وقت کے ہاتھوں کی لکیریں
ہم مانیں یا نہ مانیں حقیقت یہ ہے کہ سندھ سیاسی حوالے سے دو حصوں میں تقسیم ہے ۔۔۔
KARACHI:
متحدہ ایک عرصے سے یہ شکایت کر رہی ہے کہ اس کے کارکنوں کو سول کپڑوں میں ملبوس سرکاری اہلکار گھروں، کام کی جگہوں سے اٹھا رہے ہیں جن میں سے کچھ کو غائب کیا جا رہا ہے کچھ کو قتل کیا جا رہا ہے۔متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے قتل ہونے والوں اور لاپتہ کارکنوں کی فہرستیں مع ان کی تصویروں کے میڈیا کو بھی فراہم کی ہیں اور حکومت کو بھی۔ اگرچہ سندھ حکومت کی جانب سے الزامات کی تردید کی جاتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارکن ماورائے عدالت قتل بھی ہو رہے ہیں اور لاپتہ بھی۔ متحدہ کی جانب سے قانون ساز اداروں کے اندر اور باہر پر امن احتجاج کے بعد اب متحدہ نے اس پر اسرار قتل و لاپتہ کلچر کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے، کراچی پریس کلب سے اس احتجاج کا آغاز ہونے کے بعد اب ملک کے تمام بڑے شہروں میں احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ کراچی پریس کلب پر ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اگر حکومت نے سادہ لباس والوں کو لاقانونیت سے نہ روکا تو پھر ہم انھیں روکیں گے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا احساس محرومی، احساس بیگانگی میں بدل جائے، انھوں نے کہا کہ ہمارے سامنے سادہ لباس والے ہیں تو ہم بھی سادہ لباس پہن کر آ سکتے ہیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ کراچی پریس کلب کے اس مظاہرے کو ٹریلر سمجھا جائے کیوں کہ کل کو اس حوالے سے پوری فلم بھی چل سکتی ہے۔ انھوں نے ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے کارکنوں کے قاتلوں کو گرفتار کر کے انھیں قانون کے مطابق سزا نہ دی گئی تو ہماری اگلی منزل دھرنے ہی دھرنے ہوں گے۔ متحدہ کے رہنما بار بار یہ مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں کہ اگر ان کے کارکنوں پر کسی بھی قسم کے الزامات ہیں تو انھیں عدالت میں لایا جائے اور اگر کسی پر جرم ثابت ہوتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے لیکن اب ہم غیر قانونی پکڑ دھکڑ اور گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے شرمناک سلسلے کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ لاپتہ اور قتل ہونے والے کارکنوں کے لواحقین نے اپنی دکھ بھری داستانیں بھی سنائیں۔ہمارے ملک میں سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ نیا نہیں ہے یہ سلسلہ عشروں پر پھیلا ہوا ہے، ایوب خان کے دور سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ہر جمہوری اور غیر جمہوری دور میں جاری رہا۔ اس حوالے سے بلوچستان میں لاپتہ شہریوں کا سلسلہ شعلہ جوالا بنا ہواہے۔ سیکڑوں لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کے حوالے سے ایک شور محشر برپا ہے۔ یہ سلسلہ حکومتوں کی تحویل سے نکل کر اعلیٰ عدالتوں تک جا پہنچا ہے اور جج صاحبان حکومتوں کو بار بار تنبیہ کر رہے ہیں کہ یہ غیر انسانی طریقہ سزا جزا کو اب ختم ہونا چاہیے کہ قانون موجود ہے عدالتیں موجود ہیں، پھر غیر قانونی اور ماورائے عدالت کارروائیوں کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ لیکن اعلیٰ عدالتوں کی یہ پکار صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔
بلوچستان سے احتجاجی قافلے کراچی اور اسلام آباد تک پیدل مارچ کر رہے ہیں لیکن کسی حکمران کے کان پر جوں رینگتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں کی موجودگی میں یہ سلسلہ کیوں جاری ہے؟ ہمارے مرکزی اور صوبائی حکمران صبح سے شام تک قانون کی حکمرانی کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور ان کے کارندے ڈنکے کی چوٹ پر قانون اور انصاف کو پیروں تلے روندتے رہتے ہیں۔ کیا حکمران طبقات اس ظلم کی داستان سے نا واقف ہیں؟ اگر یہ سب حکمرانوں کی مرضی سے ہو رہا ہے تو یہ کارنامے جمہوریت کے چہرے پر کوڑھ کے داغ ہیں اور اگر یہ سب حکومت کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے تو اس سے بڑھ کر حکومتوں کی نا اہلی کیا ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں ایک انارکی کی کیفیت موجود ہے وہاں کوئی منظم اور طاقتور سیاسی جماعت موجود نہیں جس کی وجہ سے ظلم کے خلاف کوئی منظم اور مربوط آواز سنائی نہیں دیتی لیکن متحدہ ایک انتہائی منظم جماعت ہے اگر وہ حکومت میں شمولیت سے پہلے اپنے انتباہ پر عمل در آمد پر اتر آتی تو پہلے سے تباہی کے دہانے پر کھڑے اس شہر کا کیا حال ہوتا؟
