شعور اور لاشعور کا کھیل

شعور‘ لاشعور‘ Hypnosisاور سائکو تھراپی کی ان گنت بلکہ لا تعداد مثالیں ہیں

raomanzarhayat@gmail.com

فرائڈآسٹریا کا ایک کمال ڈاکٹر تھا۔ پہلا طبیب' جس نے انسانی دماغ کو بھرپور طریقے سے جاننے کی سائنٹفک کوشش کی۔ اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ انسانی ذہن کی وسعتیں اتنی زیادہ اور مشکل ہیں کہ ان کو مکمل طور پر پرکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ پھر بھی فرائڈ ابتدائی ڈاکٹروں میں سے ہے۔

جنھوں نے اس مشکل ترین کام کو سمجھنے کی جدوجہد کی۔ فرائڈ ویانہ میں پریکٹس کرتا تھا۔ نفسیاتی مسائل سے بوجھل مریض اسپتال آتے رہتے تھے۔ فرائڈ جب اپنے طریقے سے انھیں ٹھیک کرنے کا کام شروع کرتا تھا۔ جو اُس وقت کے طبی مروجہ اصولوں سے حد درجہ مختلف ہوتے تھے۔

اسے ہر دم تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ساتھی ڈاکٹر تو ایک طرف' پروفیسر اسے کئی بار اسپتال سے نکال چکا تھا۔ مگر فرائڈ نے Psychoanalysis اور Subconscious کے ایسے نایاب کلیے پیش کیے کہ آج تک وہ Psychotherapy کا بے تاج بادشاہ ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ وہ کہتاکیا تھا۔ اس کے مطابق ہر انسان کے اندر' مختلف اور متضاد شخصیات ہوتی ہیں۔ انسان کا شعور ہر ایک کے سامنے ہوتا ہے۔

اسی شعور کی بدولت وہ کسی بھی معاشرے میں ایک خاص رویہ کا حامل ہوتاہے۔ اس کی سماجی پہچان ' وہی شعوری شخصیت ہوتی ہے۔ مگر یہ بھرپور طریقے سے صرف ایک دھوکا یا فریب ہوتا ہے۔ انسان کی اصل شخصیت ' لاشعورسے جڑی ہوتی ہے۔ اس کا وہ برتاؤ' شعوری سطح سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ بلکہ اکثریت معاملات میں تو لاشعوری شخصیت کا' شعوری رویہ سے الٹ تعلق ہوتا ہے۔

Hypnosis کا اصل موجد بھی فرائڈ ہی ہے۔ اس طریقے سے فرائڈ نے نفسیاتی اور ذہنی معاملات کی دنیا پلٹ ڈالی۔ فرائڈ کی تشخیص کی بنیاد ' محرومیاں اور فطری تقاضوں پر غور کرنا تھا۔مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ آسٹروہنگیرین یورپ کی ایک عظیم سلطنت تھی۔ اس کا بادشاہ حد درجہ کامیاب اور ذہین انسان تھا۔ ولی عہد بھی تمام رموزِ دربار اور حکومت سے آشنا تھا۔ دیکھنے میں شاہی خاندان کے تمام معاملات بالکل درست تھے۔ مگر فرائڈ ایک مریضہ کا Hypnosis کے ذریعے علاج کر رہا تھا۔

جس کے اندر دراصل دو خواتین تھیں ۔ یعنی اسے Split Personality بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو لڑکی' Hypnosis کے بعد' سامنے آئی تھی۔ وہ حد درجہ متحرک تھی۔ اور شخصیت کے اس پہلو کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ Trans میں لڑکی نے بتایا کہ ولی عہد' دراصل رات کو اپنی خواب گاہ میں ''کتے'' کا روپ دھار لیتا ہے۔ اسی جانور کی طرح چلنا شروع کر دیتا ہے۔ بولنے کے بجائے بھونکتا ہے۔فرائڈ کے لیے یہ معاملہ بالکل اہمیت نہیں رکھتا تھا۔

کیونکہ اس کا تو دعوی ہی یہی تھا کہ انسان کی لاشعور سے برآمد ہونے والی شخصیت ہی اس کی اصل شناخت ہوتی ہے۔ مگر اس مریضہ کے ایک انکشاف نے فرائڈ کو ہلا دیا ۔

کہ ولی عہد دراصل بذات خود Hypnosisمیں جا چکا ہے۔ اس ذہنی صورت حال میں اپنے والد' یعنی بادشاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔

