گلوبل فنڈ کی 18 ڈبل کیبن گاڑیاں بلوچستان سے غائب ہونے کا انکشاف
وہ ایک خاص مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں اور وہ سب جانتے ہیں، سینیٹ کی قائم کمیٹی میں بیان
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت میں انکشاف ہوا ہے کہ گلوبل فنڈ کی 18 ڈبل کیبن (ویگو) گاڑیاں بلوچستان سے غائب ہیں، جس کی ایف آئی آر بھی درج کروائی جاچکی ہے، ایک رکن نے کہا کہ وہ خاص مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں اور وہ سب جانتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس چیئرمین ہمایوں مہمند کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ کمیٹی نے گلوبل فنڈ کے سربراہ مصطفی جمال قاضی کو مینجمنٹ یونٹ کے سربراہ بنائے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے چئیرمین قائمہ کمیٹی نے جوائنٹ سیکریٹری سے وضاحت طلب کر لی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ سندھ سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں اور اس وقت گلوبل فنڈ کے سربراہ ہیں۔ عالمی امدادی ادارے گلوبل فنڈ کی جانب سے پاکستان کے فنڈز میں مبینہ گھپلوں کے باعث سیف گارڈ پالیسی کا نفاذ کیا گیا تھا اس کے باوجود وزارت قومی صحت کے جوائنٹ سیکریٹری کو خلاف ضابطہ تیسری بار گلوبل فنڈ کے کامن مینجمنٹ یونٹ کا چارج دے دیا گیا۔
بتایا گیا کہ مصطفی جمال قاضی کے بھائی محمد احمد جمال قاضی کو پہلے ہی حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کا سربراہ بنایا گیا ہے ، احمد جمال قاضی سندھ گورنمنٹ میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تھے انہیں ملک بھر کے لئے بنائے گئے پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ رولز کے مطابق کسی بھی آفیسر کو تیسری مرتبہ چارج دینے کے لئے وفاقی کابینہ کی منظوری ضروری ہے جو کہ نہیں لی گئی۔ جب کہ گلوبل فنڈ کے کامن یونٹ کا سربراہ بننے کے لئے مستقل امیدوار کے لئے جو شرائط ہیں اس میں لکھا گیا ہے کہ اس کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے اور ایم پی ایچ کے ساتھ 10 سال کا تجربہ بھی ضروری ہے ، جب کہ ایم پی ایچ سے کم ڈگری ہونے کی صورت میں 15 سال کا تجربہ ضروری ہے اور ای اینڈ ڈی رولز کے تحت کسی بھی آفیسر کو تیسری بار چارج دینے کے لئے وزیر اعظم آفس کی منظوری ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق جوائنٹ سیکریٹری نے اپنے آفس کی تزہین و آرائش پر امدادی فنڈ سے 50 لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ کر ڈالی، سندھ میں واقع اپنے گھر بھی سرکاری خرچہ پر آتے جاتے ہیں اور ان کے زیر استعمال اس وقت بھی 4 گاڑیاں ہیں ، جب کہ وزارت صحت کے دو سیکشن آفیسرز کو بھی اضافی چارج دیئے گئے ہیں اربوں روپے کے فنڈز کی پرکیورمنٹ کے لئے بھی وزارت کے سیکشن آفیسر میاں عثمان کو چارج دے دیا گیا ان کے زیر استعمال بھی گلوبل فنڈ کی گاڑی ہے جب کہ دوسرے من پسند آفیسر سیکشن آفیسر ذوہب کو بھی ڈپٹی ایڈمن آفیسر کا چارج دیا گیا ہے ان کے پاس بھی گلوبل فنڈ کی ایک گاڑی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام نے بریفنگ دی۔ سینٹر مشتاق احمد خان نے کمیٹی میں کہا کہ عالمی سطح پر وفاقی دارالحکومت کو ایڈز کے حوالے سے بہت زیادہ اچھالا گیا ہے جب کہ یہاں حقائق چھپائے جاتے ہیں۔
اس پر ڈپٹی کنٹرول پروگرام مینجر ڈاکٹر ارسلان حیدر نے کہا کہ گزشتہ 10 ماہ میں صرف اسلام آباد میں ایڈز کے 556 نئے کیس رجسٹرڈ ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ کئی شہروں سے یہاں آتے ہیں ، صرف اسلام آباد کے 118 رہائشیوں میں ایڈز کی تصدیق ہوئی ہے ۔
ٹی بی کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایک سال میں چارسے پانچ لاکھ کا ٹارگٹ رکھتے ہیں، پاکستان کے سارے ہسپتالوں میں ٹی بی کی ادویات مفت ملتی ہیں۔
سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ اربوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود سوات میں ٹی بی کا سینٹر موجود نہیں ،سینیٹر شفیق خان نے بھی جوائنٹ سیکریٹری قومی صحت مصطفی جمال قاضی کو گلوبل فنڈ کے مینجمنٹ یونٹ کا سربراہ بنائے جانے کے حوالے سے سوال کیا کہ ابھی تک کیوں کوئی مستقل کوآرڈی نیٹر تعینات نہیں کیا گیا؟ کیا اس کے لیے ڈاکٹر کا ہونا ضروری نہیں؟
