گلزار شمبے کی گرفتاری … اہم کامیابی
میڈیا کے سامنے گلزار امام شمبے نے تسلیم کیا کہ ہمارا مسلح جدوجہد کا راستہ غلط ہے
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ایک زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک ہائی پروفائل آپریشن میں کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کے سربراہ گلزار امام بلوچ عرف شمبے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ بلوچستان میں کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کے گرفتار سربراہ گلزار امام شمبے کو گرشتہ روز میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔
میڈیا کے سامنے گلزار امام شمبے نے تسلیم کیا کہ ہمارا مسلح جدوجہد کا راستہ غلط ہے، امید ہے ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا موقع دے گی، انھوں نے اپیل کی کہ مسلح جدوجہد میں شامل بلوچ باشندے لڑائی کے بجائے واپسی کا راستہ اختیار کریں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق منگل کو گلزار امام کو بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سامنے پیش کیا۔ وزیر داخلہ و قبائلی امور بلوچستان ضیاء لانگو نے گلزار امام سے متعلق سیکیورٹی اداروں کی کارروائی سے میڈیا کو آگاہ کیا، بعد ازاں گرفتار ملزم کو اپنے تاثرات و خیالات بیان کرنے کی دعوت دی۔
اس موقع پر گلزار امام شمبے نے میڈیا کو بتایا کہ میں گزشتہ پندرہ برس سے مسلح جدوجہد کا حصہ رہا ہوں اور اس دوران ہر طرح کے حالات سے گزرا ہوں، بحیثیت بلوچ میرا مقصد اپنی قوم اور خطے کی حفاظت کرنا ہے، اپنی گرفتاری کے حوالے سے اس نے بتایا کہ مجھے کچھ دنوں قبل گرفتار کیا گیا، گلزار امام شمبے نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ میں بلوچ قوم کے اکابرین سے ملا ہوں۔
ان سے مباحثے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی اور سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔ گلزار امام شمبے نے کہا کہ میں نے ریاست کو سمجھے بغیر اس جنگ کا آغاز کیا، میں نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا کیوں کہ مسلح جدوجہد سے بلوچستان کے مسائل مزید گھمبیر ہوتے گئے۔
اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کچھ طاقتیں بلوچ قوتوں کو صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں جس سے نقصان صرف بلوچ قوم کا ہورہا ہے ۔انھوں نے مسلح جدوجہد میں شامل بلوچ باشندوں سے اپیل کی کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں تاکہ مل کر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
انھوں نے بلوچ طلبا سے بھی اپیل کی کہ وہ لڑائی میں وقت ضایع کرنے کے بجائے صوبے کی ترقی کے لیے کام کریں۔انھوں نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ ریاست ہمیں ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا ایک موقع دے گی، جن کے لوگ اس جنگ میں مارے گئے اور جن کا کوئی نقصان ہوا میں ان سے معافی کا طلب گار ہوں۔
گلزار امام شمبے کو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ہائی پروفائل انٹیلی جنس آپریشن کے دوران گرفتارکیا ہے' یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے 'اس سے دوسرے جنگجو لیڈروں کو یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان کے تعاقب میں ہے 'وہ زیادہ عرصہ سیکیورٹی اداروں کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
اس سے دوسرا پیغام یہ بھی مل گیا ہے کہ مسلح جدوجہد کبھی فائدہ مند نہیں ہوتی' دنیا بھر میں اس کی مثالیں موجود ہیں' سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اگر گوریلا وار کے بجائے سیاسی جدوجہد کرتے تونہ ان کا خاتمہ ہوتا اور نہ سری لنکا میں موجود تامل لوگوں کا نقصان ہوتا اور نہ سری لنکا ہی کو نقصان پہنچتا۔ اب تامل ٹائیگرز ماضی کا قصہ بن گئے ہیں اور ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔
آئرش ریپبلکن آرمی کی مسلح جدوجہد کا انجام بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پاکستان میں جو گروپ بھی مسلح جدوجہد کر رہے ہیں' ان کی لیڈر شپ میں نہ تو اعلیٰ پائے کی ذہانت ہے اور نہ وہ تاریخ اور سیاست ہی سے آگاہ ہیں۔ محض بندوق اٹھانے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے' اس کے لیے غیرمعمولی فہم و فراست ' تدبر اور سیاسی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلوچستان میں جو لوگ اپنے تئیں بلوچ عوام کے حقوق کا نعرہ لگا کر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں 'وہ نہ تو زمینی حقائق کے مطابق ہے اور نہ ہی اس کا بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ یہ مسلح گروپ قوم پرستی کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے بلکہ ان کی جدوجہد کا انحصار قبائلی عصبیت پر ہے۔
