سب سے پہلے واقعی پاکستان
پاکستان کی حفاظت فوج کر رہی ہے جس کے جوان روزانہ ہی ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں
تقریباً آٹھ برسوں تک پاکستان پر حکومت کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں سب سے پہلے پاکستان کا ذکر کیا تھا اور دس سال ملک پر حکومت کرنے والے ایک اور فوجی صدر جنرل ایوب خان نے کہا تھا کہ پاکستان کو آقا نہیں دوست چاہئیں۔
ایک حکومتی رہنما کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کی کوئی ریاست نہیں ایک آزاد ملک ہے۔ امریکی ترجمان وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ ہم مضبوط پاکستان چاہتے ہیں جہاں احتجاج تشدد کے بغیر ہونا چاہیے، امریکا پاکستان میں کسی لیڈر یا پارٹی کا حامی نہیں۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جب امریکا کے کہنے پر طالبان حکومت کی مخالفت میں امریکا کا ساتھ دیتے وقت کہا تھا کہ ہمیں پاکستان کو پہلے دیکھنا ہے اور پاکستان کا مفاد امریکا کی حمایت کرنے پر ہے، ہم پاکستان کا نقصان امریکا کے ہاتھوں نہیں چاہتے، ہمارے لیے سب سے اہم پاکستان ہے۔
9 مئی 2023 کو پاکستان میں جوکچھ ہوا ہے، اس کے بعد ملک کے تقریباً تمام سیاسی حلقے سوائے عمران خان اور پی ٹی آئی کے، حکومتی حلقے بھی سب سے پہلے پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں میں پاکستان کے مفاد کی بات گرفتاری سے بچنے کے بعد فواد چوہدری نے کی جس کے بعد سے پی ٹی آئی کے حامیوں کا تانتا بندھ گیا ہے جو عمران خان سے متفق نہیں۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے رہنما پریس کانفرنسوں میں واضح کرنے لگے ہیں کہ سیاست نہیں سب سے پہلے ہمیں ریاست عزیز ہے پاکستان ہے تو سیاست ہو سکے گی اور ریاست کے بغیر سیاست ہو نہیں سکتی۔
پاکستان کی حفاظت فوج کر رہی ہے جس کے جوان روزانہ ہی ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں 9 مئی کے بعد پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے۔ شہر شہر فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اور لاہور جناح ہاؤس میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں جو عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں نے جلا ڈالا تھا اور پنجاب و کے پی کے میں فوجی املاک جن میں جی ایچ کیو بھی شامل تھا کو نقصان پہنچایا گیا اور فوجی شہدا کی تصاویر کی بے حرمتی، ایم ایم عالم کے تاریخی جہاز، کرنل شیرخان کے مجسمے سمیت جو سلوک احتجاج کے نام پر کیا گیا اس کی مذمت میں ملک بھر میں پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے لیے سول سوسائٹی، مذہبی شخصیات اور شہریوں اور پاک فوج سے محبت کرنے والے سیاسی حلقوں کی طرف سے روزانہ ہی جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔
9 مئی کے واقعے کی سابق وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے کہنے پر بھی فوری مذمت نہیں کی جب کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے اس کی مذمت کی اور فوجی تنصیبات کے نقصانات پر شرمندگی کے ساتھ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے مطالبات بھی کیے ہیں اور ان سب کا کہنا ہے کہ پاک فوج ہی ملک کی محافظ ہے اور پاکستان ہے تو ہم سب ہیں سیاست بعد کی بات ہے ہمیں پاکستان سب سے مقدم اور عزیز ہے۔
9 مئی نے ستمبر 1965 کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ ریلیوں کے دوران نقصان زدہ فوجی املاک پر بڑی تعداد میں لوگ جا رہے ہیں۔ فوجیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں جنھوں نے گیریژن جا کر فوجی جوانوں کو پھول پیش کیے اور ملک بھر میں پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں اور ملک بھر میں ہر جگہ پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے نظارے دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے پاک فوج ہی نہیں بلکہ پاک فوج سے وابستہ فوجی خاندانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ قوم ان کے ساتھ ہے۔
