گزشتہ 50 برس میں آب و ہوا میں تبدیلی سے 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے رپورٹ
اقوامِ متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق آب وہوا میں تبدیلی سے سب سے زیادہ اموات غریب اور پسماندہ ممالک میں ہوسکتی ہیں
اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آب وہوا میں ہونے والی تبدیلی سے گزشتہ 50 برس میں 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور عالمی معیشت کو 4.3 ٹریلیئن ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تاہم 90 فیصد اموات غریب اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوئی ہیں اور اس کا معاشی نقصان بھی انہی کے حصے میں آیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت، عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق 1970 سے 2021 تک پوری دنیا میں موسمیاتی شدت کے 11778 واقعات ہوئے۔ تشویشناک امر ہے کہ ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے شکار وہ غریب افراد ہیں جو پسماندہ ممالک میں رہتے ہیں جن کا کاربن اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری ٹالاس نے کہا کہ ' جو لوگ موسمیاتی تباہی کے دھانے پر ہیں وہ گرمی سےجھلس رہے ہیں اور پانی و سیلاب کا سامنا ہے۔' انہوں نے گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش اور میانمبار میں موچا طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آب و ہوا کی تباہی کے شکار سب سے زیادہ غریب عوام ہی ہورہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 1970 سے موسمیاتی شدت سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا تو 50 ہزار نفوس فی سال تک محدود تھی۔ اس کے بعد 2010 سے ان میں کمی ہوئی جو سالانہ 20 ہزار ہلاکتوں تک محدود رہی۔ اس کی وجہ مناسب اقدامات، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور حادثے سے قبل خبردار کرنے والے نظام شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال 2020 اور 2021 میں مجموعی طور پر 22608 افراد فوت ہوئے ہیں جو سب لینڈ سلائیڈ، بارش، گرمی، سیلاب اور خشک سالی وغیرہ سے لقمہ اجل بنے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان بھی شامل ہے جو آب وہوا میں تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ 2010 کا سیلاب، 2015 کی گرمی کی لہر اور پھر 2022 کے سیلاب میں ہم ہزاروں اموات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تحت، عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق 1970 سے 2021 تک پوری دنیا میں موسمیاتی شدت کے 11778 واقعات ہوئے۔ تشویشناک امر ہے کہ ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے شکار وہ غریب افراد ہیں جو پسماندہ ممالک میں رہتے ہیں جن کا کاربن اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری ٹالاس نے کہا کہ ' جو لوگ موسمیاتی تباہی کے دھانے پر ہیں وہ گرمی سےجھلس رہے ہیں اور پانی و سیلاب کا سامنا ہے۔' انہوں نے گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش اور میانمبار میں موچا طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آب و ہوا کی تباہی کے شکار سب سے زیادہ غریب عوام ہی ہورہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 1970 سے موسمیاتی شدت سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا تو 50 ہزار نفوس فی سال تک محدود تھی۔ اس کے بعد 2010 سے ان میں کمی ہوئی جو سالانہ 20 ہزار ہلاکتوں تک محدود رہی۔ اس کی وجہ مناسب اقدامات، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور حادثے سے قبل خبردار کرنے والے نظام شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال 2020 اور 2021 میں مجموعی طور پر 22608 افراد فوت ہوئے ہیں جو سب لینڈ سلائیڈ، بارش، گرمی، سیلاب اور خشک سالی وغیرہ سے لقمہ اجل بنے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان بھی شامل ہے جو آب وہوا میں تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ 2010 کا سیلاب، 2015 کی گرمی کی لہر اور پھر 2022 کے سیلاب میں ہم ہزاروں اموات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