گورے رنگ کا زمانہ۔۔۔
سانولی رنگت کے حوالے سے احساس کم تری کا قصہ کب ختم ہوگا؟
گورے رنگ کی خواہش خواتین کے لیے جلد کے کینسر، پٹھوں کی کمزوری اور آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کے بھربھرے پن) جیسے سنگین مسائل کا باعث بنتی ہیں۔
کیا آپ کے خیال میں خواتین کا گورا رنگ ان کی خو ب صو رتی کی ضمانت ہوتا ہے؟ پاکستان سمیت تقریباً تمام ایشیائی ممالک ایسے ہیں جہاں سانولی رنگت والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس خطے کی خواتین احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں کیونکہ کسی عورت یا لڑکی میں موجود تمام ترخوبیوں کے باوجود 'ڈارک اسکن' اس کی تمام تر اچھائیوں پر غالب آسکتی ہے۔
سادہ الفاظ میں اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے یہاں 'سانولی رنگت' کسی بھی لڑکی کے لیے ایک 'ناپسندیدہ' سمجھی جاتی ہے۔
اس سانولی رنگت کی 'ناپسندیدگی' کا شکار بچیوں اور خواتین میں رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور بلیچنگ وغیرہ جیسی مصنوعات کا کثرت سے استعمال کا رجحان جِلد سے جڑے ہوئے بہت سے امراض کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف ڈرماٹولوجسٹ کے چکر، رنگ گورا کرنے کے لیے غیر معیاری ادویات اور غیر پیشہ ورانہ بیوٹی سلونز میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹس کا استعمال مخلتف ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی دباؤ اور بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیرت اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ خطہ، ملک یا معاشرہ، جہاں عوام کے پاس صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ادویات کی دست یابی مشکل کام ہے وہاں خواتین اور لڑکیاں رنگ گورا کرنے والی مہنگی کریمیں اور ٹریٹمنٹس کرانے کے لیے نہ جانے کون کون سے جتن کرتی ہوں گی!
اور تو اور خواتین میں رنگ گورا کرنے کے جنون کی رہی سہی کَسر ہمارے ذرایع اِبلاغ پر چلنے والے اشتہارات پوری کر دیتے ہیں، جو کہ بچیوں اور خواتین میں رنگت کے حوالے سے ایک طرف احساس محرومی بڑھاتے ہیں، تو دوسری طرف زندگی کا مقصد اور کام یابی کا ضامن صرف گورے رنگ کو بتاتے ہیں۔
رنگ گورا کرنے کی دیوانگی کے پیچھے ایک اور بڑا عنصر وہ معاشرتی دباؤ ہے، جہاں لڑکی کی خوب صورتی، اچھائیاں اور کام یابیاں گورے رنگ کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ وہ تمام آنٹیاں جن کے خود کے بچے یہاں تک کہ وہ خود بھی سانولی ہوں گی، لیکن کسی ہلکی رنگت والی لڑکی کو دیکھتے ہیں۔
ان کو سانولے رنگ کے تمام تر نقصانات اور رنگ گورا کرنے کے لیے ٹوٹکے ایسے وارد ہوں گے جو کبھی ہمارے اور آپ کے جیسے ذہنوں نے سوچے ہوں گے نہ سمجھے ہوں گے اور اس ساری گورے رنگ اور سانولے رنگ کی کش مکش کا شکار لڑکی اپنی حقیقی خوبیاں، گْن اور خوب صورتی بھول کر رنگت کے مسائل میں الجھ جاتی ہے۔
ویسے تو برصغیر میں نسل پرستی، امتیازی سلوک کی جڑیں بھی گہری اور تاریخی ہیں، جو کہ ذات پات اور استعمار سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن آپ کو اچھی اچھی پرکشش شخصیت اور خصوصیات کی مالک قابل خواتین اور بچیاں 'گورے رنگ' کے خبط میں مبتلا نظر آئیں گی، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں پھیلی دولت کی نمائش، بڑھتی ہوئے طبقاتی تفریق سمیت اور بہت سے منافقتوں کی طرح 'گورے' اور 'سانولے' رنگ کی تفریق (خصوصاً خواتین کے لیے) واضح ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت بلوغت تک پہنچنے کے بعد اپنے رنگ اور ظاہری شخصیت کے حوالے سے زیادہ حساس نظر آتی ہیں۔
اپنی جسمانی فٹنس اور رنگت کے لیے فکر مند بچیاں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے بہ جائے ظاہری شکل و صورت اور رنگت کے لیے محنت کرتی ہیں اور جو لڑکیاں 'گورے رنگ'، فیشن اور ظاہری خوب صورتی کو برقرار نہیں رکھ پاتی یا اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں تو وہ احساس کمتری اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔
جب کہ اگر غیر جانب دارانہ طور پر جائزہ لیا جائے، تو یہ صرف خود اعتمادی کا بھی مسئلہ نہیں بلکہ 'اچھے اور پرفیکٹ' رشتے کا حصول بھی لڑکیوں میں گورے رنگ کی خواہش کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور پھر مسلسل فیرنئیس کریم، بلیچ اور ادویات کا استعمال منفی اثرات کا باعث بنتا ہے!
