انسانی جسم کا سب بڑا معمہ جو شاید کبھی حل نہ ہو
شعور کے مسئلے کو سب سے پہلے آسٹریلین فلسفی ڈیوڈ چامرز نے اجاگر کیا تھا اور اس کی پراسراریت پر زور دیا تھا
ہمارے دماغ میں 100 کھرب عصبی رابطے مل کر ہمارے اندر زندہ ہونے کا شعور کیسے اجاگر کرتے ہیں؟ بہت سے عظیم مفکرین اسے نہ صرف انسانی جسم کا سب سے بڑا راز سمجھتے ہیں بلکہ سائنس کا بھی سب سے بڑا معمہ گردانتے ہیں۔
شعور کا راز دراصل اس بنیادی سوال میں چھُپا ہے کہ محض دماغی افعال سے تجربات کیونکر اور کیسے جنم لیتے ہیں۔ اگرچہ سائنس نے دماغ کے کام کرنے اور مختلف ذہنی افعال سے اس کے تعلق کو سمجھنے میں پیشرفت حاصل کی ہے لیکن شعور بذات خود اب بھی سائنسدانوں کے نزدیک معمہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں hard problem of consciousness کہا جاتا ہے۔
شعور کے راز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی نجی اور ذاتی معاملہ ہے۔ ہر فرد کا شعوری تجربہ دوسرے سے منفرد ہوتا ہے جس کا براہ راست مشاہدہ یا اس کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ہم افراد کے طرز عمل، دماغی سرگرمی اور زبانی حرکات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں لیکن کتنے ہی جدید آلات لے آئیں، ان کے شعور تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
ایک اور پہلو جو شعور کی پراسراریت میں اضافہ کرتا ہے وہ ہے یکساں دماغی افعال مگر انفرادی تجربات کے درمیان تعلق۔ نیورو سائنسدان بعض دماغی عمل کے اعصابی ارتباط کی شناخت کر سکتے ہیں، جیسے بصری ادراک یا یادداشت کی تشکیل لیکن یہ عمل کس طرح نجی اور ذاتی شعوری تجربے کو جنم دیتے ہیں یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔
شعور کے مسئلے کو سب سے پہلے آسٹریلین فلسفی ڈیوڈ چامرز نے اجاگر کیا تھا اور اس کی پراسراریت پر زور دیا تھا۔ ڈیوڈ نے سوال اٹھایا تھا کہ ہر انسان میں ایک جیسی اعصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں منفرد تجربے اور شعور وجود میں آتے ہیں؟۔
شعور دہائیوں سے شدید سائنسی اور فلسفیانہ تحقیقات کا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سائنس کے اکثر شعبوں میں شعور کر لے کر اب تک تحقیقات کی جارہی ہیں جس کا واحد مقصد شعور کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔
شعور کا راز دراصل اس بنیادی سوال میں چھُپا ہے کہ محض دماغی افعال سے تجربات کیونکر اور کیسے جنم لیتے ہیں۔ اگرچہ سائنس نے دماغ کے کام کرنے اور مختلف ذہنی افعال سے اس کے تعلق کو سمجھنے میں پیشرفت حاصل کی ہے لیکن شعور بذات خود اب بھی سائنسدانوں کے نزدیک معمہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں hard problem of consciousness کہا جاتا ہے۔
شعور کے راز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی نجی اور ذاتی معاملہ ہے۔ ہر فرد کا شعوری تجربہ دوسرے سے منفرد ہوتا ہے جس کا براہ راست مشاہدہ یا اس کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ہم افراد کے طرز عمل، دماغی سرگرمی اور زبانی حرکات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں لیکن کتنے ہی جدید آلات لے آئیں، ان کے شعور تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
ایک اور پہلو جو شعور کی پراسراریت میں اضافہ کرتا ہے وہ ہے یکساں دماغی افعال مگر انفرادی تجربات کے درمیان تعلق۔ نیورو سائنسدان بعض دماغی عمل کے اعصابی ارتباط کی شناخت کر سکتے ہیں، جیسے بصری ادراک یا یادداشت کی تشکیل لیکن یہ عمل کس طرح نجی اور ذاتی شعوری تجربے کو جنم دیتے ہیں یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔
شعور کے مسئلے کو سب سے پہلے آسٹریلین فلسفی ڈیوڈ چامرز نے اجاگر کیا تھا اور اس کی پراسراریت پر زور دیا تھا۔ ڈیوڈ نے سوال اٹھایا تھا کہ ہر انسان میں ایک جیسی اعصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں منفرد تجربے اور شعور وجود میں آتے ہیں؟۔
شعور دہائیوں سے شدید سائنسی اور فلسفیانہ تحقیقات کا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سائنس کے اکثر شعبوں میں شعور کر لے کر اب تک تحقیقات کی جارہی ہیں جس کا واحد مقصد شعور کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