’’تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے‘‘

جسمانی خدوخال پر نکتہ چینی اور ذاتی امور میں مداخلت آپ کی شخصیت کو منفی بنا دیتی ہے

جسمانی خدوخال پر نکتہ چینی اور ذاتی امور میں مداخلت آپ کی شخصیت کو منفی بنا دیتی ہے ۔ فوٹو : فائل

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا، لیکن یہ بات زیادہ تر خواتین کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ خواتین کسی حال میں خوش نہیں رہتیں، مگر وہی بات ہے ناں کہ ''بد سے بدنام برا'' خوش تو مرد حضرات بھی نہیں رہتے، مگر جس طرح یہ بات گردش کرتی ہے کہ عورتیں بہت زیادہ بولتی ہیں۔

ویسے ہی عورتوں کے ناخوش رہنے والی بات بھی بہت زیادہ سننے میں آتی ہے، لیکن ہمارا موضوع یہ نہیں ہے کہ مرد کیسے ہیں یا عورتیں کیسی۔۔۔! ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ انسان جس میں مرد و زن دونوں شامل ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا فرد ان کی مرضی کے مطابق نظر آئے اور اس سلسلے میں وہ کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتے، بس ہم نے کوئی بات کہہ دی تو کہہ دی۔

کہیں کوئی دبلی پتلی لڑکی یا لڑکا نظر آ جائے، تو اس بے چارے/ بے چاری کو ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔

'' ارے بھئی اتنے دبلے/ دبلی کیوں ہو ؟'' ''کچھ کھاتے پیتے/ کھاتی پیتی نہیں ؟''

'' تمھارے لیے تو وہی مثال ہے کہ کھائے بکری کی طرح ، سوکھے لکڑی کی طرح۔''

تیز ہوائیں چلیں تو ہاتھ میں کچھ پکڑا دیا جاتا ہے کہ یہ پکڑ لو ورنہ تو اڑ ہی جاؤ گے اور اگر دوسری طرف کوئی موٹا یا موٹی نظر آ جائے تو اس کے حال پر شدید افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جیسے ان کے باورچی خانے سے کھا رہے ہیں۔

''کیا ہوا ؟ کیا شوگر ہے۔۔۔؟''

''کیا پورے گھر کا اناج تم ہی کھا لیتے/ لیتی ہو۔'' ( چاہے مُٹاپے کو کنٹرول کرنے کے لیے فاقہ ہی چل رہا ہو۔)

''کسی قحط زدہ علاقے میں چلے گئے تو ماریں گے لوگ پکڑ کے'' (اللّہ نہ کرے جو کبھی ایسی جگہ جانا پڑے)

''ارے کچھ ڈائٹنگ وغیرہ کیا کرو، ورنہ شادی بھی نہیں ہوگی!'' (ہم نے تو کتنے ہی موٹے مرد و زن کی شادی ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔)

''کچھ کام وام بھی کرلیا کرو، نہار منہ چہل قدمی کیا کرو ، اتنا وزن بڑھنا اچھی بات نہیں ہے۔'' (جیسے بہت ہی شوق ہے ہم کو تو خود سے وزن بڑھانے کا۔)

لیجیے جناب اب قد ہی کو دیکھیے کہ جیسے اس کے لمبے اور چھوٹے ہونے میں بھی جیسے ہمارا اپنا عمل دخل ہوتا ہو۔

''ارے تم اتنے لمبے کیوں ہو۔۔۔؟ بالکل کھمبے لگتے ہو۔ لڑکی/ لڑکا کیسے ملے گا اتنا لمبا۔ '' جیسے ان کے ہی تو ذمہ ہے سب کے رشتے کروانا۔

'' تمھارا قد اتنا چھوٹا کیوں ہے۔۔۔؟ کہتے ہیں بہت چالاک ہوتے ہیں ٹھگنے قد والے۔''

اگر کسی کی نظر کمزور ہے، تو ظاہر ہے کہ چشمہ تو لگانا ہی پڑے گا۔ مگر صاحب اس پر بھی اعتراض ہے۔''


کبھی چشمو، کبھی چشماٹو کہہ کر ٹوکا جاتا ہے۔

''تم چشمہ کیوں لگاتی ہو؟ لیزر کیوں نہیں کروا لیتیں؟ لینس بھی اچھے لگیں گے تم پر۔۔''

'' چشملی لگتی ہو۔ یہ چشمہ اچھا نہیں لگ رہا۔''

کچھ لوگوں کے اعتراضات دوسروں کے پہننے اوڑھنے پر بھی ہوتے ہیں۔

'' اتنے بھاری کپڑے کیوں پہنے ہیں؟ بالکل نہیں جچ رہے۔'' (ارے، آپ سے کسی نے پوچھا ہے)

''نئی نئی شادی ہوئی ہے ، کم از کم کوئی بھاری، کام دار جوڑا ہی پہن لیتیں، لوگ کیا کہیں گے، پتا ہی نہیں چل رہا، بیاہی بیٹی ہے کہ بن بیاہی۔۔۔!''

'' اپنی عمر دیکھو اور اپنا لباس دیکھو ، بالکل سوٹ نہیں کر رہا۔''

کہیں آنا جانا ہو تو بھی ہم لوگوں سے پوچھ کر ہی جائیں۔

''ہر وقت ہی شاپنگ پر گئی ہوئی ہوتی ہے۔''

''ہر شادی میں نظر آ جاتی ہیں۔'' (بہت معذرت کے ساتھ! جس جس شادی میں وہ آپ کو دکھائی دیں، تو آپ بھی تو ہر اس شادی کی تقریب میں موجود تھیں) مگر وہ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ 'مارتے کا ہاتھ روک سکتے ہیں بولتے کی زبان نہیں۔'

انسان کی رنگت تو اللّہ تعالیٰ نے بنائی ہے مگر

''یہ رنگت کیسی سانولی ہے تمھاری، کچھ لگایا کرو چہرے پر، تاکہ رنگ کچھ تو صاف ہو۔ (اللّہ تعالیٰ کو میرے لیے یہ ہی رنگ پسند ہے، تو آپ کو کیا اعتراض!!)

'' اف رنگ تو دیکھو ، ایسا لگتا ہے کہ آٹے کی بوری سے نکلی ہے۔'' (اللّہ کی شان ہے)

یہ تو کچھ اعتراضیہ جملے ہیں، جو لوگ اپنا حق سمجھتے ہوئے دوسروں کو کہتے ہیں۔ خود کیا کر رہے ہوتے ہیں یہ ان کو معلوم نہیں ہوتا اور اگر کوئی غلطی سے ان کو کچھ کہہ دے تو ایک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔

اس پر مزید اتنا کچھ سننے کو مل جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ اس لیے بہتری اسی میں نظر آتی ہے کہ چپ چاپ ان کی نکتہ چینی سن لی جائے کہ کہ جیسے کہنا ان کا حق اور سننا ہمارا فرض ہے۔ ان کے عتاب کا شکار ہونے والے یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے!
Load Next Story