قبائلی گروہ بندی اور عصبیت کے نام پر جو مسلح جدوجہد ہے اسے کسی بھی صورت میں قوم پرستی کی تحریک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کسی دوسری کمیونٹی کے افراد کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنا 'انھیں قتل کرنا ' ان کی املاک پر قبضہ کرنا ' اس قسم کے کام بھی قوم پرستی نہیں ہوتی بلکہ ایسے کام قبائلی دشمنیوں کے تناظر میں کیے جاتے ہیں ' اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ قوم پرست لیڈر جدید ریاست کی ضرورت اور اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔
ان کا جمہوری تصور بھی قبائلیت سے جڑا ہوا ہے۔ آج کے جدید دورمیں جمہوری قدروں کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر کوئی ملک یا قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں بلوچوں کی محرومی کا نعرہ بھی مبہم ہے۔
اگر محرومی کا تعلق غربت سے ہے تو یہ طبقاتی نوعیت کی ایک تقسیم ہے اور اس تقسیم میں پورے ملک کے غریب شہری محرومی کا شکار ہیں۔
اگر ہم اشرافیہ کے طبقاتی خدوخال کو دیکھتے ہیں تو پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں بلوچ اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں اور بڑے بڑے کاروباروں کے بھی مالک ہیں۔ایرانی بلوچوں کے ساتھ موازنہ کریں تو حقائق بالکل واضح ہو کر سامنے آ جائیں گے کہ پاکستان نے بلوچوں کو کیا دیا ہے اور ایران اور افغانستان نے وہاں بسنے والے بلوچ عوام کو کیا دیا ہے۔
پاکستان میں جو بھی گروہ مسلح جدوجہد کر رہے ہیں 'ان کی پس پردہ سوچ سیاسی اور جمہوری ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی قوم پرستی کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ مذہب کے نام پر سیاسی مفادات کو حاصل کرنا اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانا بھی اتنا ہی بڑا جرم اور دہشت گردی ہے جتنا بڑا قبائلیت 'لسانیت اور قوم پرستی کے نام پر مخالفین کو قتل کرنا اور ریاست کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندتنظیمیں ہوں 'ٹی ٹی پی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں ہوں ' انھیں عوام کی حمایت بالکل حاصل نہیں ہے۔
ان کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی پروگرام اور کوئی فریم ورک موجود نہیں ہے۔ اس لیے ایسے گروہوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے اور ریاست پاکستان کے سامنے سرنڈر کر دینا چاہیے ' ریاست پاکستان اپنے کسی شہری کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ایک وفاقی ریاست ہے۔پارلیمنٹ موجود ہے۔
اس کا ایک آئین ہے۔ عدالتی نظام موجود ہے'پاکستان پینل کورٹ سے لے کرہتک عزت تک کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں۔اس لیے نظام کے اندر رہ کر جدوجہد کرنے سے بہت سے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ یہی ایک سب سے مناسب طریقہ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل جاری ہیں گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں دہشت گردوں کے حملے میں ایف سی کے 4 جوان اور نجی کمپنی کے2 سیکیورٹی گارڈز شہید ہوگئے، اطلاعات کے مطابق رات گئے دہشت گردوں نے میانجی خیل کے مقام پرایک گیس کمپنی کے گیس کنویں کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جوانوں نے 2 گھنٹے تک حملہ آوروں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
اس حملے میں ایف سی کے 4 اور گیس کمپنی کے 2 گارڈز شہید ہو گئے۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی ٹل سے ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی تاہم دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب رہے۔اس دہشت گردی کے علاوہ خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر خودکش دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہو گئے۔ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کے مطابق خود کش دھماکے کے نتیجے میں 3 اہلکار اور ایک شہری سمیت 4 افراد شہید ہوئے ہیں۔
خود کش دھماکے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔میڈیا نے شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر کے حوالے سے بتایا ہے کہ چیک پوسٹ پر خودکش دھماکا چیکنگ کے دوران ہوا ہے۔دھماکا ہونے کے کچھ دیربعد ہی ریسکیو ٹیمیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار جائے دھماکا پر پہنچ گئے جنھوں نے امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے ریاست کو زیروٹالرنس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے بغیر اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ گرفتار بلوچ کمانڈر اس حوالے سے خاصا مدد گار ثابت ہو سکتا ہے 'وہ پاکستان میں موجود ایسے عناصر کی نشاندہی کر سکتا ہے جو جس زمین کا رزق کھاتے ہیں اسی کے خلاف غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
