چھوٹی سی بات

پاکستان کے دشمنوں نے اِس کے قیام میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی

S_afarooqi@yahoo.com

وطن عزیز پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا کسی کرشمہ یا معجزہ سے کم نہیں۔ یہ وطن قائد اعظم محمد علی جناح کی بے مثل فراست اور برصغیر کے مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں کا ثمر ہے جنھوں نے اِس کے قیام کے لیے اپنے گھر اُجاڑ دیے اور عورتوں کی عصمتیں لُٹا دیں۔

پاکستان کے دشمنوں نے اِس کے قیام میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ ملک زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہے گا کیونکہ حالات سازگار نہیں اور اِس کے لوگوں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ اِس کا انتظام سنبھال سکیں کیونکہ اِس کے پاس وہ صلاحیت نہیں جس کے لیے نظم و نسق سنبھالا جاسکے لیکن ہوا اِس کے برعکس۔ قیامِ پاکستان کے وقت حالات یہ تھے کہ نہ تو دفاترکے لیے پینسل اور قلم اور نہ کاغذ اور پیپر پِن میسر تھے لیکن سب سے بڑی چیز جذبہ تھا۔ پیپر پِن کا کام کانٹوں سے لیا گیا اورکاغذ، پین اور پینسل دفاترکے لوگوں نے اپنی جیب سے خریدے۔

سرحد پار سے آنے والوں نے بینکوں، ریلوے، جہاز رانی اور ہوائی جہازوں کا نظام سنبھال لیا۔ راجہ صاحب محمود آباد اور نظام حیدرآباد نے دل کھول کر مالی امداد فراہم کی اور یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک نے تیزی سے ترقی کی راہ پر سفر کرنا شروع کردیا اور اقوامِ عالم میں اپنی جگہ بنا لی۔

پاکستان کے صنعت کار اور تاجر برادری نے تَن مَن دھن سے کوششیں کر کے اِس ملک کو ایک بلند مقام تک پہنچا دیا جب کہ اِس کے محنت کشوں اورکسانوں نے دن رات ایک کر کے اِس کی کایا پلٹ دی۔افواجِ پاکستان نے ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ ملک دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔

پاکستان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے ڈاکٹر محبوب الحق جیسا ماہرِ معاشیات میسر آیا جس نے پلاننگ کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے منصوبے بنائے جنھوں نے ملک کی کایا پلٹ دی۔ ملک نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہوگیا بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا اور ترقی پذیر ممالک کی صفوں میں سر بلند ہوگیا۔


اِس دور میں پاکستان کی ترقی کی شرح نمود سب سے بلند تھی اگر ڈاکٹر صاحب اپنے منصب پر قائم رہتے تو وطنِ عزیز معاشی طور پر انتہائی مضبوط اور مستحکم ہوتا۔ یہ ڈاکٹر محبوب الحق ہی تھے جنھوں نے پرائس انڈیکسیشن کا نظام متعارف کروایا جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی بیشی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کے ساتھ منسلک ہوگئی۔

آج سرکاری ملازمین کی تنخواہیں سرکار کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کا بُرا حال ہے۔ ایک طرف قیمتیں بے تحاشہ بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف اُن کی تنخواہیں بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ملازمین میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ افراطِ زر میں مسلسل اضافہ نے ملازمین کی کمر توڑ دی ہے اور بے بسی نے اُن کا جینا حرام کردیا ہے، وہ حسرت سے کہتے ہیں کہ کاش ! ڈاکٹر محبوب الحق زندہ ہوتے۔

سیاسی کشمکش اور مسلسل رسہ کَشی نے عدم استحکام کو حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے جس کے نتیجہ میں ملک معاشی دلدل میں دھنس گیا ہے۔ ملک کے مفاد سے کسی کو بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ہر سیاسی رہنما اور جماعت کو صرف اپنی غرض ہے۔ ملک و قوم کا حال اور مستقبل تاریک ہے اور سیاستدانوں اور اُن سرمایہ داروں کے علاوہ کوئی آسودہ حال اور مطمئن نہیں جنھوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے بھوکے کیوں ہیں اور اُن کی ہوسِ اقتدار آخرکب ختم ہوگی؟ عام سی بات یہ ہے کہ ریاست ہے تو سیاست ہے، اگر خدانخواستہ ریاست باقی نہ رہے تو سیاست کہاں جائے گی؟ 1971 کے سانحہ نے ملک کے دو ٹکڑے کردیے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اِس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اُن کے سَروں پر اقتدار کا نشہ ابھی تک سوار ہے۔

اہم ترین اور مقتدر ادارے فکرمند ہیں کہ اِس گُتھی کو کس طرح سلجھایا جائے اور وطنِ عزیزکو اِس بحران سے کیونکر نکالا جائے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے صورتحال سنجیدہ سے سنجیدہ اور گمبھیر سے گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ملک کا وقار اور امیج بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنی توانائیاں ایک دوسرے کی مخالفت میں ضایع کرنے کے بجائے ملک کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کرنی چاہئیں۔

نہ معلوم یہ چھوٹی سی بات اُن کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی؟
Load Next Story