نواز لیگ کی حکومت اور موجودہ بحران
فوج میں موجود غصہ اوپر سے نیچے نہیں نیچے سے اوپر آ رہا ہے، عقل مند کے لیے اس فرق کی اہمیت کا ایک اشارہ ہی کافی ہے
اگر ہم احمقوں کی جنت میں رہنا چاہتے ہیں تو یہ ایک علیحدہ بات ہے' حقیقت کا سامنا کریں تو واضح ہو جائے گا کہ عسکری قیادت اور حکومت وقت کے درمیان تعلقات کشیدہ ترین نقطے تک جا پہنچے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے اس بحث کو موخر کردیں کہ کون صحیح ہے کون غلط تو ان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو نظر انداز کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ حکومت نے آئی ایس آئی اور آرمی چیف پر زبردست حملہ ہوتے ہوئے دیکھے اور خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس سے پہلے حکومت کے وزراء نے اپنے بیانات کے ذریعے ماحول کو اتنا کشیدہ کر دیا تھا کہ یہ خاموشی سوچی سمجھی نظر آنے لگی۔ عموماً بحرانی کیفیت میں الفاظ کا کم اور عقل کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے اپنے عمل ڈھالے جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یہ تینوں کام نہیں کیے گئے، جب خاموش رہنا تھا تب بڑھکیں مار رہے تھے۔ جب زبان کھولنا تھی تب منہ کو تالا لگا دیا۔ جب دوستی کا موقع بنا ہوا تھا تب انتہائی کوشش سے حالات خراب کیے، اب حالات خراب کرنے کے بعد دوستی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک وزیر ریاستی اداروں پر بد ترین تنقید پر تلملا رہا ہے اور دوسرا غلیل اورغلیلوں کی بحث میں پھنسا ہوا ہے۔
ایک بے لگام تنقید پر بندش چاہتا ہے دوسرا چینل کے خلاف کارروائی کو بدترین عمل سمجھتا ہے۔ وزارت دفاع پیمرا کو چینل کی بندش سے متعلق شکایت اپنے ہاتھوں سے بھیج رہی ہے۔ مگر دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان حق اظہار رائے دہی کے لیے خیر کے کلمے بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہ خلیج کا ایک حصہ ہے۔ دوسری طرف فوج، سویلین قیادت کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ محسوس کر رہی ہے کہ ان کے سیاسی باس اصل میں ان کو دلدل میں پھنسا رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کے معاملے پر فوج مخمصے کا شکار تو تھی ہی اب اس کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت کے یہاں بطور ریاستی ادارہ اس کی قدر ہے کیا۔ لہذا ایک طرف آپ کو چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر اعظم گوادر میں اکھٹے نظر آتے ہیں مگر اس تصویر کے پیچھے دونوں کے رُخ مخالف سمتوں میں ہیں۔ وزیر اعظم کراچی اسپتال میں تیمارداری کر کے خوش ہیں اور چیف آف آرمی اسٹاف آبپارہ کا دورہ کر کے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع (جو تبدیل ہونے کو ہے) کاکول میں جا کر کافی پریشان ہوئے۔ وہاں سے آنے والی خبریں سرد مہری اور خاموش ڈانٹ ڈپٹ سے آراستہ ہیں۔ نہ جانے وزیر اعظم پاکستان خواجہ آصف کو کیوں لے گئے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت بگڑی ہوئی صورت حال کا احاطہ کرنے میں یکسر ناکام رہی یا پھر وہ اپنے قریبی دوستوں کو فوج کے ساتھ بڑی محاذ آرائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ اگر چہ نواز لیگ فوج کے حوالے سے ذہن بنا کر ہی طاقت میں آئی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف اس عہدے پر آنے سے پہلے اصلاحات کے نام سے جو ایجنڈہ ساتھ لے کر آئے تھے اس کا ادراک ان کی جماعت کے ہر کلیدی اور سرکردہ رکن کو ہے۔ میاں نواز شریف نے فوج کو اس طرح مطیع کرنا ہے جس طرح دوسرے تمام ادارے ان کے اطاعت گزار ہیں۔ ایک نفیس اور بہترین جمہوری قیادت جس کے سر پر تہمتوں اور ناکامیوں کا بوجھ نہ ہو یقینا تگڑے اداروں کو نکیل ڈال سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں کم از کم اس دور میں ایسا خاص ماحول میسر نہیں ہے جو دوسروں میں نقص تلاش کر کے اپنے معیار کا لوہا سب سے منوا پائے۔ مگر میاں نواز شریف کو کون سمجھائے وہ اپنے مشیر خود ہیں اور اپنے گرد مشورے کے لیے ویسے ہی ہمنوا رکھتے ہیں جیسے آصف علی زرداری صاحب کے ساتھ تھے۔ فوج کے اندر خفگی اور تلملاہٹ صرف حکومت کے موجودہ بحران کی پالیسی سے متعلق نہیں ہے۔ پچھلے کئی مواقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو منظر سے اس طرح غائب کر دیا جب ان کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ ہندوستان کی طرف سے جب یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سر حد پار سے حملہ کر کے ان کے فوجیوں کے گلے کاٹ دیے تو بدترین کشیدگی کی صورت حال بھی وزیراعظم کی طرف سے اپنی ریاست کے حق میں کسی جاندار بیان کا باعث نہ بن سکی۔ نجی محفلوں میں بھی وزیراعظم قریبی حلقے میں کندھے اچکا کر آنکھیں گول گول گھماتے نظر آتے تھے۔ بین السطور یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ ہم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان غلط کہہ رہا ہے۔
پھر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی سرکاری میٹنگ میں پاکستان کے خلاف بدترین الزامات کی بارش کے نظارے سے وزیر اعظم خاموشی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ کبھی کرزئی کو زبان سنبھال کر بات کرنے کا نہیں کہا۔ دو ٹوک الفاظ میں تردید نہیں کی۔ الٹا اپنے اداروں سے وضاحت مانگتے رہے۔ اس طرح کے کئی ایسے واقعات نے پچھلے چند ماہ میں اس خلیج کی بنیاد رکھی جس کے دہانے پر اس وقت فوج اور حکومت کے تعلقات ڈگمگا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دور پہلی مرتبہ نہیں آیا ۔ وجوہات جو بھی بنی ہوں کھچائو اور تنائو کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ جنگ نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں ہی تبدیل ہو۔ پچھلے چھ سال میں فوج اور حکومت کے تعلقات بدترین بد گمانیوں اور شکوے شکایتوں سے ہچکولے کھاتے ہوئے بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچتے ہوئے دوبارہ پٹڑی پر آ ئے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ بحرانوں اور موجودہ رنجش میں یہ فرق ہے کہ پہلے عسکری قیادت اور سیاسی قیادت لڑ بھڑ جاتی تھی۔ اس مرتبہ فوج میں موجود غصہ اوپر سے نیچے نہیں نیچے سے اوپر آ رہا ہے۔ عقل مند کے لیے اس فرق کی اہمیت کا ایک اشارہ ہی کافی ہے مگر کیا کریں ہمارے پاس حکومت عقلمندوں کی نہیں ہے۔
ایک بے لگام تنقید پر بندش چاہتا ہے دوسرا چینل کے خلاف کارروائی کو بدترین عمل سمجھتا ہے۔ وزارت دفاع پیمرا کو چینل کی بندش سے متعلق شکایت اپنے ہاتھوں سے بھیج رہی ہے۔ مگر دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان حق اظہار رائے دہی کے لیے خیر کے کلمے بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہ خلیج کا ایک حصہ ہے۔ دوسری طرف فوج، سویلین قیادت کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ محسوس کر رہی ہے کہ ان کے سیاسی باس اصل میں ان کو دلدل میں پھنسا رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کے معاملے پر فوج مخمصے کا شکار تو تھی ہی اب اس کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت کے یہاں بطور ریاستی ادارہ اس کی قدر ہے کیا۔ لہذا ایک طرف آپ کو چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر اعظم گوادر میں اکھٹے نظر آتے ہیں مگر اس تصویر کے پیچھے دونوں کے رُخ مخالف سمتوں میں ہیں۔ وزیر اعظم کراچی اسپتال میں تیمارداری کر کے خوش ہیں اور چیف آف آرمی اسٹاف آبپارہ کا دورہ کر کے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع (جو تبدیل ہونے کو ہے) کاکول میں جا کر کافی پریشان ہوئے۔ وہاں سے آنے والی خبریں سرد مہری اور خاموش ڈانٹ ڈپٹ سے آراستہ ہیں۔ نہ جانے وزیر اعظم پاکستان خواجہ آصف کو کیوں لے گئے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت بگڑی ہوئی صورت حال کا احاطہ کرنے میں یکسر ناکام رہی یا پھر وہ اپنے قریبی دوستوں کو فوج کے ساتھ بڑی محاذ آرائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ اگر چہ نواز لیگ فوج کے حوالے سے ذہن بنا کر ہی طاقت میں آئی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف اس عہدے پر آنے سے پہلے اصلاحات کے نام سے جو ایجنڈہ ساتھ لے کر آئے تھے اس کا ادراک ان کی جماعت کے ہر کلیدی اور سرکردہ رکن کو ہے۔ میاں نواز شریف نے فوج کو اس طرح مطیع کرنا ہے جس طرح دوسرے تمام ادارے ان کے اطاعت گزار ہیں۔ ایک نفیس اور بہترین جمہوری قیادت جس کے سر پر تہمتوں اور ناکامیوں کا بوجھ نہ ہو یقینا تگڑے اداروں کو نکیل ڈال سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں کم از کم اس دور میں ایسا خاص ماحول میسر نہیں ہے جو دوسروں میں نقص تلاش کر کے اپنے معیار کا لوہا سب سے منوا پائے۔ مگر میاں نواز شریف کو کون سمجھائے وہ اپنے مشیر خود ہیں اور اپنے گرد مشورے کے لیے ویسے ہی ہمنوا رکھتے ہیں جیسے آصف علی زرداری صاحب کے ساتھ تھے۔ فوج کے اندر خفگی اور تلملاہٹ صرف حکومت کے موجودہ بحران کی پالیسی سے متعلق نہیں ہے۔ پچھلے کئی مواقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو منظر سے اس طرح غائب کر دیا جب ان کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ ہندوستان کی طرف سے جب یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سر حد پار سے حملہ کر کے ان کے فوجیوں کے گلے کاٹ دیے تو بدترین کشیدگی کی صورت حال بھی وزیراعظم کی طرف سے اپنی ریاست کے حق میں کسی جاندار بیان کا باعث نہ بن سکی۔ نجی محفلوں میں بھی وزیراعظم قریبی حلقے میں کندھے اچکا کر آنکھیں گول گول گھماتے نظر آتے تھے۔ بین السطور یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ ہم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان غلط کہہ رہا ہے۔
پھر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی سرکاری میٹنگ میں پاکستان کے خلاف بدترین الزامات کی بارش کے نظارے سے وزیر اعظم خاموشی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ کبھی کرزئی کو زبان سنبھال کر بات کرنے کا نہیں کہا۔ دو ٹوک الفاظ میں تردید نہیں کی۔ الٹا اپنے اداروں سے وضاحت مانگتے رہے۔ اس طرح کے کئی ایسے واقعات نے پچھلے چند ماہ میں اس خلیج کی بنیاد رکھی جس کے دہانے پر اس وقت فوج اور حکومت کے تعلقات ڈگمگا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ دور پہلی مرتبہ نہیں آیا ۔ وجوہات جو بھی بنی ہوں کھچائو اور تنائو کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ جنگ نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں ہی تبدیل ہو۔ پچھلے چھ سال میں فوج اور حکومت کے تعلقات بدترین بد گمانیوں اور شکوے شکایتوں سے ہچکولے کھاتے ہوئے بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچتے ہوئے دوبارہ پٹڑی پر آ ئے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ بحرانوں اور موجودہ رنجش میں یہ فرق ہے کہ پہلے عسکری قیادت اور سیاسی قیادت لڑ بھڑ جاتی تھی۔ اس مرتبہ فوج میں موجود غصہ اوپر سے نیچے نہیں نیچے سے اوپر آ رہا ہے۔ عقل مند کے لیے اس فرق کی اہمیت کا ایک اشارہ ہی کافی ہے مگر کیا کریں ہمارے پاس حکومت عقلمندوں کی نہیں ہے۔