میڈیا کے سامنے گلزار امام شمبے نے تسلیم کیا کہ ہمارا مسلح جدوجہد کا راستہ غلط ہے، امید ہے ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا موقع دے گی، انھوں نے اپیل کی کہ مسلح جدوجہد میں شامل بلوچ باشندے لڑائی کے بجائے واپسی کا راستہ اختیار کریں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق منگل کو گلزار امام کو بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سامنے پیش کیا۔ وزیر داخلہ و قبائلی امور بلوچستان ضیاء لانگو نے گلزار امام سے متعلق سیکیورٹی اداروں کی کارروائی سے میڈیا کو آگاہ کیا، بعد ازاں گرفتار ملزم کو اپنے تاثرات و خیالات بیان کرنے کی دعوت دی۔
اس موقع پر گلزار امام شمبے نے میڈیا کو بتایا کہ میں گزشتہ پندرہ برس سے مسلح جدوجہد کا حصہ رہا ہوں اور اس دوران ہر طرح کے حالات سے گزرا ہوں، بحیثیت بلوچ میرا مقصد اپنی قوم اور خطے کی حفاظت کرنا ہے، اپنی گرفتاری کے حوالے سے اس نے بتایا کہ مجھے کچھ دنوں قبل گرفتار کیا گیا، گلزار امام شمبے نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ میں بلوچ قوم کے اکابرین سے ملا ہوں۔
ان سے مباحثے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی اور سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔ گلزار امام شمبے نے کہا کہ میں نے ریاست کو سمجھے بغیر اس جنگ کا آغاز کیا، میں نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ غلط تھا کیوں کہ مسلح جدوجہد سے بلوچستان کے مسائل مزید گھمبیر ہوتے گئے۔
اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کچھ طاقتیں بلوچ قوتوں کو صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں جس سے نقصان صرف بلوچ قوم کا ہورہا ہے ۔انھوں نے مسلح جدوجہد میں شامل بلوچ باشندوں سے اپیل کی کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں تاکہ مل کر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔
انھوں نے بلوچ طلبا سے بھی اپیل کی کہ وہ لڑائی میں وقت ضایع کرنے کے بجائے صوبے کی ترقی کے لیے کام کریں۔انھوں نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ ریاست ہمیں ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اصلاح کا ایک موقع دے گی، جن کے لوگ اس جنگ میں مارے گئے اور جن کا کوئی نقصان ہوا میں ان سے معافی کا طلب گار ہوں۔
گلزار امام شمبے کو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ہائی پروفائل انٹیلی جنس آپریشن کے دوران گرفتارکیا ہے' یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے 'اس سے دوسرے جنگجو لیڈروں کو یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان کے تعاقب میں ہے 'وہ زیادہ عرصہ سیکیورٹی اداروں کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔
اس سے دوسرا پیغام یہ بھی مل گیا ہے کہ مسلح جدوجہد کبھی فائدہ مند نہیں ہوتی' دنیا بھر میں اس کی مثالیں موجود ہیں' سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اگر گوریلا وار کے بجائے سیاسی جدوجہد کرتے تونہ ان کا خاتمہ ہوتا اور نہ سری لنکا میں موجود تامل لوگوں کا نقصان ہوتا اور نہ سری لنکا ہی کو نقصان پہنچتا۔ اب تامل ٹائیگرز ماضی کا قصہ بن گئے ہیں اور ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔
آئرش ریپبلکن آرمی کی مسلح جدوجہد کا انجام بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پاکستان میں جو گروپ بھی مسلح جدوجہد کر رہے ہیں' ان کی لیڈر شپ میں نہ تو اعلیٰ پائے کی ذہانت ہے اور نہ وہ تاریخ اور سیاست ہی سے آگاہ ہیں۔ محض بندوق اٹھانے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے' اس کے لیے غیرمعمولی فہم و فراست ' تدبر اور سیاسی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلوچستان میں جو لوگ اپنے تئیں بلوچ عوام کے حقوق کا نعرہ لگا کر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں 'وہ نہ تو زمینی حقائق کے مطابق ہے اور نہ ہی اس کا بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ یہ مسلح گروپ قوم پرستی کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے بلکہ ان کی جدوجہد کا انحصار قبائلی عصبیت پر ہے۔
