نازک موڑ اور سیاہ ابواب
ہمارے ملک کی تاریخ ہمیشہ سے نازک موڑ اور سیاہ ابواب سے بھری رہی ہے
''ملک اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے''۔ میرے خیال میں یہ وہ واحد فقرہ ہے جو ہم پاکستانی اس وقت سے سن رہے ہیں جب سے ہوش سنبھالا ہے۔
اخبار اٹھا کر پڑھ لیجیے یا ٹی وی آن کرکے خبریں دیکھ لیجیے، کہیں نے کہیں اس فقرے سے واسطہ ضرور پڑتا ہے اور یہ فقرہ ہر حکومت کے دل کی آواز ہوتا ہے کہ جب بھی عوام اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں، مہنگائی کا تذکرہ ہوتا ہے، اپوزیشن سے مذاکرات کی بات چلتی ہے، معیشت کی بہتری کےلیے مطالبہ کیا جاتا ہے تو ہر حکومت کا ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ابھی کچھ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ملک اس وقت تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔
ہم نے بھی اپنی زندگی میں نشیب و فراز کے بڑے بڑے موڑ دیکھے مگر ملکی تاریخ میں ہمارا پالا جتنا اس نازک موڑ سے پڑا، اتنا زیادہ کسی اور شے سے نہیں پڑا اور پھر اس نازک موڑ کی آڑ میں ہمارے ملک کی تاریخ میں سیاہ ابواب کا بھی آئے روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے کہ ہم ابھی ہمارے اذہان میں پچھلے سیاہ باب کی بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ کسی نئے سیاہ باب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ابھی ہمارے ملک کی گاڑی ایک نازک موڑ کاٹتی ہے تو دوسرا پھر سامنے کھڑا ہماری لیاقت و قابلیت کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ الغرض اپنی زندگی ہے کہ آخرت کی طرف اپنا سفر رواں کیے ہوئے ہے اور ہر آنے والا دن ہماری زندگی سے کم ہوتا جارہا ہے لیکن ابھی تک ہماری یہ حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ان کانوں کو نازک موڑ ختم ہونے کی آواز سنائی دے اور ان آنکھوں کو سیاہ باب کے بجائے کچھ ہرا بھرا دکھائی دے۔
9 مئی 2023 کے واقعات نے ملک کے سیاہ ابواب میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا ہے اور اب ہم ہر سال 9 مئی کو یوم سیاہ منایا کریں گے اور ہر سال اپنے دل اور روح پر لگنے والے وہ زخم تازہ کیا کریں گے جو کسی غیر نے نہیں بلکہ اپنوں کے ہاتھوں ہمارے نصیب میں آئے۔ ہمیں یہ سیاہ باب دینے والوں میں کچھ مفاد پرست شامل ہیں تو کچھ تخریب کار۔ کسی کو اقتدار کا لالچ، تو کسی کو اپنے قائد سے اندھی محبت لے ڈوبی۔ الغرض ہر کسی کے پاس اپنے کیے کا کوئی نہ کوئی جواز تو موجود ہے لیکن کسی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ ان کے سارے اعمال کی بدولت ملک کا جو عام آدمی متاثر ہوا، اس کا نقصان ہوا، نجی، سرکاری اور عسکری تنصیبات اور یادگار شہداء کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا ذمے دار کون ہے؟
جب ہر کوئی دودھ میں دھلا ہے تو پھر یہ نفرتوں اور وحشتوں کا کھیل کس نے کھیلا ہے؟ جب ہر کوئی معصوم اور ملک کا خیر خواہ ہے تو جن لوگوں کی جانیں گئیں وہ اپنا خون کس کے ہاتھ میں تلاش کریں؟ اگر سب جماعتوں کے کارکن پرامن اور اپنے قائدین کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے والے ہیں تو پھر جنہوں نے آگ اور خون کی یہ ہولی کھیلی، وہ کون ہیں؟ ان کی پہچان کیسے ہوگی؟ کون کرے گا؟ اور ان کو ایسی مثالی سزا کون دے گا کہ آئندہ اس قسم کا سیاہ باب ہماری تاریخ میں کبھی دہرایا نہ جاسکے؟
