے ،وہ بھی گزشتہ 12 سال سے بطورقلی کام کررہے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی 15 برس کی ہے لیکن وہ اپنے کسی بچے کوسکول نہیں بھیج سکے ۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری سکولوں میں فیس معاف ہے مگر بچوں کی یونیفارم، کتابیں دیگراخراجات کہاں سے پورے کریں۔


انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ چونکہ ٹھیکیدار کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے انہیں نہ ہی توکوئی الاوںس ملتاہے، نہ پینشن ملے گی، میڈیکل کی بھی کوئی سہولت میسرنہیں ہے۔ وہ کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں ،ماہانہ 10 ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔

نوجوان قلی مقبول احمد کوبھی یہی شکایت ہے۔وہ لاہورکےہی رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا لاک ڈاؤن اورسیلاب کے وجہ سے جب ٹرینیں بند ہوئیں توان کے حالات بہت مشکل ہوگئے تھے۔ وہ دن رات یہی دعامانگتے ہیں کہ ریل کا پہیہ چلتا رہے کیونکہ ان کے گھرکا چولہا اسی سے جڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید اوررمضان المبارک میں کئی مسافرایسےبھی ملتے ہیں جو خاموشی سے چند ہزارروپے جیب میں ڈال دیتے ہیں۔

لاہورریلوے اسٹیشن پراس وقت کم وبیش 300 قلی کام کررہے ہیں۔ لاہورریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبرچار پرانہیں ایک کمرہ بھی الاٹ کیا گیا ہے جہاں وہ فارغ اوقات اور رات کوآرام کرتے ہیں۔ پاکستان ریلوے کی طرف سے قلی کی سروس فراہم کا باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔

موجودہ ٹھیکیدار محمداشرف نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا ریلوے ایس اوپیز کے مطابق ایک قلی اپنی روزانہ کی آمدن کا 30 فیصد ٹھیکدار کو دیتا ہے۔ ہم ہرقلی کوایک نمبرالاٹ کرتے ہیں۔ اس کا مکمل ریکارڈہمارے پاس ہوتا ہے تاکہ وہ کسی مسافرکاسامان لیکرفرارنہ ہوجائے۔ سامان اٹھانے کے ریٹ مختص ہیں جو جگہ جگہ لکھ کرلگائے گئے ہیں۔ تاہم بعض مسافراپنی خوشی سے زیادہ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قلیوں کو تعلیم،صحت کی سہولت فراہم کرنا توحکومت کا کام ہے وہ یہ ضرورکرتے ہیں کہ رمضان المبارک، عید کے موقع پراوراگرکسی وجہ سے ٹرینیں بند ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق قلیوں کی مدد کرتے ہیں، ان کے راشن کا انتظام کیا جاتا ہے۔

پاکستان ورکرزفیڈریشن کے صدرچوہدری نسیم اقبال نے بتایا بدقسمتی سے قلیوں کو سوشل سیکیورٹی کی سہولت میسرہے اورنہ انہیں ای اوبی کے پاس رجسٹرڈکیا جاتاہے۔ یہ لوگ ٹھیکیدار کے ماتحت ہوتے ہیں جو یونین سازی بھی کرسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ قلیوں کو مزدوروں کی کیٹگری میں شامل کرے، ٹھیکیدار یا پھرریلوے کو پابند کیا جائے کہ وہ انہیں سوشل سیکیورٹی اور ای اوبی کی سہولت فراہم کرنے کے لئے اپنا کردار اداکرے۔
Load Next Story