قربان جائیں آپ کی معصومیت پر
آج خان صاحب اپنے خلاف لگائے گئے چوری اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں
ہمارے یہاں ہر جمہوری حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے گلے اور شکوے رہے ہیں خواہ دونوں فریق کے ایک پیج پر ہونے کا کوئی کتنا ہی پر زور اور اسٹرونگ دعویٰ کرتے رہیں لیکن اندر کا حال وہی جانتا ہے جو اس دور سے گذر رہا ہو۔ 2018 میں برسر اقتدار آنے والی حکومت نے ایسے دعوے اس وقت تک جاری رکھے جب تک اُسے عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے بیدخل نہیں کر دیا گیا۔
اپریل 2022ء تک وہ اس ایک پیج کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتی رہی۔ ہر موقع اور ہر لمحہ اس پیج کے ثمرات گنائے جاتے رہے اورکہا جاتا رہا کہ یہ واحد حکومت ہے جس کے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے اتنے اچھے تعلقات ہیں۔ مگر اس ملک نے نہ بہتری کی طرف جانا تھا اور نہ جاسکا۔ تقریباً چار سال تک بلا روک ٹوک اور بھرپور حمایت کے باوجود ملک کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے رہے اور ایک وقت وہ آگیا کہ معاملات حکومت کے کنٹرول سے مکمل طور پر باہر ہوچکے اور وہ کھلم کھلا IMF سے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد میں خلاف ورزیاں کرنے لگی۔
ملک ایک معاشی بحران میں پھنستا چلا گیا اور اس کے ڈیفالٹ ہوجانے کی پیش گوئیاں کی جانے لگیں۔ ایسے میں اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک لاکر یہ مصیبت خود اپنے سر لے لی۔ سابق وزیراعظم کو اپنی اس جاں بخشی پر اپوزیشن کا شکر گذار اور ممنون ہونا چاہیے تھا مگر وہ الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں پر اتر آئے، اپوزیشن کے ساتھ ساتھ امریکا اور اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی معزولی پر مورد الزام ٹہرانے لگے۔
جلسے جلوسوں اور سڑکوں کی سیاست کا اپنا پرانا اور دیرینہ شوق پورا کرنے لگے۔ اُن کا خیال تھا وہ اس طرح حکومت کو ایک دن بھی چلنے نہیں دیں گے اور افراتفری پیدا کر کے اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے جانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے، مگر جب یہ ہو نہ سکا تو اُنہوں نے اپنی ہی دو صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور نوے دنوں میں نئے الیکشن کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر پھر سے تازہ دم ہوکر نکل آئے۔
اُنہیں معلوم تھا حکومت یہ الیکشن ہونے نہیں دے گی اور اگر ہو بھی گئے تو وہ اس کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئے ایک بار پھر تشدد اور ہنگامہ آرائی کی سیاست کو اپنا ذریعہ شغل بنا کر سارے ملک کو عدم استحکام کا شکارکردیں گے۔
جب تمام حربے ناکامی سے دوچار ہوگئے تو وہ کھل کر اور اعلانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ اُن سے پہلے بر سر اقتدار آنے والوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے شکایتیں رہی ہیں لیکن کسی نے اُس ادارے پر ایسے حملے نہیں کیے جیسے خان صاحب نے اپنے آدمیوں سے کچھ دن پہلے کروائے ۔ ادارے کے اہم مراکز پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے ایسے مناظر اس قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اور تو اور بانی پاکستان کے گھر اور ملک پر جانیں نثار کرنے والوں کی یادگاروں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔
اُنہیں مسمار کر کے اس ملک کے دشمنوں کو خوش کیا گیا ۔ آج سے پہلے کسی جمہوری سیاستدان نے ایسے گھناؤنے حربے استعمال نہیں کیے، اُنہوں نے صرف بیان بازی تک خود کو محدود رکھا۔ شہداء کی یادگاروں کو مسمار کر کے جلا دینا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا تھا۔ دشمن کی فوج اگر ایسا کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اپنے لوگ ایسا کریں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
اور تو اور اب جب اس مجرمانہ افعال پر سزائیں بھگتنے کا وقت آیا تو غیر ممالک سے ملک کے اندر مداخلت کی دعوت دی جانے لگی حالانکہ ابھی تو کوئی سزا سنائی ہی نہیں گئی، صرف گرفتاریاں ہوئی ہیں اور غیر ملکی آقاؤں کو مدد کے لیے پکارا جانے لگا۔ خان صاحب نے ابھی ایک دن بھی جیل میں نہیں گذارا ، وہ جیل سے ویسے ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔
کہنے کو دلیر اور بڑے بہادر سیاستدان ہیں لیکن جیل کا خوف اُنہیں ہر وقت پریشاں کیے رہتا ہے۔ وہ ایک نڈر اور بے باک سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے ، سپریم کورٹ نے اُنہیں صادق اور امین کا درجہ بھی عنایت فرما دیا لیکن اُن کی صداقت اور امانت داری کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب وہ اپنے خلاف کسی بد عنوانی کا جواب دینے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔ فارن فنڈنگ کا معاملہ ہو یا توشہ خانے کی چوری کا ، القادر ٹرسٹ کیس ہو یا پھر مالم جبہ کیس میں مالی بدعنوانی کا، پشاور BRT منصوبے میں فراڈ ہو یا پھر بلین ٹری میں اربوں روپے کا ہیر پھیر، کسی کیس میں بھی وہ جواب دینے سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
انھوں نے یہ جان لیا ہے کہ اس طرح وہ میاں نوازشریف کی طرح پھنستے چلے جائیں گے، وہ اگر کسی کیس میں اپنے خلاف فرد جرم عائد ہونے دیتے ہیں تو پھر وہ اس جرم کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کسی بھی سماعت پر حاضر ہی نہ ہوں۔ عدلیہ مجبوراً گرفتاری کا آرڈر جاری کرے گی تو وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیںگے۔ خود کو بے گناہ اور حکومت کواپنے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کا الزام دیتے رہیں گے، وہ اگر کسی کیس میں گرفتار ہو جائیں تو اُن کے کارکن جو پہلے ہی سے تیار کیے جاچکے ہوں، ہنگامہ آرائی کر کے سارے ملک کو تہس نہس کردیں گے۔
ایسی سیاست کے دو بڑے فوائد ہیں ایک تو اپنے خلاف کوئی کیس احتسابی عمل سے گذر کر انجام تک پہنچ ہی نہیں پائے گا اور دوسرے عوام کی ہمدردیاں مفت میں حاصل ہوتی جائیںگی۔ میاں نواز شریف نے بہت بڑی غلطی کی تھی ، وہ وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے JITاور احتسابی عدالتوں میں حاضر ہوتے رہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس ملک کا قانون بھی یہی ہے کہ کوئی مجرم عدالت کے روبرو پیش ہی نہ ہو، اگر ہوگیا تو سزا لازمی ہے لیکن اگر راہ فرار اختیار کرتا رہے تو مظلوم اور بے قصور تصور کیا جاتا رہے گا۔
آج خان صاحب اپنے خلاف لگائے گئے چوری اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح پتا ہے کہ القادر ٹرسٹ میں اربوں روپے کی چوری کے الزام سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔ یہ کیس باقی تمام کیسوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور واضح ہے۔ وہ قومی خزانے میں چوری کی ایسی سمپل اور کھلی واردات ہے جس میں کوئی بھی مخفی پہلو نہیں ہے۔ معصوم اور سادہ اتنے ہیں کہ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کیس کیسے بدعنوانی کا کیس بن گیا۔ پیسہ چاہے قومی خزانے میں ہو یا سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں۔ قربان جائیں جناب کی معصومیت پر۔
اپریل 2022ء تک وہ اس ایک پیج کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتی رہی۔ ہر موقع اور ہر لمحہ اس پیج کے ثمرات گنائے جاتے رہے اورکہا جاتا رہا کہ یہ واحد حکومت ہے جس کے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے اتنے اچھے تعلقات ہیں۔ مگر اس ملک نے نہ بہتری کی طرف جانا تھا اور نہ جاسکا۔ تقریباً چار سال تک بلا روک ٹوک اور بھرپور حمایت کے باوجود ملک کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے رہے اور ایک وقت وہ آگیا کہ معاملات حکومت کے کنٹرول سے مکمل طور پر باہر ہوچکے اور وہ کھلم کھلا IMF سے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد میں خلاف ورزیاں کرنے لگی۔
ملک ایک معاشی بحران میں پھنستا چلا گیا اور اس کے ڈیفالٹ ہوجانے کی پیش گوئیاں کی جانے لگیں۔ ایسے میں اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک لاکر یہ مصیبت خود اپنے سر لے لی۔ سابق وزیراعظم کو اپنی اس جاں بخشی پر اپوزیشن کا شکر گذار اور ممنون ہونا چاہیے تھا مگر وہ الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں پر اتر آئے، اپوزیشن کے ساتھ ساتھ امریکا اور اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی معزولی پر مورد الزام ٹہرانے لگے۔
جلسے جلوسوں اور سڑکوں کی سیاست کا اپنا پرانا اور دیرینہ شوق پورا کرنے لگے۔ اُن کا خیال تھا وہ اس طرح حکومت کو ایک دن بھی چلنے نہیں دیں گے اور افراتفری پیدا کر کے اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے جانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے، مگر جب یہ ہو نہ سکا تو اُنہوں نے اپنی ہی دو صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور نوے دنوں میں نئے الیکشن کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر پھر سے تازہ دم ہوکر نکل آئے۔