ہر برسراقتدار آنے والی حکومت کا بنیادی طور پر ایک ہی منشور ہوتا ہے کہ وہ ملک کو اس نازک موڑ سے نکالے گی، جس کی ذمے دار گزشتہ حکومت ہے، جس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا اور جس کی ناقص اور عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت عام آدمی تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت حال سے دوچار ہوچکا ہے۔ لیکن ہماری زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آنے والی ہر حکومت نہ تو اس نازک موڑ کو ختم کرسکی اور نہ وہ عوام کی زندگیوں میں سکھ کا ایک سانس ہی لانے میں کامیاب ہوسکیں۔ باقی رہ گئی اپوزیشن، تو وہ ہمیشہ حکومت وقت کی ہر بات (چاہے وہ اچھی ہی کیوں نہ ہو) کی مخالفت پر ڈٹی رہی اور ہر وہ حربہ استعمال کرتی رہی کہ حکومت گرے اور اس کی جھولی میں آگرے۔ الغرض ہر حکومت اور اپوزیشن اپنا سارا وقت اقتدار اور مفادات کی رسہ کشی میں ہی گزارتی رہیں اور نہ تو نازک موڑ ختم ہوا اور نہ ہی سیاہ ابوا ب میں اضافہ تھمنے میں آیا۔
کبھی سقوط ڈھاکا کا سیا ہ باب، کبھی آرمی پبلک اسکول پر حملے کا سیاہ باب، کبھی زیارت ریزیڈنسی پر دہشت گردوں کے حملے کا سیاہ باب، کبھی کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر خون کی ہولی کا سیاہ باب، اور اب پھر سرکاری و عسکری تنصیبا ت پر حملے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کا سیاہ باب۔ ان کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار چھوٹے بڑے سیاہ ابواب سے ہماری تاریخ ہی سیاہ ہوتی جارہی ہے لیکن ہم ہیں کہ چند دن سوگ منا کر اور اپنوں کی بے حسی کا ماتم کرکے پھر نئے کپڑے پہن کر کسی اور نازک موڑ اور سیاہ باب کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم اس نازک موڑ کو ختم کرنے اور سیاہ ابواب کا خاتمہ کرنے کےلیے درکار اہلیت کو بروئے کار لانے کے بجائے رونی صورت بنا کر یہ گنگنانے لگتے ہیں کہ ''جانے کب ہوں گے کم، اس دنیا کے غم''۔
آئیے! اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیجیے۔ ملک کو نازک موڑ پر لانے اور سیادہ ابواب کے ذمے داروں کو مثال عبرت بنائیے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت تو درکنار، ایسی سوچ بھی ذہن میں نہ آئے۔ ملک کا عام شہری جو محب وطن بھی ہے، وہ ان نازک موڑوں اور سیاہ ابواب کی چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ گیا ہے اور ان دونوں میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر وہی ہوتا ہے اور سچے دل سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اخبار اٹھا کر پڑھ لیجیے یا ٹی وی آن کرکے خبریں دیکھ لیجیے، کہیں نے کہیں اس فقرے سے واسطہ ضرور پڑتا ہے اور یہ فقرہ ہر حکومت کے دل کی آواز ہوتا ہے کہ جب بھی عوام اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں، مہنگائی کا تذکرہ ہوتا ہے، اپوزیشن سے مذاکرات کی بات چلتی ہے، معیشت کی بہتری کےلیے مطالبہ کیا جاتا ہے تو ہر حکومت کا ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ابھی کچھ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ملک اس وقت تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔
ہم نے بھی اپنی زندگی میں نشیب و فراز کے بڑے بڑے موڑ دیکھے مگر ملکی تاریخ میں ہمارا پالا جتنا اس نازک موڑ سے پڑا، اتنا زیادہ کسی اور شے سے نہیں پڑا اور پھر اس نازک موڑ کی آڑ میں ہمارے ملک کی تاریخ میں سیاہ ابواب کا بھی آئے روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے کہ ہم ابھی ہمارے اذہان میں پچھلے سیاہ باب کی بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ کسی نئے سیاہ باب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ابھی ہمارے ملک کی گاڑی ایک نازک موڑ کاٹتی ہے تو دوسرا پھر سامنے کھڑا ہماری لیاقت و قابلیت کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ الغرض اپنی زندگی ہے کہ آخرت کی طرف اپنا سفر رواں کیے ہوئے ہے اور ہر آنے والا دن ہماری زندگی سے کم ہوتا جارہا ہے لیکن ابھی تک ہماری یہ حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ان کانوں کو نازک موڑ ختم ہونے کی آواز سنائی دے اور ان آنکھوں کو سیاہ باب کے بجائے کچھ ہرا بھرا دکھائی دے۔