ولی عہد کے لاشعور کی کیفیت کو ایک ایسا دہشت گرد گروہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ جو بادشاہ کو ہی نہیں' سلطنت کو پارہ پارہ کرنا چاہتا تھا۔ بہر حال یہ ایک طویل سچی داستان ہے۔ ویسے ولی عہد' اپنے والد کو قتل نہیں کر پاتا۔ مگر اس کے ساتھ ایک شدید ذہنی مسئلہ ہو چکا تھا۔ شعور اور لاشعور کے درمیان گم ہو چکا تھا ۔اسے مرتے دم تک باندھ کے رکھا جاتا تھا۔

شعور' لاشعور' Hypnosisاور سائکو تھراپی کی ان گنت بلکہ لا تعداد مثالیں ہیں۔ اپنے اردگرد لوگوں کو غور سے دیکھیے۔ دیکھنے میں وہ ہر طور سے مثالی انسان نظر آئیں گے۔ مگر اصل شخصیت اس کے الٹ ہو گی۔ جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا۔ تو مجھے جس شعبے سے دیوانہ وار شغف تھا۔ وہ Psychiatry تھا۔ اس کا وارڈ میو اسپتال کے تقریباً آخر میں تھا۔ اپنا تمام فارغ وقت وہاں گزارتا تھا۔


نفسیاتی امراض کو پڑھتا رہتا تھا۔ مریضوں کی میڈیکل کی ہسٹری لکھتا تھا اور اس پر گھنٹوں غور کرتا تھا۔ اگر میں سول سرونٹ نہ ہوتا تو Psychiatrist ہوتا۔ ویسے آج بھی میں شوق سے اسی مضمون کی ورق گردانی کرتا رہتا ہوں۔ اس دورانیہ میں' مجھے اپنے سماج کے وہ وہ پہلو مستند طور پر نظر آئے تھے' جو میں تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔آپ کے سامنے دو مریضوں کے لاشعوری معاملات رکھتا ہوں۔ ایک مریض کو بھوک حد درجہ زیادہ لگتی تھی۔ دن میں متعدد بار کئی کئی روٹیاں کھا جاتا تھا۔

اس کی خوراک دس بارہ بندوں کے برابر تھی۔ مگر اس کی بھوک ختم نہیں ہوتی تھی۔ اس مریض کی ذہنی ساخت جاننے کے لیے حد درجہ محنت کی۔ نتائج دیکھ کر کم از کم میرا دماغ سن ہو گیا۔ وہ شخص دراصل انسانی گوشت کھانے کا عادی تھا۔ قبرستان سے لاشیں چرا کر گھر لے آتا تھا۔ اور پھر انھیں آہستہ آہستہ کھاتا رہتا تھا۔ اس کی بھوک ختم ہی مردہ انسانی گوشت سے ہوتی تھی۔

جب پروفیسر کو یہ بات بتائی تو وہ ششدر رہ گیا۔ مگر میری تشخیص بالکل درست تھی۔ بہر حال اس کے آگے میں لکھنا نہیں چاہتا۔ بالکل اسی طرح ایک بچی وارڈ میں آئی۔ وہ ڈاکٹروں کو لوہے کے برتنوں سے پیٹتی تھی۔ کسی کو بھی اپنے مرض کی ہسٹری لکھوانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ پروفیسر نے یہ کیس بطور طالب علم میرے حوالے کیا۔ جب بھی کیس ہسٹری کے لیے مریضہ کے پاس جاتا تھا۔ تو وہ گالیاں نکالتی تھی۔ کیس ہسٹری لینے میں ناکامی پر پروفیسر نے مجھے بہت ڈانٹا۔ بھاری بھاری گالیاں سنتے سنتے میں بے بس ہو چکا تھا۔

خیر اگلے دن آیا تو بیڈ خالی تھا۔ مریضہ غائب تھی۔ پروفیسر حد درجہ خفا ہوئے اور کہا کہ جو مرضی ہو جائے۔ تم جاؤ اور مریضہ کا علاج شروع کروں۔ ریکارڈ سے گھر کا پتہ معلوم کیا۔ اندرون شہر گھر تک پہنچ گیا۔ بیل دی۔ دروازہ کھلا تو وہی بچی تھی۔ مگر اب وہ بالکل ٹھیک معلوم ہو رہی تھی۔ اس کی والدہ بھی آ گئی ۔ ایسے لگا کہ میں غلط جگہ آ گیا ہوں۔ کیونکہ یہ بچی تو نہ برتن اٹھا اٹھا کر مار رہی تھی اور نہ ہی گالیاں بک رہی تھی۔ خیر ہم دو میڈیکل کے طالب علم تھے۔