پاکستان کی حفاظت کی ذمے داری بے شک افواج پاکستان کی ہے جو کئی محاذوں پر دہشت گردوں سے دلیری سے لڑ رہی ہے۔ دہشت گردی کی اس لڑائی میں آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔
انھیں جانی نقصان پہنچ رہا ہے مگر شرپسندوں نے 9 مئی کو پاک فوج کی عمارتوں کو جلایا اور جو مالی نقصان پہنچایا اس کا مداوا تو مالی طور پر ہوجائے گا مگر یہ جو شرمناک واقعات ہوئے اس کی توقع صرف بھارت اور ٹی ٹی پی سے تھی پی ٹی آئی کے کارکنوں سے نہیں تھی جن کے رہنما کی حکومت اکثریت نہ ہونے کے باوجود بنوائی گئی تھی ۔
2021 میں ہی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دور رہنے کا اعلان کردیا تھا جس کا عمران خان کو شدید دکھ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی نہ ہو اور سیاسی مداخلت کرکے ان کی دوبارہ حکومت بنوا دے۔ ایسا نہ ہونے کا بدلا 9 مئی کو پی ٹی آئی نے لے لیا اور عمران خان نے جو نازیبا القابات اپنائے وہ ماضی میں کسی سیاستدان کو جلسوں اور ٹوئیٹس میں کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔
بالاتروں نے تمام جماعتوں کو ناراض کرکے عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا تھا اور عمران خان کو یقین تھا کہ یہ قوتیں 2028تک انھیں اقتدار میں رکھنے میں مدد کریں گی مگر ملکی حالات کے باعث اسٹیبلشمنٹ نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا جو عمران خان کو سخت ناگوار گزرا۔ آئینی طور پر اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور مخالفت میں اس حد تک آگئے کہ 9مئی کو جب فوجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تو عمران خان نے اس کی مذمت اور فوج سے یکجہتی تک کا اظہار نہیں کیا جو احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔
اب واقعی یہ سب سے پہلے پاکستان میں ہوگا کہ 9 مئی کو ہر سال قومی سطح پر یوم سیاہ منایا جایا کرے گا جس میں عمران خان کی مذمت ہوا کرے گی اور آیندہ کوئی بھی حکومت فوج سے یکجہتی کے لیے منائے جانے والے اس دن کو ختم بھی نہیں کرسکے گی۔
ایک حکومتی رہنما کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کی کوئی ریاست نہیں ایک آزاد ملک ہے۔ امریکی ترجمان وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ ہم مضبوط پاکستان چاہتے ہیں جہاں احتجاج تشدد کے بغیر ہونا چاہیے، امریکا پاکستان میں کسی لیڈر یا پارٹی کا حامی نہیں۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جب امریکا کے کہنے پر طالبان حکومت کی مخالفت میں امریکا کا ساتھ دیتے وقت کہا تھا کہ ہمیں پاکستان کو پہلے دیکھنا ہے اور پاکستان کا مفاد امریکا کی حمایت کرنے پر ہے، ہم پاکستان کا نقصان امریکا کے ہاتھوں نہیں چاہتے، ہمارے لیے سب سے اہم پاکستان ہے۔
9 مئی 2023 کو پاکستان میں جوکچھ ہوا ہے، اس کے بعد ملک کے تقریباً تمام سیاسی حلقے سوائے عمران خان اور پی ٹی آئی کے، حکومتی حلقے بھی سب سے پہلے پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں میں پاکستان کے مفاد کی بات گرفتاری سے بچنے کے بعد فواد چوہدری نے کی جس کے بعد سے پی ٹی آئی کے حامیوں کا تانتا بندھ گیا ہے جو عمران خان سے متفق نہیں۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے رہنما پریس کانفرنسوں میں واضح کرنے لگے ہیں کہ سیاست نہیں سب سے پہلے ہمیں ریاست عزیز ہے پاکستان ہے تو سیاست ہو سکے گی اور ریاست کے بغیر سیاست ہو نہیں سکتی۔
