میئر کراچی پیپلز پارٹی کا لا کر آزما لیں
پی پی جماعت اسلامی کو ملا کر اپنا میئر منتخب کرا سکتی ہے
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ بلدیاتی سہولتیں عوام کی دہلیز تک پہنچانا ہمارا مشن ہے۔
موجودہ حالات نے پیپلز پارٹی کو اس سلسلے میں پیش قدمی اور کامیابی کا تاریخی موقعہ دیا ہے، اگر جیالوں نے اسی جذبے کے ساتھ عوام کے ساتھ مل کر محنت کی تو آیندہ بلدیاتی الیکشن میں مزید بھاری کامیابی یقینی ہے۔ انھوں نے ارکان اسمبلی کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی پیش کی۔ کراچی میں پیدا ہونے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ کراچی کا آیندہ کا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی 15 سالوں سے مسلسل حکومت ہے اور اس عرصے میں 2015میں سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جن میں پیپلز پارٹی نے کراچی کی ضلع کونسل اور دو ڈی ایم سیز میں اپنے چیئرمین منتخب کرائے تھے جب کہ کراچی کا میئر اور چار ڈی ایم سیز کے چیئرمین ایم کیو ایم کے تھے۔
کراچی میں بھی زیادہ تر بلدیاتی انتخابات فوجی حکومتوں میں ہوئے اور کراچی میں دو دو بار میئر اور ایک ایک بار سٹی ناظم جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے منتخب ہوئے تھے اور میئروں کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کے بااختیار سٹی حکومتوں کے بااختیار بلدیاتی نظام میں پہلے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور بعد میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال سٹی ناظم منتخب ہوئے تھے اور دونوں سٹی حکومتیں انتظامی اور مالی طور پر مکمل بااختیار تھیں اور دونوں ہی سٹی حکومتوں میں کراچی میں جو ترقی ہوئی۔
اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ سٹی حکومتوں کا نظام سب سے بہترین اور بااختیار تھا جس میں بیورو کریسی ناظمین کے ماتحت تھی اور کراچی کے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والے ادارے واٹر بورڈ، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، کے بی سی اے سٹی ناظم کے ماتحت تھے اور صفائی کی ذمے داری ٹاؤن کونسلوں اور یوسیز کے پاس تھیں۔ سٹی حکومت میں یوسیز بھی بااختیار تھیں جنھیں عوام کو تمام بلدیاتی سہولیات فراہم کرنے کا بھی اختیار تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے نظام میں سکھر، خیرپور اور نوابشاہ کے ضلعی ناظمین پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر حسین شاہ، نفیسہ شاہ اور فریال تالپور تھے جن کے دور میں تینوں اضلاع میں ترقیاتی کام ہوئے کیونکہ وہ بااختیار تھے مگر جب پیپلز پارٹی نے 2008 میں وفاق اور سندھ میں اپنی حکومتیں بنائیں اور جنرل پرویز کا بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق دور کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کیا تو پی پی کے تینوں رہنماؤں نے اس کی بحالی کی مخالفت نہیں کی اور خاموش رہے جو تینوں کا افسوس ناک کردار تھا کہ تینوں نے بااختیار نظام کے مزے اٹھائے اور سندھ میں بے اختیار بلدیاتی نظام مسلط کرایا۔
جنرل ضیا پر پی پی اپنے بانی کی پھانسی کا الزام بھی لگاتی ہے مگر پیپلز پارٹی میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ عوام کو بااختیار بلدیاتی نظام دے سکتی اس نے ایسا کرنے کے بجائے جنرل ضیا کا بے اختیار بلدیاتی نظام سندھ اسمبلی سے منظور کرایا جو 1979 کے بلدیاتی نظام سے بھی کمزور اور بے اختیار تھا۔
