دودھ دہی کا کیمیکل مچھروں کو اپنی جانب کشش کرسکتا ہے
تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انسان کی مہک میں مچھروں کےلیے کونسی خصوصیات پُرکشش ہوتی ہیں
ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ انسانی جسم کی مہک میں موجود ایک اہم جزو اپنے اندر مچھروں کے لیے خصوصی کشش رکھتا ہے۔
جان ہوپکنز ملیریا ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور اسکول آف میڈیسن نے زمبیا کی ماچا ریسرچ ٹرسٹ کے ساتھ ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ مختلف انسانی مہک میں مچھروں کےلیے کونسی خصوصیات پُرکشش ہوتی ہیں۔
تحقیق کے لیے 20 بائے 20 سائز کا مچھروں کا پنجرا بنایا گیا جس میں سیکڑوں افریقی ملیریا کے مچھر (ان مچھروں میں ملیریا کے جراثیم نہیں تھے)رکھے گئے۔ پنجرے کے گرد آٹھ انفرادی ٹینٹ لگائے گئے جن کو پنجرے سے اس طرح سے جوڑا گیا کہ انسان کی مہک مچھروں تک باآسانی پہنچتی۔
تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا کہ مچھر ان انسانی جسم کی مہک کی جانب کھنچے چلے آئے تھے جن میں بخارات بن کر تیزی سے اڑجانے والے کاربوکزیلک ایسڈ بشمول بیوٹائرک ایسڈ کی مقدار نسبتاً زیادہ تھی۔
نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک علیحدہ تحقیق کے مطابق بیوٹائرک ایسڈ ایک فیٹی ایسڈ ہوتا ہے جو انسان کے پیٹ میں بنتا ہے، لیکن یہ قدرتی طور پر مکھن، پنیر، دودھ، دہی اور ملائی میں موجود ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ ایسڈ گوبھی اور کھیرے کے اچار جیسی غذاؤں میں بھی مل سکتا ہے۔
جان ہوپکنز اور ماچا محققین کے مطابق اس کے برعکس وہ اجسام جن کی مہک میں کاربوکزیلک ایسڈ کی مقدار کم جبکہ مونوٹرپینائڈ یوکلیپٹول کی مقدار زیادہ تھی ان کی جانب مچھر کم متوجہ ہوئے۔
امیریکن کیمیکل سوسائٹی کے مطابق یوکلیپٹول ٹی ٹری آئل اور بھنگ میں پایا جاتا ہے۔ جبکہ پب کیم کے مطابق یہ مرکب ماؤتھ واش اور کھانسی کے دوا میں بھی پایا جاتا ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف کے مطابق مطالعے کے نتائج مچھروں کے اپنے شکار ڈھونڈنے کے طریقہ کار میں خلل ڈالنے اور ملیریا سے متاثرہ علاقوں میں اس وباء کو روکنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