پاکستان کی حفاظت فوج کر رہی ہے جس کے جوان روزانہ ہی ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں 9 مئی کے بعد پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے۔ شہر شہر فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اور لاہور جناح ہاؤس میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں جو عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں نے جلا ڈالا تھا اور پنجاب و کے پی کے میں فوجی املاک جن میں جی ایچ کیو بھی شامل تھا کو نقصان پہنچایا گیا اور فوجی شہدا کی تصاویر کی بے حرمتی، ایم ایم عالم کے تاریخی جہاز، کرنل شیرخان کے مجسمے سمیت جو سلوک احتجاج کے نام پر کیا گیا اس کی مذمت میں ملک بھر میں پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے لیے سول سوسائٹی، مذہبی شخصیات اور شہریوں اور پاک فوج سے محبت کرنے والے سیاسی حلقوں کی طرف سے روزانہ ہی جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔
9 مئی کے واقعے کی سابق وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے کہنے پر بھی فوری مذمت نہیں کی جب کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے اس کی مذمت کی اور فوجی تنصیبات کے نقصانات پر شرمندگی کے ساتھ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے مطالبات بھی کیے ہیں اور ان سب کا کہنا ہے کہ پاک فوج ہی ملک کی محافظ ہے اور پاکستان ہے تو ہم سب ہیں سیاست بعد کی بات ہے ہمیں پاکستان سب سے مقدم اور عزیز ہے۔
9 مئی نے ستمبر 1965 کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ ریلیوں کے دوران نقصان زدہ فوجی املاک پر بڑی تعداد میں لوگ جا رہے ہیں۔ فوجیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں جنھوں نے گیریژن جا کر فوجی جوانوں کو پھول پیش کیے اور ملک بھر میں پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں اور ملک بھر میں ہر جگہ پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے نظارے دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے پاک فوج ہی نہیں بلکہ پاک فوج سے وابستہ فوجی خاندانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ مطمئن ہیں کہ قوم ان کے ساتھ ہے۔
پاکستان کی حفاظت کی ذمے داری بے شک افواج پاکستان کی ہے جو کئی محاذوں پر دہشت گردوں سے دلیری سے لڑ رہی ہے۔ دہشت گردی کی اس لڑائی میں آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔
انھیں جانی نقصان پہنچ رہا ہے مگر شرپسندوں نے 9 مئی کو پاک فوج کی عمارتوں کو جلایا اور جو مالی نقصان پہنچایا اس کا مداوا تو مالی طور پر ہوجائے گا مگر یہ جو شرمناک واقعات ہوئے اس کی توقع صرف بھارت اور ٹی ٹی پی سے تھی پی ٹی آئی کے کارکنوں سے نہیں تھی جن کے رہنما کی حکومت اکثریت نہ ہونے کے باوجود بنوائی گئی تھی ۔
2021 میں ہی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دور رہنے کا اعلان کردیا تھا جس کا عمران خان کو شدید دکھ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی نہ ہو اور سیاسی مداخلت کرکے ان کی دوبارہ حکومت بنوا دے۔ ایسا نہ ہونے کا بدلا 9 مئی کو پی ٹی آئی نے لے لیا اور عمران خان نے جو نازیبا القابات اپنائے وہ ماضی میں کسی سیاستدان کو جلسوں اور ٹوئیٹس میں کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔
بالاتروں نے تمام جماعتوں کو ناراض کرکے عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا تھا اور عمران خان کو یقین تھا کہ یہ قوتیں 2028تک انھیں اقتدار میں رکھنے میں مدد کریں گی مگر ملکی حالات کے باعث اسٹیبلشمنٹ نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا جو عمران خان کو سخت ناگوار گزرا۔ آئینی طور پر اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور مخالفت میں اس حد تک آگئے کہ 9مئی کو جب فوجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تو عمران خان نے اس کی مذمت اور فوج سے یکجہتی تک کا اظہار نہیں کیا جو احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔
اب واقعی یہ سب سے پہلے پاکستان میں ہوگا کہ 9 مئی کو ہر سال قومی سطح پر یوم سیاہ منایا جایا کرے گا جس میں عمران خان کی مذمت ہوا کرے گی اور آیندہ کوئی بھی حکومت فوج سے یکجہتی کے لیے منائے جانے والے اس دن کو ختم بھی نہیں کرسکے گی۔