قبائلی گروہ بندی اور عصبیت کے نام پر جو مسلح جدوجہد ہے اسے کسی بھی صورت میں قوم پرستی کی تحریک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کسی دوسری کمیونٹی کے افراد کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنا 'انھیں قتل کرنا ' ان کی املاک پر قبضہ کرنا ' اس قسم کے کام بھی قوم پرستی نہیں ہوتی بلکہ ایسے کام قبائلی دشمنیوں کے تناظر میں کیے جاتے ہیں ' اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ قوم پرست لیڈر جدید ریاست کی ضرورت اور اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔
ان کا جمہوری تصور بھی قبائلیت سے جڑا ہوا ہے۔ آج کے جدید دورمیں جمہوری قدروں کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر کوئی ملک یا قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں بلوچوں کی محرومی کا نعرہ بھی مبہم ہے۔
اگر محرومی کا تعلق غربت سے ہے تو یہ طبقاتی نوعیت کی ایک تقسیم ہے اور اس تقسیم میں پورے ملک کے غریب شہری محرومی کا شکار ہیں۔
اگر ہم اشرافیہ کے طبقاتی خدوخال کو دیکھتے ہیں تو پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں بلوچ اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں اور بڑے بڑے کاروباروں کے بھی مالک ہیں۔ایرانی بلوچوں کے ساتھ موازنہ کریں تو حقائق بالکل واضح ہو کر سامنے آ جائیں گے کہ پاکستان نے بلوچوں کو کیا دیا ہے اور ایران اور افغانستان نے وہاں بسنے والے بلوچ عوام کو کیا دیا ہے۔
پاکستان میں جو بھی گروہ مسلح جدوجہد کر رہے ہیں 'ان کی پس پردہ سوچ سیاسی اور جمہوری ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی قوم پرستی کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ مذہب کے نام پر سیاسی مفادات کو حاصل کرنا اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانا بھی اتنا ہی بڑا جرم اور دہشت گردی ہے جتنا بڑا قبائلیت 'لسانیت اور قوم پرستی کے نام پر مخالفین کو قتل کرنا اور ریاست کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندتنظیمیں ہوں 'ٹی ٹی پی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں ہوں ' انھیں عوام کی حمایت بالکل حاصل نہیں ہے۔
ان کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی پروگرام اور کوئی فریم ورک موجود نہیں ہے۔ اس لیے ایسے گروہوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہیے اور ریاست پاکستان کے سامنے سرنڈر کر دینا چاہیے ' ریاست پاکستان اپنے کسی شہری کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ایک وفاقی ریاست ہے۔پارلیمنٹ موجود ہے۔
اس کا ایک آئین ہے۔ عدالتی نظام موجود ہے'پاکستان پینل کورٹ سے لے کرہتک عزت تک کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں۔اس لیے نظام کے اندر رہ کر جدوجہد کرنے سے بہت سے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ یہی ایک سب سے مناسب طریقہ ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل جاری ہیں گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں دہشت گردوں کے حملے میں ایف سی کے 4 جوان اور نجی کمپنی کے2 سیکیورٹی گارڈز شہید ہوگئے، اطلاعات کے مطابق رات گئے دہشت گردوں نے میانجی خیل کے مقام پرایک گیس کمپنی کے گیس کنویں کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جوانوں نے 2 گھنٹے تک حملہ آوروں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
اس حملے میں ایف سی کے 4 اور گیس کمپنی کے 2 گارڈز شہید ہو گئے۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی ٹل سے ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی تاہم دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب رہے۔اس دہشت گردی کے علاوہ خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر خودکش دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہو گئے۔ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان کے مطابق خود کش دھماکے کے نتیجے میں 3 اہلکار اور ایک شہری سمیت 4 افراد شہید ہوئے ہیں۔
خود کش دھماکے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔میڈیا نے شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر کے حوالے سے بتایا ہے کہ چیک پوسٹ پر خودکش دھماکا چیکنگ کے دوران ہوا ہے۔دھماکا ہونے کے کچھ دیربعد ہی ریسکیو ٹیمیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار جائے دھماکا پر پہنچ گئے جنھوں نے امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے ریاست کو زیروٹالرنس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے بغیر اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ گرفتار بلوچ کمانڈر اس حوالے سے خاصا مدد گار ثابت ہو سکتا ہے 'وہ پاکستان میں موجود ایسے عناصر کی نشاندہی کر سکتا ہے جو جس زمین کا رزق کھاتے ہیں اسی کے خلاف غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