انہوں نے ڈاکٹر مطاہر شاہ کو ملیریا کنٹرول پروگرام سے بھی نکالے جانے پر احتجاج کیا کہ کوئٹہ سے ایک ہی بندہ تھا اسے بھی نکال دیا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس چیئرمین ہمایوں مہمند کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ کمیٹی نے گلوبل فنڈ کے سربراہ مصطفی جمال قاضی کو مینجمنٹ یونٹ کے سربراہ بنائے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے چئیرمین قائمہ کمیٹی نے جوائنٹ سیکریٹری سے وضاحت طلب کر لی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ سندھ سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں اور اس وقت گلوبل فنڈ کے سربراہ ہیں۔ عالمی امدادی ادارے گلوبل فنڈ کی جانب سے پاکستان کے فنڈز میں مبینہ گھپلوں کے باعث سیف گارڈ پالیسی کا نفاذ کیا گیا تھا اس کے باوجود وزارت قومی صحت کے جوائنٹ سیکریٹری کو خلاف ضابطہ تیسری بار گلوبل فنڈ کے کامن مینجمنٹ یونٹ کا چارج دے دیا گیا۔
بتایا گیا کہ مصطفی جمال قاضی کے بھائی محمد احمد جمال قاضی کو پہلے ہی حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کا سربراہ بنایا گیا ہے ، احمد جمال قاضی سندھ گورنمنٹ میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تھے انہیں ملک بھر کے لئے بنائے گئے پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ رولز کے مطابق کسی بھی آفیسر کو تیسری مرتبہ چارج دینے کے لئے وفاقی کابینہ کی منظوری ضروری ہے جو کہ نہیں لی گئی۔ جب کہ گلوبل فنڈ کے کامن یونٹ کا سربراہ بننے کے لئے مستقل امیدوار کے لئے جو شرائط ہیں اس میں لکھا گیا ہے کہ اس کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے اور ایم پی ایچ کے ساتھ 10 سال کا تجربہ بھی ضروری ہے ، جب کہ ایم پی ایچ سے کم ڈگری ہونے کی صورت میں 15 سال کا تجربہ ضروری ہے اور ای اینڈ ڈی رولز کے تحت کسی بھی آفیسر کو تیسری بار چارج دینے کے لئے وزیر اعظم آفس کی منظوری ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق جوائنٹ سیکریٹری نے اپنے آفس کی تزہین و آرائش پر امدادی فنڈ سے 50 لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ کر ڈالی، سندھ میں واقع اپنے گھر بھی سرکاری خرچہ پر آتے جاتے ہیں اور ان کے زیر استعمال اس وقت بھی 4 گاڑیاں ہیں ، جب کہ وزارت صحت کے دو سیکشن آفیسرز کو بھی اضافی چارج دیئے گئے ہیں اربوں روپے کے فنڈز کی پرکیورمنٹ کے لئے بھی وزارت کے سیکشن آفیسر میاں عثمان کو چارج دے دیا گیا ان کے زیر استعمال بھی گلوبل فنڈ کی گاڑی ہے جب کہ دوسرے من پسند آفیسر سیکشن آفیسر ذوہب کو بھی ڈپٹی ایڈمن آفیسر کا چارج دیا گیا ہے ان کے پاس بھی گلوبل فنڈ کی ایک گاڑی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام نے بریفنگ دی۔ سینٹر مشتاق احمد خان نے کمیٹی میں کہا کہ عالمی سطح پر وفاقی دارالحکومت کو ایڈز کے حوالے سے بہت زیادہ اچھالا گیا ہے جب کہ یہاں حقائق چھپائے جاتے ہیں۔
اس پر ڈپٹی کنٹرول پروگرام مینجر ڈاکٹر ارسلان حیدر نے کہا کہ گزشتہ 10 ماہ میں صرف اسلام آباد میں ایڈز کے 556 نئے کیس رجسٹرڈ ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ کئی شہروں سے یہاں آتے ہیں ، صرف اسلام آباد کے 118 رہائشیوں میں ایڈز کی تصدیق ہوئی ہے ۔
ٹی بی کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایک سال میں چارسے پانچ لاکھ کا ٹارگٹ رکھتے ہیں، پاکستان کے سارے ہسپتالوں میں ٹی بی کی ادویات مفت ملتی ہیں۔
سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ اربوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود سوات میں ٹی بی کا سینٹر موجود نہیں ،سینیٹر شفیق خان نے بھی جوائنٹ سیکریٹری قومی صحت مصطفی جمال قاضی کو گلوبل فنڈ کے مینجمنٹ یونٹ کا سربراہ بنائے جانے کے حوالے سے سوال کیا کہ ابھی تک کیوں کوئی مستقل کوآرڈی نیٹر تعینات نہیں کیا گیا؟ کیا اس کے لیے ڈاکٹر کا ہونا ضروری نہیں؟
انہوں نے ڈاکٹر مطاہر شاہ کو ملیریا کنٹرول پروگرام سے بھی نکالے جانے پر احتجاج کیا کہ کوئٹہ سے ایک ہی بندہ تھا اسے بھی نکال دیا گیا۔