لڑکیوں اور کم عمر بچیوں میں یہ آگہی بھی نہیں ہوتی کہ اسٹرائڈز، فئیرنئیس کریم، بلیچ اور مختلف ادویات میں کیمیائی مادہ 'مرکری' کی موجودگی ان کی صحت اور جلد کے لیے مضر اثرات کا نہ صرف باعث بنتی ہے، بلکہ 'مرکری' جِلد میں آسانی سے داخل ہو کر میلانین کی مقدار کو کم کر سکتا ہے، جو کہ جلد کو پتلا کرنے والی شعاعوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
اس سے جلد کا کینسر، پٹھوں کی کمزوری، آسٹیو پروسس (ہڈیوں کا بھربھرا پن) جیسے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور حاملہ خواتین میں یہ کیمیکل ماں اور بچے دونوں کے جینیاتی اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
رنگ گورا رنگ کرنے والی کریموں کے مضر اثرات اور نقصانات کے حوالے سے ماہرین کے مسلسل آگاہ کرنے کے باوجود رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات لڑکیوں کو گوری رنگت کی جستجو کے لیے متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ساتھ ہی خواتین ماڈل، مارکیٹرز اور ایکٹرز بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں اور فارمولاز والے برانڈز کی پبلسٹی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ زیادہ تر اشتہاری مہم اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ خواتین کو یہ یقین دلایا جائے کہ خوشی، کام یابی اور حقیقی محبت کے حصول کا تعلق خوب صورت جلد کے ساتھ ہے۔
تاریخی اعتبار سے پاکستان سمیت زیادہ تر معاشروں میں خواتین کی خوب صورتی کے لیے گورے رنگ ہی کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے پیچھے اشتہارات، احساس کمتری اور سماجی دباؤ جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ کچھ لڑکیاں اور خواتین اپنی سانولی رنگت کے احساس کمتری پر قابو پانے میں کام یاب ہو بھی جاتی ہیں اور اس کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتیں، لیکن زیادہ تر خواتین اس ہی احساس محرومی کا شکار نظر آتی ہیں کہ گورے رنگ کی لڑکیوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
جب کہ آج ہم اس دور میں زندہ ہیں جہاں لڑکیوں اور خواتین کی اصل کام یابی اور ترقی ان کی خودمختاری، ہنر اور صلاحیتیں ہیں۔ پاکستان سمیت تمام معاشروں میں ایسی مہم چلانے کی ضرورت ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ حضرات میں بھی 'گورے رنگ' کے لیے دیوانگی اور خواہش کی حوصلہ شکنی کرے۔ اس قسم کے خیالات اور تصورات کی مخالفت کی جائے، جو قابلیت اور ہنر کے بہ جائے رنگ، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پیدا کرتے ہیں۔
یہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ جانتے بوجھتے کہ انسان کی رنگت کا اختیار انسان کے اپنے بَس میں نہیں، صرف 'گورے رنگ' ہی کو خوب صورتی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور معاشرے میں مسترد ہونے کا یہ ہی خوف خواتین کو ایسے کیمیکل، دوائیوں اور ٹریٹمنٹس کی جانب مائل کرتا ہے، جو کہ نہ صرف ان کی جلد بلکہ صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہماری خواتین اور بچیوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گوری رنگت، ظاہری شکل و صورت اور خوب صورتی کے پیچھے بھاگنے کے بہ جائے اپنی جذباتی اور مالی خودمختاری کو اپنی کام یابی کی ضمانت سمجھیں!