ہم مانیں یا نہ مانیں حقیقت یہ ہے کہ سندھ سیاسی حوالے سے دو حصوں میں تقسیم ہے، دیہی سندھ اور شہری سندھ، شہری سندھ پر متحدہ کی بالادستی قائم ہے اور اس بالا دستی کا سلسلہ 1988ء سے جاری ہے۔ اسی طرح دیہی سندھ پر پیپلزپارٹی حاوی ہے اس سیاسی تضاد نے ہمیشہ ایک محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لی، اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ دونوں میں سے کوئی جماعت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ دونوں جماعتیں اس صوبے کی فطری اور سیاسی اتحادی ہیں اگر یہ فطری اتحادی ہونے کا ثبوت دیتی ہیں تو یہ شہر یہ صوبہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو پہلے سے جہنم بنا ہوا یہ شہر ایک ایسے جہنم میں بدل جائے گا اس کی آگ کی لپٹیں اسلام آباد تک پہنچ جائیں گے اگر ایسا ہوا تو اس ملک کا کیا حشر ہو گا اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔
کراچی اس حوالے سے ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے ہمارے تمام سیاست دان بار بار یہ تکرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ''کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے'' اور ہمارے حکمرانوں کا تو یہ تکیہ کلام بنا ہوا ہے۔ ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات حضرت شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ پی پی اے کے قانون کے تحت ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ میمن صاحب درست فرما رہے ہوں لیکن یہ قانون تو ابھی قومی اسمبلی میں منظور ہوا ہے اور سینیٹ نے اس کی آخری منظوری بھی نہیں دی جب کہ متحدہ کو جو شکایتیں ہیں وہ برسوں پرانی ہیں؟ میمن صاحب اس سوال کا کیا جواب دیں گے؟ اس کا اقرار تو ہر حلقے، ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کی طرف سے کیا جاتاہے اور خفیہ ایجنسیاں اور انتظامیہ تو اس کو مرکزی ایشو یا بہانہ بناتی ہیں کہ ہر جماعت کے عسکری ونگز موجود ہیں اور اس سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عسکری ونگز ہیں تو انھیں کون ختم کرے گا؟ کیسے ختم کرے گا؟پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اندھا لنگڑا قانون اور انصاف جیسا بھی ہے موجود ہے۔ دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز کالعدم تنظیموں کے کارکن، عسکری ونگز کے مسلح لوگ ہر روز پکڑے جا رہے ہیں، ان سے بھاری اسلحہ بھی برآمد ہو رہا ہے اور درجنوں بلکہ سیکڑوں افراد کے قتل کے اعترافی بیانات بھی میڈیا میں آ رہے ہیں۔
ہر صاحب عقل یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ پھر انھیں عدالتوں میں پیش کر کے مجرم ثابت ہونے پر کڑی سزائیں کیوں نہیں دلوائی جا رہی ہیں۔؟ اس تناظر میں اگر متحدہ کے رہنما یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ان کے کسی کارکن پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ کیا اس موقف کو منفی یا غیر قانونی کہا جا سکتا ہے؟ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ سندھ سیاسی حوالے سے دو حصوں شہری، دیہی میں تقسیم ہو چکا ہے اگر اس حقیقت کو تسلیم کر کے تعاون کے ساتھ ، خلوص نیت کے ساتھ سندھ کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یقیناً دونوں فطری اتحادی سندھ میں امن بحال کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو موجودہ حالات میں یہ سیاست کراچی کو اس مقام پر پہنچا دے گی جہاں پچھتانے کا وقت بھی نہیں رہے گا۔ شکر ہے کہ سندھ حکومت اور متحدہ میں اتحاد کی کوئی صورت نکل آئی۔