اس بچی نے بڑے سکون سے اپنی ذہنی کیفیت بتائی۔ حقیقت یہ تھی کہ لڑکی سے اس کا نزدیکی ترین خونی رشتہ دار شخص بچپن سے زیادتی کر رہا تھا۔ تمام گھر والوں کے علم میں تھا۔ میرے لیے اس تشخیص کو تسلیم کرنا حد درجہ مشکل تھا۔ مگر حقیقت یہی تھی۔ چند ماہ بعد' اس بچی نے لاہور کے مینٹل اسپتال میں خودکشی کر لی۔ مرتے وقت اس کی عمر صرف اور صرف چودہ برس تھی۔

لاشعور ہی وہ اصل منبع ہے جہاں کسی بھی انسانی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اور یہ ذہن کا دشوار ترین حصہ ہے۔ علمی ادارے یا میو اسپتال سے نکل کر آج کی دنیا کی طرف آتا ہوں۔گزارش کروں گا کہ اپنے اردگرد موجود لوگوں میں سے کسی کو چن لیجیے۔ اگر آپ نے میڈیکل کی سائنسی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور آپ Psychoanalysis کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ تو یہ کام کیجیے۔

نتائج حیران کن ہوں گے۔ ان لوگوں کی اصل شخصیت' آپ کے سامنے موجود انسان سے بہت مختلف ہو گی۔ اچھی یا بری کی بابت عرض نہیں کر رہا۔ لاشعور سے ابھرا ہوا انسان فرشتہ بھی ہو سکتا ہے اور شیطان بھی۔ ذاتی طور پر ملک کے ہر اس بڑے عہدے دار سے مل چکا ہوں۔ جو صاحب اقتدار ہیں۔

ان کی حرکات کو غور سے دیکھتا رہا ہوں اور اب بھی دیکھتا ہوں۔ ان کی باڈی لینگوئج' آنکھوں کی movemant' گفتگو کے دوران ہاتھوںکا استعمال اور چہرے پر تاثرات ' سائنسی تدبیر سے پرکھتا ہوں۔ اس میں آج اور ماضی کے مقتدر طبقہ کے چیدہ چیدہ لوگ شامل ہیں۔ نفسیاتی تجزیہ کے حساب سے ان کی لاشعوری شخصیت لکھ کر اپنے پاس رکھ چکا ہوں۔ ایک بات بتاتا چلوں۔

ان طاقتور اشخاص کے لاشعوری حالات اور اندرونی شخصیات حد درجہ خوفناک ہیں۔ چند قائدین تو اس منفی طرز کی جسمانی عادتوں کے شکار ہیں۔ جن کو لکھنا مناسب نہیں ہے۔ کسی کے کردار کے متعلق عرض نہیں کر رہا۔ میں قطعاً کوئی نجومی نہیں ہوں۔ مگر جدید تعلیم نے بہرحال چند معاملات کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ جو کسی بھی ذہن کو پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ سب سے زیادہ تضادات ان مرد اور عورتوں میں ہوتے ہیں' جو بچپن یا بعد میں حددرجہ تغیر سے گزرتے ہیں۔ یہ اقتدار کا اڑن کھٹولا بھی ہو سکتا ہے۔

دولت کا جھولا بھی ہو سکتا ہے۔ غربت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بے جوڑ ازدواجی زندگی بھی ہو سکتی ہے۔ اور گھریلو گھٹن یا روک ٹوک بھی ہو سکتی ہے۔ عملی زندگی میں حد درجہ کامیابی کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ ناکامی کی پاتال کی بدولت بھی برپا ہو سکتی ہے۔

یہ اوائل عمری میں اپنے ماں باپ کے سلوک سے بھی منسلک ہو سکتی ہے اور بے جا جنسی تشدد کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔ بہرحال لاشعور سے جڑی ہوئی شخصیت پر سائنسی طریقے سے غور کیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کئی فرشتے' شیطان نظر آنے شروع ہو جائیں۔یا کئی مبینہ شیطان' فرشتے سے بھی مقدس نکلیں۔ یاد رکھیے' یہ سب کچھ شعور اور لاشعور کا کھیل ہے۔ حد درجہ خطرناک کھیل!
Load Next Story