کیا آپ کے خیال میں خواتین کا گورا رنگ ان کی خو ب صو رتی کی ضمانت ہوتا ہے؟ پاکستان سمیت تقریباً تمام ایشیائی ممالک ایسے ہیں جہاں سانولی رنگت والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس خطے کی خواتین احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں کیونکہ کسی عورت یا لڑکی میں موجود تمام ترخوبیوں کے باوجود 'ڈارک اسکن' اس کی تمام تر اچھائیوں پر غالب آسکتی ہے۔
سادہ الفاظ میں اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے یہاں 'سانولی رنگت' کسی بھی لڑکی کے لیے ایک 'ناپسندیدہ' سمجھی جاتی ہے۔
اس سانولی رنگت کی 'ناپسندیدگی' کا شکار بچیوں اور خواتین میں رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور بلیچنگ وغیرہ جیسی مصنوعات کا کثرت سے استعمال کا رجحان جِلد سے جڑے ہوئے بہت سے امراض کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف ڈرماٹولوجسٹ کے چکر، رنگ گورا کرنے کے لیے غیر معیاری ادویات اور غیر پیشہ ورانہ بیوٹی سلونز میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹس کا استعمال مخلتف ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی دباؤ اور بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ حیرت اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ خطہ، ملک یا معاشرہ، جہاں عوام کے پاس صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ادویات کی دست یابی مشکل کام ہے وہاں خواتین اور لڑکیاں رنگ گورا کرنے والی مہنگی کریمیں اور ٹریٹمنٹس کرانے کے لیے نہ جانے کون کون سے جتن کرتی ہوں گی!
اور تو اور خواتین میں رنگ گورا کرنے کے جنون کی رہی سہی کَسر ہمارے ذرایع اِبلاغ پر چلنے والے اشتہارات پوری کر دیتے ہیں، جو کہ بچیوں اور خواتین میں رنگت کے حوالے سے ایک طرف احساس محرومی بڑھاتے ہیں، تو دوسری طرف زندگی کا مقصد اور کام یابی کا ضامن صرف گورے رنگ کو بتاتے ہیں۔
رنگ گورا کرنے کی دیوانگی کے پیچھے ایک اور بڑا عنصر وہ معاشرتی دباؤ ہے، جہاں لڑکی کی خوب صورتی، اچھائیاں اور کام یابیاں گورے رنگ کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ وہ تمام آنٹیاں جن کے خود کے بچے یہاں تک کہ وہ خود بھی سانولی ہوں گی، لیکن کسی ہلکی رنگت والی لڑکی کو دیکھتے ہیں۔
ان کو سانولے رنگ کے تمام تر نقصانات اور رنگ گورا کرنے کے لیے ٹوٹکے ایسے وارد ہوں گے جو کبھی ہمارے اور آپ کے جیسے ذہنوں نے سوچے ہوں گے نہ سمجھے ہوں گے اور اس ساری گورے رنگ اور سانولے رنگ کی کش مکش کا شکار لڑکی اپنی حقیقی خوبیاں، گْن اور خوب صورتی بھول کر رنگت کے مسائل میں الجھ جاتی ہے۔
ویسے تو برصغیر میں نسل پرستی، امتیازی سلوک کی جڑیں بھی گہری اور تاریخی ہیں، جو کہ ذات پات اور استعمار سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن آپ کو اچھی اچھی پرکشش شخصیت اور خصوصیات کی مالک قابل خواتین اور بچیاں 'گورے رنگ' کے خبط میں مبتلا نظر آئیں گی، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں پھیلی دولت کی نمائش، بڑھتی ہوئے طبقاتی تفریق سمیت اور بہت سے منافقتوں کی طرح 'گورے' اور 'سانولے' رنگ کی تفریق (خصوصاً خواتین کے لیے) واضح ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت بلوغت تک پہنچنے کے بعد اپنے رنگ اور ظاہری شخصیت کے حوالے سے زیادہ حساس نظر آتی ہیں۔
اپنی جسمانی فٹنس اور رنگت کے لیے فکر مند بچیاں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے بہ جائے ظاہری شکل و صورت اور رنگت کے لیے محنت کرتی ہیں اور جو لڑکیاں 'گورے رنگ'، فیشن اور ظاہری خوب صورتی کو برقرار نہیں رکھ پاتی یا اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں تو وہ احساس کمتری اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔
جب کہ اگر غیر جانب دارانہ طور پر جائزہ لیا جائے، تو یہ صرف خود اعتمادی کا بھی مسئلہ نہیں بلکہ 'اچھے اور پرفیکٹ' رشتے کا حصول بھی لڑکیوں میں گورے رنگ کی خواہش کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور پھر مسلسل فیرنئیس کریم، بلیچ اور ادویات کا استعمال منفی اثرات کا باعث بنتا ہے!
