اوپن مارکیٹ میں ڈالر 308 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
انٹر بینک ریٹ 59 پیسے اضافے سے 287 روپے سے تجاوز
زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں منگل کو بھی ڈالر کی پرواز جاری رہی جس سے ڈالر کا انٹربینک ریٹ 287 روپے سے تجاوز کرگیا اور اوپن ریٹ بھی یکدم بڑھ کر 308 روپے کی بلند ترین سطح پر آگیا۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانئیے کے ابتدا میں ڈالر 20 پیسے گھٹ کر 286.35 روپے کی سطح پر بھی آگیا تھا لیکن کچھ ہی وقفے بعد ڈالر نے اڑان بھرنا شروع کی جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 59 پیسے کے اضافے سے 287.14 روپے کی سطح پربند ہوئے۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی رفتار تیز رہی جہاں ڈالر کے اوپن ریٹ یکدم 3 روپے کے اضافے سے 308 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جون 2023 تک پاکستان کو 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں کچھ قرضے رول اوور ہونے کی امید ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 27 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں کچھ قرضے رول اوور ہونے کے باوجود پاکستان کو تقریبا 5ارب ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا اس مالیاتی فرق کو ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا جو بظاہر معدوم نظر آرہا ہے۔
دوسری جانب اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر لمبی چھلانگوں کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے اوپن ریٹ کی اونچی اڑان کی اہم وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں نمایاں فرق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بینکس اپنے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیوں کے لیے یومیہ 10 ملین ڈالر اوپن کرنسی مارکیٹ سے حاصل کررہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں پہلے ہی سپلائی کا فقدان ہے کیونکہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اب بینکاری یا ایکس چینج کمپنیوں کےتوسط سے ترسیلات زر کی آمد کم ہوگئی ہے اور ملک میں جاری سیاسی ومعاشی بحران کے سبب ترسیلات ذر کا ایک بڑا حصہ حوالہ ہنڈی سسٹم کے ذریعے آرہی ہیں۔
ملک بوستان نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیوں کے توسط سے بھی جو ترسیلات زر پاکستان پہنچتی ہیں وہ 100 فیصد اسٹیٹ بینک کو سرینڈر کررہی ہیں۔ اسی طرح حج سیزن کی وجہ سے عازمین حج کی جانب سے بھی اوپن مارکیٹ پر ذرمبادلہ کے حصول کا دباؤ بڑھگیا ہے جو ڈالر کے اوپن ریٹ میں بلند اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانئیے کے ابتدا میں ڈالر 20 پیسے گھٹ کر 286.35 روپے کی سطح پر بھی آگیا تھا لیکن کچھ ہی وقفے بعد ڈالر نے اڑان بھرنا شروع کی جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کے انٹربینک ریٹ 59 پیسے کے اضافے سے 287.14 روپے کی سطح پربند ہوئے۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی رفتار تیز رہی جہاں ڈالر کے اوپن ریٹ یکدم 3 روپے کے اضافے سے 308 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جون 2023 تک پاکستان کو 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں کچھ قرضے رول اوور ہونے کی امید ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 27 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں کچھ قرضے رول اوور ہونے کے باوجود پاکستان کو تقریبا 5ارب ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا اس مالیاتی فرق کو ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا جو بظاہر معدوم نظر آرہا ہے۔
دوسری جانب اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر لمبی چھلانگوں کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے اوپن ریٹ کی اونچی اڑان کی اہم وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں نمایاں فرق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بینکس اپنے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیوں کے لیے یومیہ 10 ملین ڈالر اوپن کرنسی مارکیٹ سے حاصل کررہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں پہلے ہی سپلائی کا فقدان ہے کیونکہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اب بینکاری یا ایکس چینج کمپنیوں کےتوسط سے ترسیلات زر کی آمد کم ہوگئی ہے اور ملک میں جاری سیاسی ومعاشی بحران کے سبب ترسیلات ذر کا ایک بڑا حصہ حوالہ ہنڈی سسٹم کے ذریعے آرہی ہیں۔
ملک بوستان نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیوں کے توسط سے بھی جو ترسیلات زر پاکستان پہنچتی ہیں وہ 100 فیصد اسٹیٹ بینک کو سرینڈر کررہی ہیں۔ اسی طرح حج سیزن کی وجہ سے عازمین حج کی جانب سے بھی اوپن مارکیٹ پر ذرمبادلہ کے حصول کا دباؤ بڑھگیا ہے جو ڈالر کے اوپن ریٹ میں بلند اضافے کا باعث بن رہا ہے۔