صوبہ سب سے بڑا مگر تعلیمی بورڈ صرف ایک
بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کو ئٹہ پہنچنے کیلئے طلبہ کو سینکڑوں میل کا سفر کرنا پڑتا ہے
1970ء میں بلوچستان کو جب صوبے کا درجہ دیا گیا تو 1972ء میں یہاں پہلی منتخب صوبائی حکو مت قائم ہوئی جس کے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل تھے، اسی سال نہ صرف بلوچستان بورڈآف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہوا بلکہ صوبے کی پہلی یونیورسٹی آف بلوچستان بھی فعال ہو گئی۔
اسی سال صوبائی سیکرٹریٹ میں چیف سیکرٹری سمیت دیگر شعبوں کے سیکرٹری منتخب صوبائی حکو مت کے ماتحت کام کر نے لگے اور بڑے سائز کے محکموں کے ڈائریکٹوریٹ بھی قائم ہوئے اس طرح بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے قیام سے پہلے ایجوکیشن کا ڈائریکٹوریٹ قائم ہوا اور بلوچستان کے پہلے ڈائریکٹر ایجوکیشن پروفیسر خلیل احمد صدیقی تعینات ہوئے اور یہی بعد میں چیرمین بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کوئٹہ بنے، یعنی یہاں صوبا ئی سطح پر اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
سردارعطا اللہ مینگل کی پہلی منتخب صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت نے نو ماہ بعدہی تحلیل کر دیا اور صوبے میں ایک سیاسی پارلیمانی بحران پیدا ہو گیا اور پھر بلوچستان بورڈ آف ایجوکیشن کے لیے صوبائی اسمبلی سے قانون سازی نہیں ہو سکی ، مگر جہاں تک تعلق بلوچستان یونیورسٹی کا تھا تو یہ قانون کے مطابق اس وقت فعال ہو چکی تھی اور گورنر بلوچستان اس کے پہلے چانسلر تھے۔
1972 ء میں قائم ہو نے والے بورڈ نے کچھ عرصہ کام کیا اس کے بعد 1974 ء سے 1976 ء بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فعال نہیں رہا اور یوں اس دوران میٹرک، ایف اے، ایف ایس سی اور ڈپلومہ کے سالانہ اور ضمنی امتحا نات یونیورسٹی آف بلوچستان نے لیے، 1976 ء میں ایک آرڈیننس کے تحت بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ نے کام شروع کر دیا۔
واضح رہے کہ اُس وقت پورے بلوچستان کی آبادی تقریباً 26 لاکھ تھی بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن غالبا ً اپنے انتظامی رقبے یا رقبے کی بنیاد پر اپنے دائر کار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ہے کیونکہ بلو چستان کا رقبہ 34796 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 43% ہے اور یہاں یعنی بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ صوبے کا واحد بورڈ ہے، یوں اگر اس کے پہلے قیام 1972 ء سے دیکھیں تو اِس بورڈ کو قائم ہوئے آج پورے پچاس برس ہو چکے ہیں اور اگر اس کے نوٹیفیکیشن 1976 ء کے بعد اس کے قیام کو دیکھیں تو یہ عرصہ 46 برس بنتا ہے۔
واضح رہے کہ بورڈ کے اپنے قوانین ہیں اور بہت سے معاملات میں اِن کو کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا ، بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا ربط بلوچستان کے محکمہ تعلیم سے بہت گہرا اور مضبوط ہے، بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کا سر براہ یعنی چیرمین اور سیکرٹری تعلیم کو محکمہ تعلیم سے مستعار بنیاد پر تعینات کیا جاتا ہے۔
چیرمین عموماً بلوچستان ایجوکیشن کالجز کے سینئر پروفیسر کو تعینات کیا جاتا ہے جب سیکرٹری ایجوکیشن کے محکمے کے ڈائریکٹوریٹ اسکولز سے سینئر کسی پرنسپل یا کسی افسر کو تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اہم عہدوں میں وائس چیرمین ، رجسٹرا ر امتحانات ہے اسی طرح اس کے مختلف شعبے ہیں جیسے فنانس ، یعنی مالی امور، ایڈمن،کمپیوٹر برانچ، لائبریری اور اسپورٹس اِن شعبوں کے سربراہ بھی افسران ہیں۔ بلوچستان بورڈآف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کا دائرہ عمل پورے صوبے میں ماسوائے کنٹونمنٹ بورڈ ز ہے۔