1979 کے جنرل ضیا دور میں پی پی کے چیئرمینوں نے جنرل ضیا اور گورنر سندھ ایس ایم عباس کی تقریبات تک کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی نشاندہی خود جنرل ضیا کے شکارپور کے دورے میں کی تھی جس پر راقم کے بتانے پر حیرانی ظاہر کی تھی اور گورنر سندھ سے پوچھا تھا جس پر گورنر نے راقم کی تائید کی تھی۔
1979 کے بلدیاتی نظام میں چیئرمین برائے نام بااختیار تھے اور مکمل طور پر محکمہ بلدیات اور کمشنری نظام کے محتاج تھے۔ موجودہ بلدیاتی نظام میں سہولتیں عوام کی دہلیز تک پہنچانا ممکن ہی نہیں ہے اور منتخب بلدیاتی نمایندے اپنے حلقوں میں وہ ترقیاتی کام کرا ہی نہیں سکتے جیسے ترقیاتی کام جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی نظام میں ممکن تھے۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے سکھر کے دورے میں ضلعی حکومتوں کی حمایت کی تھی اور ہر ضلع میں بلدیاتی نظام کے لیے ڈسٹرکٹ گورنروں کے تقرر کا بیان دیا تھا مگر انھوں نے بھی اپنے دو ادوار میں کبھی بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے بلکہ بلدیاتی اداروں کو منتخب نمایندوں کے بجائے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلوایا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھی مسلم لیگی رہنما مشاہد اللہ خان کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنایا تھا مگر جو ترقی سٹی حکومتوں میں ہوئی وہ شاندار ریکارڈ ہے۔ بلاول بھٹو کی طرح بے نظیر بھٹو کی پیدائش بھی کراچی کی تھی ان کے تینوں بچے کراچی میں پیدا ہوئے جن پر کراچی کا سب سے زیادہ حق ہے، اب موقعہ بلاول بھٹو کو ملا ہے کہ وہ کراچی میں پیدا ہونے پر کراچی سے محبت اور وفاداری کا حق ادا کریں۔
پیپلز پارٹی کی ازلی خواہش کراچی کے میئر کا حصول رہا ہے جس کے لیے پی پی نے بڑی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی تھی۔ پی پی نے کراچی میں سات ضلع، ٹاؤن کونسلیں اور یوسیز من مانے طور پر ہر حال میں کراچی میں اپنا میئر منتخب کرانے کے لیے بنوائے جس پر ایم کیو ایم کے شدید تحفظات ہیں۔
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سپریم کورٹ تک گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ مارچ کے بعد اب مئی میں ضمنی بلدیاتی الیکشن بھی ہوگئے جس میں پیپلز پارٹی کی سب سے زیادہ نشستیں تو ہیں مگر 124 ووٹ نہیں کہ میئر منتخب کرا سکے۔
جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اپنے 127 ووٹوں کو ملا کر اپنا میئر لا تو سکتی ہیں مگر ان کے میئر سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ان کا میئر بھی ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کی طرح فنڈز نہ ہونے اور بے اختیاری کا رونا روتا رہے گا، جس سے کراچی کے بلدیاتی مسائل ختم یا حل نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے اور سندھ حکومت دونوں کے میئر کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔
پی پی جماعت اسلامی کو ملا کر اپنا میئر منتخب کرا سکتی ہے اور جماعت اسلامی ڈپٹی میئر اور کچھ ٹاؤن چیئرمین منتخب کرا سکتی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلی بار پیپلز پارٹی کو کراچی کے لیے اپنا میئر لانے کا موقعہ دیا جائے۔ پی پی پی حکومت نے اندرون سندھ کی طرح کراچی کو ترقی اسی لیے نہیں دلائی جو کراچی کا حق تھا۔
بہتر ہوگا دونوں بڑی جماعتیں میئر کے لیے متفق ہو جائیں اور جماعت اسلامی پی پی کے میئر کے لیے کراچی کی ترقی کے لیے قربانی دے دے اور پی پی کو میئر دے کر آزمائے کہ وہ کراچی سے کتنی مخلص ہے شاید اس طرح کراچی کا کچھ بھلا ممکن ہو سکے۔