دہشت گردی کا خاتمہ لازم ہے

مجرموں کے مقدمات کی پیروی میں تاخیر نظام کو غیر موثر بنا دیتی ہے

مجرموں کے مقدمات کی پیروی میں تاخیر نظام کو غیر موثر بنا دیتی ہے [فائل-فوٹو]

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی اور شرپسندی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ افغانستان سے ملحقہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے اضلاع میں دہشت گرد عناصر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بلوچستان میں زرغون ایریا میں اور ٹانک میں فورسز اور دہشت گردوں میں فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ اس جھڑپ میں سیکیورٹی فورسز کے پانچ جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں اور شرپسندوںکے خلاف آپریشن موثر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے اور فورسز علاقے سے دہشت گردوں کے فرار کو روکنے کے لیے دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ پاک دھرتی پر امن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے جوانوں پر قوم کو فخر ہے۔ لائق ستائش ہے یہ بات کہ ہماری فوج اور سیکیورٹی فورسز کے منظم دستے ریاست کے خلاف سرکشی، بغاوت کرنے والے عناصر کی سرکوبی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی ، یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی، لیکن اس کے بعد پاکستانی افواج کی بہترین حکمت عملی اورجرات مندی کی بدولت اور عوامی تائید سے اس میں کامیابی نصیب ہوئی اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گئی، لیکن اب اس نے نئے سرے سے سر اٹھا لیا ہے۔

ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو سرد جنگ کے دور کی افغان پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔نئی عالمی صف بندی کو سامنے رکھ کر افغانستان کے بارے میں حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات میں افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد کو بغیر نگرانی کے چھوڑا نہیں جاسکتا۔

شمال مغربی سرحدوں پر نگرانی کے جدید نظام کو اپنانا ہوگا تاکہ پاکستان میں آنے اور جانے والوں کے مکمل کمپوٹرائزڈکوائف محفوظ ہونے چاہیں تاکہ وہی لوگ سرحد پار آجا سکیںجن کے کوائف کمپیوٹر میں فیڈ ہوں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کے بارے میں شارٹ ٹرم حکمت عملی کے ساتھ ساتھ طویل مدتی حکمت عملی پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا۔

پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے اور دہشت گردوں کو شکست دے دی گئی لیکن بعد کی حکمت عملی تیار کیے بغیر ہی دہشت گردوں کی شکست کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیر کیا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔

تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے سے افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔ افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے ، حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک بھی افغانستان ٹی ٹی پی ، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے پناہ گاہ رہا اور وہاں طالبان کی حکومت آنے کے بعد تو ٹی ٹی پی کھل کر سامنے آگئی اور طالبان حکومت نے بھی ان کی حمایت کردی اور یہ تاحال جاری ہے۔

اب تو کئی گروپوں کا ٹی ٹی پی میں انضمام ہوگیا ہے۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی سی ٹی ڈی میں پروفیشنل ازم کا فقدان ہے ، خیبر پختونخوا میں سی ٹی ڈی ٹریننگ کا معیار ناقص جب کہ اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے، اوپر جدید اسلحہ کی کمی، انفرمیشن ٹیکنالوجی کا نہ ہونا بھی ان کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے،صوبائی حکومت کا اس معاملے سے لاتعلقی جیسا رویہ بھی دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنتا ہے۔ خیبر پختو نخوا سی ٹی ڈی کی افرادی قوت کی کمی کا بھی شکار ہے ۔

پاکستان کے عوام کو دہشت گردی کی مختلف شکلوں کا سامنا ہے۔ فرقہ وارانہ تنظیمیں عقائد کی آڑ لے کر دہشت گردی کا ہدف حاصل کرتی ہیں۔ دینی اور مذہبی گروپ اسلام کی آڑ میں سیاسی و مالی اہداف حاصل کرنے لیے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

قوم پرستی، لسانیت اور صوبائی تعصبات کو بھی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں انتظامیہ ، پولیس اور عدالتی نظام نوآبادیاتی قوانین پر استوار ہے ۔ان قوانین کے ذریعے انتظامیہ،پولیس اور عدلیہ کا احتساب و جوابدہی نہیں ہوسکتی۔


پاکستان میں تعلیمی نصاب متوازن نہیں ہے، یہ نصاب پڑھنے والے طلبہ تقابلی جائزہ لینے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں، وہ صرف ایک رنگ کو ہی سب رنگ مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بھی انتہاپسندی کا شکار ہے اور کہیں نہ کہیں جاکر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا حصہ بن رہے ہیں۔