یہ بورڈ ہر سال پرائمری، مڈل، نویں جماعت اور میٹرک کی سطح کے سالانہ اور ضمنی امتحانات کے علاوہ اعلیٰ سکنڈری کے شعبے میں ایف اے۔ ایف ایس سی ۔ دوسالہ اور تین سالہ دورانیے کے ڈپلومہ سرٹیفکیٹ کی سطح پر ڈپلومہ اِن ایسوسی ایٹ انجنیئرنگ Diplloma in Associate Enginering ڈپلومہ اِن ایگریکلچر ڈپلومہ اِن کامرس،۔ اور ڈپلومہ ان لینگویچ کے بھی سالانہ اور ضمنی امتحا نات لیتا ہے پھر اس بورڈ کا رابطہ بلوچستان ایجوکیشن کے محکمے سے یوں رہتا ہے کہ بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ جو سرٹیفکیٹ کی سطح پر امتحانات لینے اور ان امتحانات کے نتائج کے اعلانات کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا مجاز ہے۔
بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ اپنے تمام امتحانات کے لیے صوبائی محکمہ تعلیم ہی کے اساتذہ سے پرچے بنواتا ہے اور یہی اساتذہ یہ پرچے چیک کر کے نتائج مرتب کرتے ہیں اور پھر چیرمین اور سیکرٹری اس کا اعلان کرتے ہیں۔ نویں جماعت ، میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کے طلبا اور طالبات کی تعداد چونکہ ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے اِن کے نتائج اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ رزلٹ گزٹ اسکولوں کالجوں میں بھی بھجوا دئیے جاتے ہیں جب کہ آج کے کمپیوٹر کے دور میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کی ویب سائٹ پر بھی نتا ئج دیئے جاتے ہیں۔
2019 ء کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں کل سرکاری اسکولوں کی تعداد 15089 تھی جن میں سے بوائز اسکولوں کی تعداد 10122 اور گرلز اسکولوں کی تعداد 4261 تھی جس میں اب تک مزید سات، آٹھ سو، اسکولوں کا اضا فہ ہو چکا ہے، پرائمری اسکولوں کی مجموعی تعداد 12317 تھی، مڈل اسکولوں کی مجموعی تعداد1532 تھی، ہائی اسکولوں کی تعداد 1105 اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی مجموعی تعداد 135تھی اور اِن سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی کل تعداد 2019 ء کے مطابق 1009242 تھی جب کہ کل انٹرمیڈیٹ کالجوں کی تعداد 68 ہے جن میں سے 44 بوائز انٹرمیڈیٹ کالج ہیں اور 24 گرلز انٹر میڈیٹ کالج ہیں۔
اسی طرح ڈپلو مہ کرانے والے انسٹیٹیوٹ کی تعداد بھی تقریباً 50 ہے۔ اس وقت نویں جماعت اور میٹرک کے امتحانات میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات بورڈ کا امتحان دیتے ہیں اور اس تعداد سے ذرا کم ایف اے، ایف ایس سی کا امتحا ن دیتے ہیں، ان سرکاری اسکولوں اور انٹر کالجوں، ڈپلومہ انسٹیٹیوٹ کے علاوہ اس تعداد کا تقریباً دس فیصد حصہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کا ہوتا ہے۔
بورڈ کے تمام امتحانات کے لیے بلو چستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ پورے صوبے کے تعلیمی اداروں ہی کی عمارتوں میں امتحانی مراکز قائم کرتا ہے جس کے لیے واجبی سے اخراجات بھی ادا کرتا ہے۔
1976 ء میں جب یہ بورڈ قائم ہوا تھا تو میٹرک کے امتحانات دینے والے طلبا و طالبات کی تعداد تقریباً پانچ ، سات ہزار ہوا کرتی تھی جس میں اب کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کے نویں اور میٹرک کے سالانہ امتحانات کے نتائج کے مطابق 2022 ء میں کل 132925 طلبا و طالبات نے امتحا نات دیے تھے اور 115389 طلبا و طالبات کامیاب قرار پائے تھے۔
