بھارت کی سفارتی تنہائی
جی ٹوئنٹی کے نام پر کشمیری عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے
مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف مکمل پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے، سری نگر کی سڑکیں اور گلیاں بھارتی فوج کے قبضے میں ہیں، سری نگر ایئرپورٹ کے اطراف محاصرہ جاری ہے، جی ٹوئنٹی کے نام پر کشمیری عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے، جب کہ پاکستان کے علاوہ ، چین، ترکیہ، سعودی عرب اور مصر نے اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
درحقیقت سری نگر میں عالمی نوعیت کا اجلاس بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ بھارت ہمیشہ عالمی برادری کو گمراہ اور مسئلہ کشمیر پر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔
بد قسمتی سے عالمی برادری بھارت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مفادات کی وجہ سے تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور بھارت کو متنازعہ علاقے میں جارحیت بند کرنے پر مجبور کرانے سے گریزاں ہے۔
رواں سال ستمبر میں بھارت میں جی 20 کا اجلاس ہوگا۔ یہ 20 رکنی اتحاد عالمی معیشت کو درپیش اہم مسائل حل کرنے کے لیے 1999 میں بنایا گیا تھا۔ نئی دہلی میں اگلے سربراہ اجلاس سے پہلے سیاحت پر بھی ایک میٹنگ ہونی ہے، جس کے لیے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کو چنا۔ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے مقبوضہ وادی میں سب کچھ '' نارمل'' ہے اور اس ایونٹ سے بھارت یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ ہے اور دنیا اس بات کو مانتی ہے۔
چند روز قبل اقلیتوں کے مسائل پر اقوامِ متحدہ کے نمایندے فرننڈ ڈی ورینس نے بھی بیان دے دیا کہ یہ میٹنگ کشمیریوں کے انسانی اور جمہوری حقوق دبانے کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ بھارت یہ سب کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوری و دیگر حقوق چھیننے کی حرکتوں کو '' نارملائز '' کر رہا ہے۔
بہرحال، سری نگر میں سیاحت کے حوالے سے جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کا آغاز ہوچکا ہے جب کہ تعلیمی ادارے 9 دن کے لیے بند ہیں، کشمیری سیاست دانوں پر کڑی نظر ہے اور ریاست کے باہر سے آنے والے لوگوں کو ہوشیار رہنے کو کہا گیا ہے۔ خیر، بھارت سمجھ رہا تھا وہ ایک انٹرنیشنل ایونٹ کروائے گا اور دنیا سے حقیقت چھپا لے گا، لیکن اُس کی حرکت سے مسئلہ کشمیر اور کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
بھارت کے لیے بڑا دھچکا یہ ہے کہ چین نے اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے جب کہ مصر نے بطور مہمان اجلاس میں آنے کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔ جی ٹوئنٹی اجلاس کے خلاف دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
احتجاج کرنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے، مقبوضہ وادی میں گرفتاریاں، خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے، دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ بھارت غلط فہمی میں نہ رہے کشمیریوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی، جی ٹوئنٹی اجلاس جیسے اقدامات سے بھارت کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے، بھارت عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو انتہاپسند بھارتی حکومت کی طرف سے سرینگر میں جی۔20 اجلاس کے انعقاد کا مقصد عالمی برادری کو کشمیر کی زمینی صورتحال کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔
بھارتی حکومت اپنے تزویراتی اہداف کے حصول کے لیے جھوٹ کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2019 میں غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد سے وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے عالمی برادری کو بے وقوف بنانے کے لیے بے شرمی سے جھوٹ بول رہا ہے۔
سری نگر میں جی20 اجلاس کے انعقاد نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں کو تشویش اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی۔ ٹونٹی اجلاس کے انعقاد کے پیچھے مودی حکومت کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر کی ابتر صورت حال سے ہٹانا اور ان جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔
جن کا ارتکاب اس کی فورسز کشمیریوں کے خلاف کر رہی ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے G-20 ملکوں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورتحال کا ایک مکمل جائزہ لیں اور مقبوضہ علاقے میں اجلاسوں کے پیچھے کار فرما بھارتی حکومت کے مذموم عزائم کا ادراک کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کا واحد مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ خطے میں حالات معمول پر ہیں لیکن مودی حکومت جھوٹ اور فریب کی سیاست کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ نہیں کر سکتی۔
جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا واحد راستہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت دینا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی 2018، 2019 کی رپورٹس واضح ہیں۔
ہندوستان مقبوضہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ بھارت اقوام متحدہ سلامتی کونسل قراردادوں، بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ ہندوستان چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انھیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنایا تھا جسے متنازع ریاست کو ملک میں ضم کرنے کی طرف ایک بڑا اور اہم قدم خیال کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت سری نگر میں جی20کی تقریب منعقد کر کے دنیا پر یہ باور کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یہ اقدام کامیاب رہا ہے اور علاقے میں اب امن ہے۔
درحقیقت قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں۔ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہزاروں کشمیریوں سمیت مقبوضہ وادی کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔
وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ کی طرف سے کشمیری رہنماؤں پر کالے قوانین لاگو کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ مفتی محبوبہ ، عمر عبد اللہ کے بعد اب ڈیڑھ درجن سے زائد اور کشمیری رہنماؤں پر بھی پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے۔
بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیرت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں اضافہ ہوتا چلا گیا، کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما لیا مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔
پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔
موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بھارت سمجھ رہا تھا دنیا کشمیر کو بھول چکی۔ اگست 2019 میں اُس نے جو کچھ کیا، جس طرح ریاست پر عملاً قبضہ کیا، دنیا کو اس کی پروا نہیں اور پاکستان کی اہمیت کیا ہے؟ دنیا مسئلہ کشمیر پر اس کے چیخنے چلانے کو اہمیت نہیں دے گی، لیکن یہاں پہلا عالمی ایونٹ کرواتے ہی اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اتنی آسانی سے کشمیر کو نگل نہیں سکتا۔
درحقیقت سری نگر میں عالمی نوعیت کا اجلاس بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ بھارت ہمیشہ عالمی برادری کو گمراہ اور مسئلہ کشمیر پر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔
بد قسمتی سے عالمی برادری بھارت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مفادات کی وجہ سے تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور بھارت کو متنازعہ علاقے میں جارحیت بند کرنے پر مجبور کرانے سے گریزاں ہے۔
رواں سال ستمبر میں بھارت میں جی 20 کا اجلاس ہوگا۔ یہ 20 رکنی اتحاد عالمی معیشت کو درپیش اہم مسائل حل کرنے کے لیے 1999 میں بنایا گیا تھا۔ نئی دہلی میں اگلے سربراہ اجلاس سے پہلے سیاحت پر بھی ایک میٹنگ ہونی ہے، جس کے لیے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کو چنا۔ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے مقبوضہ وادی میں سب کچھ '' نارمل'' ہے اور اس ایونٹ سے بھارت یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ ہے اور دنیا اس بات کو مانتی ہے۔
چند روز قبل اقلیتوں کے مسائل پر اقوامِ متحدہ کے نمایندے فرننڈ ڈی ورینس نے بھی بیان دے دیا کہ یہ میٹنگ کشمیریوں کے انسانی اور جمہوری حقوق دبانے کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ بھارت یہ سب کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوری و دیگر حقوق چھیننے کی حرکتوں کو '' نارملائز '' کر رہا ہے۔
بہرحال، سری نگر میں سیاحت کے حوالے سے جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کا آغاز ہوچکا ہے جب کہ تعلیمی ادارے 9 دن کے لیے بند ہیں، کشمیری سیاست دانوں پر کڑی نظر ہے اور ریاست کے باہر سے آنے والے لوگوں کو ہوشیار رہنے کو کہا گیا ہے۔ خیر، بھارت سمجھ رہا تھا وہ ایک انٹرنیشنل ایونٹ کروائے گا اور دنیا سے حقیقت چھپا لے گا، لیکن اُس کی حرکت سے مسئلہ کشمیر اور کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
بھارت کے لیے بڑا دھچکا یہ ہے کہ چین نے اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے جب کہ مصر نے بطور مہمان اجلاس میں آنے کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔ جی ٹوئنٹی اجلاس کے خلاف دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
احتجاج کرنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے، مقبوضہ وادی میں گرفتاریاں، خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے، دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ بھارت غلط فہمی میں نہ رہے کشمیریوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی، جی ٹوئنٹی اجلاس جیسے اقدامات سے بھارت کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے، بھارت عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو انتہاپسند بھارتی حکومت کی طرف سے سرینگر میں جی۔20 اجلاس کے انعقاد کا مقصد عالمی برادری کو کشمیر کی زمینی صورتحال کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔
بھارتی حکومت اپنے تزویراتی اہداف کے حصول کے لیے جھوٹ کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2019 میں غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد سے وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے عالمی برادری کو بے وقوف بنانے کے لیے بے شرمی سے جھوٹ بول رہا ہے۔
سری نگر میں جی20 اجلاس کے انعقاد نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے کشمیریوں کو تشویش اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جی۔ ٹونٹی اجلاس کے انعقاد کے پیچھے مودی حکومت کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر کی ابتر صورت حال سے ہٹانا اور ان جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔
جن کا ارتکاب اس کی فورسز کشمیریوں کے خلاف کر رہی ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے G-20 ملکوں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورتحال کا ایک مکمل جائزہ لیں اور مقبوضہ علاقے میں اجلاسوں کے پیچھے کار فرما بھارتی حکومت کے مذموم عزائم کا ادراک کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد کا واحد مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ خطے میں حالات معمول پر ہیں لیکن مودی حکومت جھوٹ اور فریب کی سیاست کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ نہیں کر سکتی۔
جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا واحد راستہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت دینا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی 2018، 2019 کی رپورٹس واضح ہیں۔
ہندوستان مقبوضہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ بھارت اقوام متحدہ سلامتی کونسل قراردادوں، بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ ہندوستان چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انھیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنایا تھا جسے متنازع ریاست کو ملک میں ضم کرنے کی طرف ایک بڑا اور اہم قدم خیال کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت سری نگر میں جی20کی تقریب منعقد کر کے دنیا پر یہ باور کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یہ اقدام کامیاب رہا ہے اور علاقے میں اب امن ہے۔
درحقیقت قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں۔ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہزاروں کشمیریوں سمیت مقبوضہ وادی کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔
وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ کی طرف سے کشمیری رہنماؤں پر کالے قوانین لاگو کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ مفتی محبوبہ ، عمر عبد اللہ کے بعد اب ڈیڑھ درجن سے زائد اور کشمیری رہنماؤں پر بھی پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے۔
بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیرت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں اضافہ ہوتا چلا گیا، کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما لیا مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔
پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔
موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بھارت سمجھ رہا تھا دنیا کشمیر کو بھول چکی۔ اگست 2019 میں اُس نے جو کچھ کیا، جس طرح ریاست پر عملاً قبضہ کیا، دنیا کو اس کی پروا نہیں اور پاکستان کی اہمیت کیا ہے؟ دنیا مسئلہ کشمیر پر اس کے چیخنے چلانے کو اہمیت نہیں دے گی، لیکن یہاں پہلا عالمی ایونٹ کرواتے ہی اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اتنی آسانی سے کشمیر کو نگل نہیں سکتا۔