لڑکیوں اور کم عمر بچیوں میں یہ آگہی بھی نہیں ہوتی کہ اسٹرائڈز، فئیرنئیس کریم، بلیچ اور مختلف ادویات میں کیمیائی مادہ 'مرکری' کی موجودگی ان کی صحت اور جلد کے لیے مضر اثرات کا نہ صرف باعث بنتی ہے، بلکہ 'مرکری' جِلد میں آسانی سے داخل ہو کر میلانین کی مقدار کو کم کر سکتا ہے، جو کہ جلد کو پتلا کرنے والی شعاعوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
اس سے جلد کا کینسر، پٹھوں کی کمزوری، آسٹیو پروسس (ہڈیوں کا بھربھرا پن) جیسے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور حاملہ خواتین میں یہ کیمیکل ماں اور بچے دونوں کے جینیاتی اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
رنگ گورا رنگ کرنے والی کریموں کے مضر اثرات اور نقصانات کے حوالے سے ماہرین کے مسلسل آگاہ کرنے کے باوجود رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات لڑکیوں کو گوری رنگت کی جستجو کے لیے متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ساتھ ہی خواتین ماڈل، مارکیٹرز اور ایکٹرز بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں اور فارمولاز والے برانڈز کی پبلسٹی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ زیادہ تر اشتہاری مہم اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ خواتین کو یہ یقین دلایا جائے کہ خوشی، کام یابی اور حقیقی محبت کے حصول کا تعلق خوب صورت جلد کے ساتھ ہے۔
تاریخی اعتبار سے پاکستان سمیت زیادہ تر معاشروں میں خواتین کی خوب صورتی کے لیے گورے رنگ ہی کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے پیچھے اشتہارات، احساس کمتری اور سماجی دباؤ جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ کچھ لڑکیاں اور خواتین اپنی سانولی رنگت کے احساس کمتری پر قابو پانے میں کام یاب ہو بھی جاتی ہیں اور اس کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتیں، لیکن زیادہ تر خواتین اس ہی احساس محرومی کا شکار نظر آتی ہیں کہ گورے رنگ کی لڑکیوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
جب کہ آج ہم اس دور میں زندہ ہیں جہاں لڑکیوں اور خواتین کی اصل کام یابی اور ترقی ان کی خودمختاری، ہنر اور صلاحیتیں ہیں۔ پاکستان سمیت تمام معاشروں میں ایسی مہم چلانے کی ضرورت ہے، جو نہ صرف خواتین بلکہ حضرات میں بھی 'گورے رنگ' کے لیے دیوانگی اور خواہش کی حوصلہ شکنی کرے۔ اس قسم کے خیالات اور تصورات کی مخالفت کی جائے، جو قابلیت اور ہنر کے بہ جائے رنگ، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پیدا کرتے ہیں۔
یہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ جانتے بوجھتے کہ انسان کی رنگت کا اختیار انسان کے اپنے بَس میں نہیں، صرف 'گورے رنگ' ہی کو خوب صورتی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور معاشرے میں مسترد ہونے کا یہ ہی خوف خواتین کو ایسے کیمیکل، دوائیوں اور ٹریٹمنٹس کی جانب مائل کرتا ہے، جو کہ نہ صرف ان کی جلد بلکہ صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہماری خواتین اور بچیوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گوری رنگت، ظاہری شکل و صورت اور خوب صورتی کے پیچھے بھاگنے کے بہ جائے اپنی جذباتی اور مالی خودمختاری کو اپنی کام یابی کی ضمانت سمجھیں!