اِن میں سے میٹرک کا امتحان دینے والے امیدواروں کی کل تعداد 69419 تھی جن میں سے 65010 امیدوار کامیاب قرار پا ئے یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بلو چستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجو کیشن کوئٹہ بہر حال ایک وسیع رقبے پر محیط ایک کروڑ 32 لاکھ کی آبادی کے صوبہ بلو چستان میں سے سالانہ لاکھوں امیدوارں کے سالا نہ اور ضمنی امتحانات لیتا ہے اور کوئٹہ سے گوادر کا فا صلہ گیارہ سو کلومیٹر ہے جب کہ ایرانی سرحد پر واقع آخری پاکستانی شہر تفتان کا فاصلہ کو ئٹہ سے650 کلومیٹر ہے اور یہ صوبے کا واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ یہاں خدمات انجام دے رہا ہے ۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں آزادی کے وقت تک سات آٹھ سے زیادہ ہائی اسکول نہیں تھے، پہلا سرکاری ہائی اسکول کوئٹہ میںسنڈیمن ہائی اسکول کے نام سے انگریزسرکار نے قائم کیا تھا ، یہ اسکول سر رابرٹ سنڈیمن کے نام سے قائم کیا گیا تھا جو بلوچستان کے کامیاب ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل تھے۔
بلوچستان کو انگریزوں نے پہلی ا ینگلو افغان جنگ 1839 ء میں کابل کی فتح کے بعد بلوچستان کو فتح کیا تھا مگر یہ حقیقی فتح نہیں تھی یہ اس لئے بھی ہوا تھا کہ جب انگریزی فوجیں کراچی کی بندر گاہ سے اترنے کے بعد بلوچستان میں داخل ہوئیں اور خصوصاً درہ بولان سے گزریں تو یہاں بلوچوں نے اِن پر گوریلا طرز پر حملے کئے تھے۔
اس پر انگر جنرل نے افغانستان کی فتح کے بعد وائسرائے ہند سے اجازت لیکر خان آف قلات میر محراب خان کے خلاف کاروائی کی جس میں میر محراب خان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور بلوچستان میں انگریز آگئے مگر 1942 ء کے موسم سرما میں افغانیوں نے انگریزوں کی فوج پر ایسا دھاوا بولا کے پوری ساڑھے بارہ ہزار کی فوج کو قتل کر دیا اور ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا یہاں بلوچستان انگریزوں کے خلاف بھی مزاحمت جاری رہی اور آخر انگریزوں کے اے جی جی سررابرٹ سنڈے من نے یہاں خان آف قلات سے اُن کی داخلی خود مختاری کی بنیاد پرمعاہدہ کر لیا اور 1978 ء میں اس رابرٹ سنڈے من نے کو ئٹہ شہر اور چھاؤنی آباد کی۔
قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں پہلا کلالج جو آج سائنس کالج کہلاتا ہے گورنمنٹ کالج کے نام سے قائم ہوا ، 1970 ء کے انتخابات سے قبل اگرچہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا مگر اُس وقت ملک میں مارشل لا تھا تو یہاں صوبے کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض تعینات ہوئے، ساٹھ کی دہا ئی تک یہاں سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحان پہلے لاہور بورڈ اور پھر ملتان بورڈ سے لیئے جاتے تھے، ہمارے ملک میں انگریز کے زمانے میں پنجاب بورڈ اور سندھ بورڈ قائم تھے۔
آزادی کے بعد لاہور بورڈ 1954 ء میں کہلا یا، ملتان بورڈ اور سرگودھا بورڈ 1968 ء میں قائم ہوئے، 1976 ء میں گوجرانوالہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہوا، 1977 ء میں راولپنڈی بورڈ ، 1988 ء فیصل آباد میں 1989 ڈیرہ غازی خان میں بورڈبنا، 1998 ء میں تین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بہاولپور، بہاولنگراور رحیم یار خان میں قائم ہوئے یعنی اِ س وقت صوبہ پنجاب میں بارہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈر ی ایجوکیشن موجود ہیں۔
صوبہ سندھ میں کراچی میں بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن1950 ء میں قائم ہوا اور دوسرا 1974 ء حیدر آباد میں بورڈ قائم ہوا، 1973 ء میر پور خاص میں 1979ء میں سکھر میں اور 2016 ء میں شہید بے نظیر میں بورڈ قائم ہوا۔ یوں صوبہ سندھ میں7 بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن موجود ہیں، خیبر پختونخوا میں اس وقت 8 بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہیں جن میں پہلے دو بورڈ 1961ء میں پشاور اور مالاکنڈ میں بنے، 1975ء میں مردان میں بورڈ بنا، 1990 ء ایبٹ آباد اور بنوں میں بورڈ قائم ہوئے، 1992 ء میں سوات میں بورڈ بنا، 2002 ء کوہاٹ میں بورڈ بنا اور 2006 ء میں ڈیرہ اسماعیل میں بورڈ قائم کر دیا گیا۔