اس لیے حکومت کو تعلیم کے نظام کو موثر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی، ورنہ دہشت گردوں کو افرادی کمک معاشرے سے ہی میسر آتی رہے گی اور یہ ناسور کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔

تعلیم کے ساتھ صحت عامہ کے نظام کو عوام تک پہنچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ہر علاقے میں اسپتال، ڈسپنسریاں قائم کرنا ہوں گی۔

ہماری بڑھتی ہوئی آباد ی کے لیے اگر مستقبل میں امن و امان کو قائم رکھنا ہے تو اقتصادی ترقی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا پڑے گی، مگر سیاسی، فرقہ وارانہ منظم اور غیر منظم جرائم پیشہ افراد کا محاسبہ کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کو ہی کام کرنا پڑے گا۔ ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ غربت سے تنگ آ کر کسی نے خود کشی کر لی۔ جو بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنی جان لے سکتا ہے اسے کسی اور کی جان لینے پر بھی اکسایا جا سکتا ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جو ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں۔ بنیادی ضروریات تو بہت دور کی بات ہے، ہمارے ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی خوراک بھی پورا سال میسر نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں، ''فوڈ سیکیورٹی'' جس کا مطلب ہے کسی علاقے کی آبادی کو صحت مند رہنے کے لیے ضروری خوراک سارا سال میسر رہے۔

''ورلڈ فوڈ پروگرام'' کے مطابق پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ '' فوڈ ان سیکیورٹی'' کا شکار ہے۔ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو نام نہاد تعلیم اور مذہب کے نام پر صرف اس لالچ میں انسان دشمن عناصر کے حوالے کر دیتے ہیں کہ ان بچوں کو دو وقت کی روٹی مفت مل جائے گی۔

دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اتنی خبر بھی نہیں کہ ہمارے ملک کی آبادی کتنی ہے، یہاںکتنے غیرملکی باشندے آباد ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں اول تو مردم شماری وقت پر ہوتی نہیں ہے لیکن جب ہوتی ہے تو اس پر بھی لسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات کا غلبہ ہوتا ہے۔

ہر گروہ اپنی آبادی زیادہ دکھانے کے چکر میں ریاست کے اجتماعی مفادات کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اسی رویے کی وجہ سے سے افغان، ایرانی، بنگلہ دیشی، بہاری،برمی،آسامی اور افریقی باشندے پاکستان کے بڑے شہروں میں قیام پذیر ہیں، لیکن پاکستان میں قوم پرست، لسانیت پرست اور مذہبی جماعتیںاپنے اپنے ووٹ بینک کو زیادہ کرنے کے چکر میں ان غیر ملکی باشندوں کوپاکستانی شہریت دینے کی وکالت کرتی ہیں۔

اصولاً ایک مرکزی کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے آبادی کے اعدادو شمار کا ریکارڈ تیار کیا جانا چاہیے۔ ہر تھانے کی حدود میں موجود افراد کا شعبہ جاتی تقسیم کے مطابق ریکارڈ تھانے میں موجود ہونا چاہیے اس کے علاوہ خفیہ پولیس اور سراغ رسانی کے نظام کو فعال اور ہمہ گیر بنانے کی ضرورت ہے۔

جس طرح نادرا کی مدد سے موبائل سمز کی تصدیق کا عمل جاری ہے، اسی طرز پر انتظامی اداروں کو تصدیقی ڈیوائس فراہم کرکے افراد کی نقل و حرکت کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے۔ مختلف شہروں میں داخلے کے وقت مسافروں کی وڈیو بنانے کے بجائے شناختی آلات کی مدد سے کمپیوٹرائزڈ تصدیق کرنے سے انتظامی اداروں، پولیس کو فوراً یہ خبر ہوسکتی ہے کہ کس کیٹگری سے منسلک کون سا شخص اس وقت شہری حدود میں داخل ہوچکا ہے اور اس کو کیسے مانیٹر کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ ہمارے ہی نظام میں موجود اگر کچھ کالی بھیڑیں دہشت گردوں کی مدد اور ان کی مجرمانہ کارروائیوں میں شریک ہیں تو ان کو بھی منظر عام پر لاکر نشان عبرت بنانا چاہیے۔ انتظامیہ، پولیس کو مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے نظام کو بھی وقت کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔

مجرموں کے مقدمات کی پیروی میں تاخیر نظام کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔ یہ فوری نوعیت کے اقدامات آج سے بہت پہلے ہونے چاہیے تھے، ان میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ اہل وطن کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اب اس عفریت کا سر کچلنا ہو گا ورنہ یہ فتنہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔ ہر فرد کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔
Load Next Story