9 مئی 2023 کے واقعات نے ملک کے سیاہ ابواب میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا ہے اور اب ہم ہر سال 9 مئی کو یوم سیاہ منایا کریں گے اور ہر سال اپنے دل اور روح پر لگنے والے وہ زخم تازہ کیا کریں گے جو کسی غیر نے نہیں بلکہ اپنوں کے ہاتھوں ہمارے نصیب میں آئے۔ ہمیں یہ سیاہ باب دینے والوں میں کچھ مفاد پرست شامل ہیں تو کچھ تخریب کار۔ کسی کو اقتدار کا لالچ، تو کسی کو اپنے قائد سے اندھی محبت لے ڈوبی۔ الغرض ہر کسی کے پاس اپنے کیے کا کوئی نہ کوئی جواز تو موجود ہے لیکن کسی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ ان کے سارے اعمال کی بدولت ملک کا جو عام آدمی متاثر ہوا، اس کا نقصان ہوا، نجی، سرکاری اور عسکری تنصیبات اور یادگار شہداء کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا ذمے دار کون ہے؟
جب ہر کوئی دودھ میں دھلا ہے تو پھر یہ نفرتوں اور وحشتوں کا کھیل کس نے کھیلا ہے؟ جب ہر کوئی معصوم اور ملک کا خیر خواہ ہے تو جن لوگوں کی جانیں گئیں وہ اپنا خون کس کے ہاتھ میں تلاش کریں؟ اگر سب جماعتوں کے کارکن پرامن اور اپنے قائدین کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے والے ہیں تو پھر جنہوں نے آگ اور خون کی یہ ہولی کھیلی، وہ کون ہیں؟ ان کی پہچان کیسے ہوگی؟ کون کرے گا؟ اور ان کو ایسی مثالی سزا کون دے گا کہ آئندہ اس قسم کا سیاہ باب ہماری تاریخ میں کبھی دہرایا نہ جاسکے؟
ہر برسراقتدار آنے والی حکومت کا بنیادی طور پر ایک ہی منشور ہوتا ہے کہ وہ ملک کو اس نازک موڑ سے نکالے گی، جس کی ذمے دار گزشتہ حکومت ہے، جس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا اور جس کی ناقص اور عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت عام آدمی تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت حال سے دوچار ہوچکا ہے۔ لیکن ہماری زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ آنے والی ہر حکومت نہ تو اس نازک موڑ کو ختم کرسکی اور نہ وہ عوام کی زندگیوں میں سکھ کا ایک سانس ہی لانے میں کامیاب ہوسکیں۔ باقی رہ گئی اپوزیشن، تو وہ ہمیشہ حکومت وقت کی ہر بات (چاہے وہ اچھی ہی کیوں نہ ہو) کی مخالفت پر ڈٹی رہی اور ہر وہ حربہ استعمال کرتی رہی کہ حکومت گرے اور اس کی جھولی میں آگرے۔ الغرض ہر حکومت اور اپوزیشن اپنا سارا وقت اقتدار اور مفادات کی رسہ کشی میں ہی گزارتی رہیں اور نہ تو نازک موڑ ختم ہوا اور نہ ہی سیاہ ابوا ب میں اضافہ تھمنے میں آیا۔
کبھی سقوط ڈھاکا کا سیا ہ باب، کبھی آرمی پبلک اسکول پر حملے کا سیاہ باب، کبھی زیارت ریزیڈنسی پر دہشت گردوں کے حملے کا سیاہ باب، کبھی کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر خون کی ہولی کا سیاہ باب، اور اب پھر سرکاری و عسکری تنصیبا ت پر حملے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کا سیاہ باب۔ ان کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار چھوٹے بڑے سیاہ ابواب سے ہماری تاریخ ہی سیاہ ہوتی جارہی ہے لیکن ہم ہیں کہ چند دن سوگ منا کر اور اپنوں کی بے حسی کا ماتم کرکے پھر نئے کپڑے پہن کر کسی اور نازک موڑ اور سیاہ باب کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم اس نازک موڑ کو ختم کرنے اور سیاہ ابواب کا خاتمہ کرنے کےلیے درکار اہلیت کو بروئے کار لانے کے بجائے رونی صورت بنا کر یہ گنگنانے لگتے ہیں کہ ''جانے کب ہوں گے کم، اس دنیا کے غم''۔
آئیے! اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیجیے۔ ملک کو نازک موڑ پر لانے اور سیادہ ابواب کے ذمے داروں کو مثال عبرت بنائیے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت تو درکنار، ایسی سوچ بھی ذہن میں نہ آئے۔ ملک کا عام شہری جو محب وطن بھی ہے، وہ ان نازک موڑوں اور سیاہ ابواب کی چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ گیا ہے اور ان دونوں میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر وہی ہوتا ہے اور سچے دل سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