1973ء میں میرپور آزاد جموں و کشمیر میں بورڈ قائم ہوا۔ 1975 ء میں گلگت بلتستان میں اسلام آباد میں فیڈرل بورڈ قائم ہواتھا۔ مگر بلوچستان جو ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43% ہے اور اب آبادی ایک کروڑ تیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے مگر اب تک یہاں صرف ایک ہی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ ہے۔
تفتان سے کو ئٹہ 645 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور گوادر بھی ساڑھے چھ سو کلومیٹر سے زیادہ ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں سے سالانہ صوبائی بجٹ میں لورالائی، تربت اور نصیرآباد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے لئے فنڈز مختص ہوتے رہے ہیں مگر یہ بورڈ قائم نہیں ہوئے ہیں واضح رہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بورڈ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ میں پہلی، دوسری اور تیسری پو زیشن لینے والے طلبا و طالبات کو لاکھو ں روپے کے انعامات کے علاوہ اِن ذہین اور محنتی طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومتی خرچ پر پڑھایا جائے گا اور اس وقت بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں باوجود وسیع رقبے اور ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی کے یہاں ایک بورڈ یعنی بلوچستان انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کی وجہ سے صرف تین طلبا اور طالبات میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے انعامات اور اسکالرشپ حاصل کرتے ہیں ۔
اگر بورڈ تین یا چار ہوں تو اس سے زیادہ ذہین فطین اور محنتی طلبا اور طالبات کو فائد ہ پہنچے گا پھر بلوچستان کے طلبا و طالبات کو آج اپنے مسائل کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کوئٹہ آنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اب بلوچستان کی حکومت فوری طور پر صوبے میں چار سے پانچ نئے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم کرے اس سے ایک طرف تو بلوچستان کے طلبا و طالبات کو فائد ہ پہنچے گا تو دوسری جانب اس سے سینکڑوں تعلیم یافتہ افراد کو روزگا ر ملے گا ۔
اسی سال صوبائی سیکرٹریٹ میں چیف سیکرٹری سمیت دیگر شعبوں کے سیکرٹری منتخب صوبائی حکو مت کے ماتحت کام کر نے لگے اور بڑے سائز کے محکموں کے ڈائریکٹوریٹ بھی قائم ہوئے اس طرح بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے قیام سے پہلے ایجوکیشن کا ڈائریکٹوریٹ قائم ہوا اور بلوچستان کے پہلے ڈائریکٹر ایجوکیشن پروفیسر خلیل احمد صدیقی تعینات ہوئے اور یہی بعد میں چیرمین بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کوئٹہ بنے، یعنی یہاں صوبا ئی سطح پر اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
سردارعطا اللہ مینگل کی پہلی منتخب صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت نے نو ماہ بعدہی تحلیل کر دیا اور صوبے میں ایک سیاسی پارلیمانی بحران پیدا ہو گیا اور پھر بلوچستان بورڈ آف ایجوکیشن کے لیے صوبائی اسمبلی سے قانون سازی نہیں ہو سکی ، مگر جہاں تک تعلق بلوچستان یونیورسٹی کا تھا تو یہ قانون کے مطابق اس وقت فعال ہو چکی تھی اور گورنر بلوچستان اس کے پہلے چانسلر تھے۔
1972 ء میں قائم ہو نے والے بورڈ نے کچھ عرصہ کام کیا اس کے بعد 1974 ء سے 1976 ء بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فعال نہیں رہا اور یوں اس دوران میٹرک، ایف اے، ایف ایس سی اور ڈپلومہ کے سالانہ اور ضمنی امتحا نات یونیورسٹی آف بلوچستان نے لیے، 1976 ء میں ایک آرڈیننس کے تحت بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ نے کام شروع کر دیا۔