اُنہیں معلوم تھا حکومت یہ الیکشن ہونے نہیں دے گی اور اگر ہو بھی گئے تو وہ اس کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئے ایک بار پھر تشدد اور ہنگامہ آرائی کی سیاست کو اپنا ذریعہ شغل بنا کر سارے ملک کو عدم استحکام کا شکارکردیں گے۔
جب تمام حربے ناکامی سے دوچار ہوگئے تو وہ کھل کر اور اعلانیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ اُن سے پہلے بر سر اقتدار آنے والوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے شکایتیں رہی ہیں لیکن کسی نے اُس ادارے پر ایسے حملے نہیں کیے جیسے خان صاحب نے اپنے آدمیوں سے کچھ دن پہلے کروائے ۔ ادارے کے اہم مراکز پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے ایسے مناظر اس قوم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اور تو اور بانی پاکستان کے گھر اور ملک پر جانیں نثار کرنے والوں کی یادگاروں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔
اُنہیں مسمار کر کے اس ملک کے دشمنوں کو خوش کیا گیا ۔ آج سے پہلے کسی جمہوری سیاستدان نے ایسے گھناؤنے حربے استعمال نہیں کیے، اُنہوں نے صرف بیان بازی تک خود کو محدود رکھا۔ شہداء کی یادگاروں کو مسمار کر کے جلا دینا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا تھا۔ دشمن کی فوج اگر ایسا کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اپنے لوگ ایسا کریں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
اور تو اور اب جب اس مجرمانہ افعال پر سزائیں بھگتنے کا وقت آیا تو غیر ممالک سے ملک کے اندر مداخلت کی دعوت دی جانے لگی حالانکہ ابھی تو کوئی سزا سنائی ہی نہیں گئی، صرف گرفتاریاں ہوئی ہیں اور غیر ملکی آقاؤں کو مدد کے لیے پکارا جانے لگا۔ خان صاحب نے ابھی ایک دن بھی جیل میں نہیں گذارا ، وہ جیل سے ویسے ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔
کہنے کو دلیر اور بڑے بہادر سیاستدان ہیں لیکن جیل کا خوف اُنہیں ہر وقت پریشاں کیے رہتا ہے۔ وہ ایک نڈر اور بے باک سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے ، سپریم کورٹ نے اُنہیں صادق اور امین کا درجہ بھی عنایت فرما دیا لیکن اُن کی صداقت اور امانت داری کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب وہ اپنے خلاف کسی بد عنوانی کا جواب دینے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔ فارن فنڈنگ کا معاملہ ہو یا توشہ خانے کی چوری کا ، القادر ٹرسٹ کیس ہو یا پھر مالم جبہ کیس میں مالی بدعنوانی کا، پشاور BRT منصوبے میں فراڈ ہو یا پھر بلین ٹری میں اربوں روپے کا ہیر پھیر، کسی کیس میں بھی وہ جواب دینے سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
انھوں نے یہ جان لیا ہے کہ اس طرح وہ میاں نوازشریف کی طرح پھنستے چلے جائیں گے، وہ اگر کسی کیس میں اپنے خلاف فرد جرم عائد ہونے دیتے ہیں تو پھر وہ اس جرم کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کسی بھی سماعت پر حاضر ہی نہ ہوں۔ عدلیہ مجبوراً گرفتاری کا آرڈر جاری کرے گی تو وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیںگے۔ خود کو بے گناہ اور حکومت کواپنے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کا الزام دیتے رہیں گے، وہ اگر کسی کیس میں گرفتار ہو جائیں تو اُن کے کارکن جو پہلے ہی سے تیار کیے جاچکے ہوں، ہنگامہ آرائی کر کے سارے ملک کو تہس نہس کردیں گے۔
ایسی سیاست کے دو بڑے فوائد ہیں ایک تو اپنے خلاف کوئی کیس احتسابی عمل سے گذر کر انجام تک پہنچ ہی نہیں پائے گا اور دوسرے عوام کی ہمدردیاں مفت میں حاصل ہوتی جائیںگی۔ میاں نواز شریف نے بہت بڑی غلطی کی تھی ، وہ وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے JITاور احتسابی عدالتوں میں حاضر ہوتے رہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس ملک کا قانون بھی یہی ہے کہ کوئی مجرم عدالت کے روبرو پیش ہی نہ ہو، اگر ہوگیا تو سزا لازمی ہے لیکن اگر راہ فرار اختیار کرتا رہے تو مظلوم اور بے قصور تصور کیا جاتا رہے گا۔
آج خان صاحب اپنے خلاف لگائے گئے چوری اور مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح پتا ہے کہ القادر ٹرسٹ میں اربوں روپے کی چوری کے الزام سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔ یہ کیس باقی تمام کیسوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور واضح ہے۔ وہ قومی خزانے میں چوری کی ایسی سمپل اور کھلی واردات ہے جس میں کوئی بھی مخفی پہلو نہیں ہے۔ معصوم اور سادہ اتنے ہیں کہ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کیس کیسے بدعنوانی کا کیس بن گیا۔ پیسہ چاہے قومی خزانے میں ہو یا سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں۔ قربان جائیں جناب کی معصومیت پر۔