واضح رہے کہ اُس وقت پورے بلوچستان کی آبادی تقریباً 26 لاکھ تھی بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن غالبا ً اپنے انتظامی رقبے یا رقبے کی بنیاد پر اپنے دائر کار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ہے کیونکہ بلو چستان کا رقبہ 34796 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریباً 43% ہے اور یہاں یعنی بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ صوبے کا واحد بورڈ ہے، یوں اگر اس کے پہلے قیام 1972 ء سے دیکھیں تو اِس بورڈ کو قائم ہوئے آج پورے پچاس برس ہو چکے ہیں اور اگر اس کے نوٹیفیکیشن 1976 ء کے بعد اس کے قیام کو دیکھیں تو یہ عرصہ 46 برس بنتا ہے۔
واضح رہے کہ بورڈ کے اپنے قوانین ہیں اور بہت سے معاملات میں اِن کو کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جا سکتا ، بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا ربط بلوچستان کے محکمہ تعلیم سے بہت گہرا اور مضبوط ہے، بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کا سر براہ یعنی چیرمین اور سیکرٹری تعلیم کو محکمہ تعلیم سے مستعار بنیاد پر تعینات کیا جاتا ہے۔
چیرمین عموماً بلوچستان ایجوکیشن کالجز کے سینئر پروفیسر کو تعینات کیا جاتا ہے جب سیکرٹری ایجوکیشن کے محکمے کے ڈائریکٹوریٹ اسکولز سے سینئر کسی پرنسپل یا کسی افسر کو تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اہم عہدوں میں وائس چیرمین ، رجسٹرا ر امتحانات ہے اسی طرح اس کے مختلف شعبے ہیں جیسے فنانس ، یعنی مالی امور، ایڈمن،کمپیوٹر برانچ، لائبریری اور اسپورٹس اِن شعبوں کے سربراہ بھی افسران ہیں۔ بلوچستان بورڈآف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کا دائرہ عمل پورے صوبے میں ماسوائے کنٹونمنٹ بورڈ ز ہے۔
یہ بورڈ ہر سال پرائمری، مڈل، نویں جماعت اور میٹرک کی سطح کے سالانہ اور ضمنی امتحانات کے علاوہ اعلیٰ سکنڈری کے شعبے میں ایف اے۔ ایف ایس سی ۔ دوسالہ اور تین سالہ دورانیے کے ڈپلومہ سرٹیفکیٹ کی سطح پر ڈپلومہ اِن ایسوسی ایٹ انجنیئرنگ Diplloma in Associate Enginering ڈپلومہ اِن ایگریکلچر ڈپلومہ اِن کامرس،۔ اور ڈپلومہ ان لینگویچ کے بھی سالانہ اور ضمنی امتحا نات لیتا ہے پھر اس بورڈ کا رابطہ بلوچستان ایجوکیشن کے محکمے سے یوں رہتا ہے کہ بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ جو سرٹیفکیٹ کی سطح پر امتحانات لینے اور ان امتحانات کے نتائج کے اعلانات کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا مجاز ہے۔
بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ اپنے تمام امتحانات کے لیے صوبائی محکمہ تعلیم ہی کے اساتذہ سے پرچے بنواتا ہے اور یہی اساتذہ یہ پرچے چیک کر کے نتائج مرتب کرتے ہیں اور پھر چیرمین اور سیکرٹری اس کا اعلان کرتے ہیں۔ نویں جماعت ، میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کے طلبا اور طالبات کی تعداد چونکہ ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے اِن کے نتائج اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ رزلٹ گزٹ اسکولوں کالجوں میں بھی بھجوا دئیے جاتے ہیں جب کہ آج کے کمپیوٹر کے دور میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کی ویب سائٹ پر بھی نتا ئج دیئے جاتے ہیں۔
2019 ء کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں کل سرکاری اسکولوں کی تعداد 15089 تھی جن میں سے بوائز اسکولوں کی تعداد 10122 اور گرلز اسکولوں کی تعداد 4261 تھی جس میں اب تک مزید سات، آٹھ سو، اسکولوں کا اضا فہ ہو چکا ہے، پرائمری اسکولوں کی مجموعی تعداد 12317 تھی، مڈل اسکولوں کی مجموعی تعداد1532 تھی، ہائی اسکولوں کی تعداد 1105 اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی مجموعی تعداد 135تھی اور اِن سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی کل تعداد 2019 ء کے مطابق 1009242 تھی جب کہ کل انٹرمیڈیٹ کالجوں کی تعداد 68 ہے جن میں سے 44 بوائز انٹرمیڈیٹ کالج ہیں اور 24 گرلز انٹر میڈیٹ کالج ہیں۔
اسی طرح ڈپلو مہ کرانے والے انسٹیٹیوٹ کی تعداد بھی تقریباً 50 ہے۔ اس وقت نویں جماعت اور میٹرک کے امتحانات میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات بورڈ کا امتحان دیتے ہیں اور اس تعداد سے ذرا کم ایف اے، ایف ایس سی کا امتحا ن دیتے ہیں، ان سرکاری اسکولوں اور انٹر کالجوں، ڈپلومہ انسٹیٹیوٹ کے علاوہ اس تعداد کا تقریباً دس فیصد حصہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کا ہوتا ہے۔
بورڈ کے تمام امتحانات کے لیے بلو چستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ پورے صوبے کے تعلیمی اداروں ہی کی عمارتوں میں امتحانی مراکز قائم کرتا ہے جس کے لیے واجبی سے اخراجات بھی ادا کرتا ہے۔
1976 ء میں جب یہ بورڈ قائم ہوا تھا تو میٹرک کے امتحانات دینے والے طلبا و طالبات کی تعداد تقریباً پانچ ، سات ہزار ہوا کرتی تھی جس میں اب کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کے نویں اور میٹرک کے سالانہ امتحانات کے نتائج کے مطابق 2022 ء میں کل 132925 طلبا و طالبات نے امتحا نات دیے تھے اور 115389 طلبا و طالبات کامیاب قرار پائے تھے۔
اِن میں سے میٹرک کا امتحان دینے والے امیدواروں کی کل تعداد 69419 تھی جن میں سے 65010 امیدوار کامیاب قرار پا ئے یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بلو چستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجو کیشن کوئٹہ بہر حال ایک وسیع رقبے پر محیط ایک کروڑ 32 لاکھ کی آبادی کے صوبہ بلو چستان میں سے سالانہ لاکھوں امیدوارں کے سالا نہ اور ضمنی امتحانات لیتا ہے اور کوئٹہ سے گوادر کا فا صلہ گیارہ سو کلومیٹر ہے جب کہ ایرانی سرحد پر واقع آخری پاکستانی شہر تفتان کا فاصلہ کو ئٹہ سے650 کلومیٹر ہے اور یہ صوبے کا واحد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ یہاں خدمات انجام دے رہا ہے ۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں آزادی کے وقت تک سات آٹھ سے زیادہ ہائی اسکول نہیں تھے، پہلا سرکاری ہائی اسکول کوئٹہ میںسنڈیمن ہائی اسکول کے نام سے انگریزسرکار نے قائم کیا تھا ، یہ اسکول سر رابرٹ سنڈیمن کے نام سے قائم کیا گیا تھا جو بلوچستان کے کامیاب ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل تھے۔
بلوچستان کو انگریزوں نے پہلی ا ینگلو افغان جنگ 1839 ء میں کابل کی فتح کے بعد بلوچستان کو فتح کیا تھا مگر یہ حقیقی فتح نہیں تھی یہ اس لئے بھی ہوا تھا کہ جب انگریزی فوجیں کراچی کی بندر گاہ سے اترنے کے بعد بلوچستان میں داخل ہوئیں اور خصوصاً درہ بولان سے گزریں تو یہاں بلوچوں نے اِن پر گوریلا طرز پر حملے کئے تھے۔
اس پر انگر جنرل نے افغانستان کی فتح کے بعد وائسرائے ہند سے اجازت لیکر خان آف قلات میر محراب خان کے خلاف کاروائی کی جس میں میر محراب خان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور بلوچستان میں انگریز آگئے مگر 1942 ء کے موسم سرما میں افغانیوں نے انگریزوں کی فوج پر ایسا دھاوا بولا کے پوری ساڑھے بارہ ہزار کی فوج کو قتل کر دیا اور ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھوڑا یہاں بلوچستان انگریزوں کے خلاف بھی مزاحمت جاری رہی اور آخر انگریزوں کے اے جی جی سررابرٹ سنڈے من نے یہاں خان آف قلات سے اُن کی داخلی خود مختاری کی بنیاد پرمعاہدہ کر لیا اور 1978 ء میں اس رابرٹ سنڈے من نے کو ئٹہ شہر اور چھاؤنی آباد کی۔
قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں پہلا کلالج جو آج سائنس کالج کہلاتا ہے گورنمنٹ کالج کے نام سے قائم ہوا ، 1970 ء کے انتخابات سے قبل اگرچہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا مگر اُس وقت ملک میں مارشل لا تھا تو یہاں صوبے کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض تعینات ہوئے، ساٹھ کی دہا ئی تک یہاں سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحان پہلے لاہور بورڈ اور پھر ملتان بورڈ سے لیئے جاتے تھے، ہمارے ملک میں انگریز کے زمانے میں پنجاب بورڈ اور سندھ بورڈ قائم تھے۔
آزادی کے بعد لاہور بورڈ 1954 ء میں کہلا یا، ملتان بورڈ اور سرگودھا بورڈ 1968 ء میں قائم ہوئے، 1976 ء میں گوجرانوالہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہوا، 1977 ء میں راولپنڈی بورڈ ، 1988 ء فیصل آباد میں 1989 ڈیرہ غازی خان میں بورڈبنا، 1998 ء میں تین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بہاولپور، بہاولنگراور رحیم یار خان میں قائم ہوئے یعنی اِ س وقت صوبہ پنجاب میں بارہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈر ی ایجوکیشن موجود ہیں۔
صوبہ سندھ میں کراچی میں بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن1950 ء میں قائم ہوا اور دوسرا 1974 ء حیدر آباد میں بورڈ قائم ہوا، 1973 ء میر پور خاص میں 1979ء میں سکھر میں اور 2016 ء میں شہید بے نظیر میں بورڈ قائم ہوا۔ یوں صوبہ سندھ میں7 بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن موجود ہیں، خیبر پختونخوا میں اس وقت 8 بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم ہیں جن میں پہلے دو بورڈ 1961ء میں پشاور اور مالاکنڈ میں بنے، 1975ء میں مردان میں بورڈ بنا، 1990 ء ایبٹ آباد اور بنوں میں بورڈ قائم ہوئے، 1992 ء میں سوات میں بورڈ بنا، 2002 ء کوہاٹ میں بورڈ بنا اور 2006 ء میں ڈیرہ اسماعیل میں بورڈ قائم کر دیا گیا۔
1973ء میں میرپور آزاد جموں و کشمیر میں بورڈ قائم ہوا۔ 1975 ء میں گلگت بلتستان میں اسلام آباد میں فیڈرل بورڈ قائم ہواتھا۔ مگر بلوچستان جو ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43% ہے اور اب آبادی ایک کروڑ تیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے مگر اب تک یہاں صرف ایک ہی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ ہے۔
تفتان سے کو ئٹہ 645 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور گوادر بھی ساڑھے چھ سو کلومیٹر سے زیادہ ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں سے سالانہ صوبائی بجٹ میں لورالائی، تربت اور نصیرآباد انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے لئے فنڈز مختص ہوتے رہے ہیں مگر یہ بورڈ قائم نہیں ہوئے ہیں واضح رہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بورڈ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ میں پہلی، دوسری اور تیسری پو زیشن لینے والے طلبا و طالبات کو لاکھو ں روپے کے انعامات کے علاوہ اِن ذہین اور محنتی طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومتی خرچ پر پڑھایا جائے گا اور اس وقت بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں باوجود وسیع رقبے اور ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی کے یہاں ایک بورڈ یعنی بلوچستان انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کی وجہ سے صرف تین طلبا اور طالبات میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے انعامات اور اسکالرشپ حاصل کرتے ہیں ۔
اگر بورڈ تین یا چار ہوں تو اس سے زیادہ ذہین فطین اور محنتی طلبا اور طالبات کو فائد ہ پہنچے گا پھر بلوچستان کے طلبا و طالبات کو آج اپنے مسائل کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کوئٹہ آنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اب بلوچستان کی حکومت فوری طور پر صوبے میں چار سے پانچ نئے بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن قائم کرے اس سے ایک طرف تو بلوچستان کے طلبا و طالبات کو فائد ہ پہنچے گا تو دوسری جانب اس سے سینکڑوں تعلیم یافتہ افراد کو روزگا ر ملے گا ۔