عمران دار فدائین حصہ اول
ہر رنگ و نسل اور علاقے کے لوگوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور ان کو عزت دی
میرے گزشتہ دو آرٹیکلز پر تبدیلی کے قارئین میں موجود تحریک انصاف کے میرے جاننے والوں، دوست اور چند عمران داروں نے حسب سابق و معمول رسپانس دیا، مگر حیران کن امر یہ ہے کہ عمران داروں کے علاوہ اکثر دوستوں کا رسپانس غیر متوقع طور پر مثبت تھا۔
تقریباً اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ جو ہوا بہت برا ہوا اور یہ دہشتگردی اور ملک پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کیسے مان لیں کہ اس کا ذمے دار عمران احمد نیازی ہے؟ اور اگر یہ عمران خان کے کہنے کے مطابق ان کے خلاف سازش نہیں تو پھر یہ شرپسند اور بلوائی ان حساس مقامات پر اتنی آسانی اور بلا روک ٹوک کیسے پہنچ گئے اور بلا خوف و خطر سب کچھ جلا کر کیسے وہاں سے نکل گئے؟
میں بذات خود تو اپنے مشاہدات اور اپنی عقل و فہم کے مطابق اس پر مکمل طور پر یکسو اور کلیر ہوں مگر انسان ہوں غلط سوچ سکتا ہوں اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے حق سچ اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی بات کو مثبت انداز میں ان سوالات کے جوابات دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور تحریک انصاف کے دوستوں اور محب وطن کارکنان کو اپنی بات سمجھانے کی استطاعت اور ان کو اس پر غور کرنے اور سمجھنے کے بعد اپنی رائے کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہی دعا ہے اللہ میری تحریر کو تمام قارئین کے عام فہم اور دل و دماغ کھولنے کا سبب بنائے اور اس کو میرے نامہ اعمال میں اس طرح لکھ دیں کہ بروز محشر میرے لیے آسانی اور جزا کا سبب بنے۔
میرے خیال میں مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہوگی کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہم سب نے عمران خان کو ایک اچھے اور خوبصورت شرمیلے کھلاڑی، پھر ایک سخت گیر اور خود پسند کپتان، پھر ورلڈ کپ کے فاتح کپتان اور پھر قومی ہیرو کی شکل میں دیکھا۔
ان کی والدہ ماجدہ شوکت خانم کی کینسر کے جان لیوا مرض میں وفات کے بعد ان کو کینسر کے موذی مرض کے خلاف جدوجہد اور پھر ایک بین الاقوامی معیار کا کینسر اسپتال بنانے، ویلفیئر اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر پوری دنیا میں شوکت خانم کے لیے ڈونیشن اکٹھی کرتے دیکھا، اور ان سب کا فطری نتیجہ تھا کہ وہ ہمارے دلوں میں جگہ بنا کر قومی ہیرو کے درجے پر فائز ہوئے۔
ہر رنگ و نسل اور علاقے کے لوگوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور ان کو عزت دی۔ وہ پوری دنیا میں صف اول کے سیلیبرٹی تھے اور ہم جیسے لاکھوں ان کے فینز تھے۔ سلیبرٹی کے ساتھ نوجوان نسل کی محبت بعض اوقات کس لیول تک جاتی ہے اس کو بیان کرنے میں بھی شرم آتی ہے مگر یہ حقیقت ہے۔
جس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے سامنے میرے ایک جاننے والے نے اپنی 12- 13سال کی بالغ خوبصورت بیٹی کو اس کی ضد کی وجہ سے ایک معروف گلوکار اور سیلبر ٹی سے ہاتھ ملانے اور آٹو گراف لینے کے لیے اپنے کندھوں پر بٹھایا تاکہ اسٹیج پر موجود گلوکار تک اپنی بیٹی کو پہنچا سکے۔ گلوکار نے ہاتھ ملایا، آٹو گراف دیا اور ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبا بوسہ کیا۔
بے غیرتی کے ان لمحات میں باپ بیٹی دونوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا مگر وہ لڑکی خوشی سے پاگل ہو رہی تھی اور باپ کو بار بار "تھینک یو پایا تھینک یو پاپا" کہتی جارہی تھی۔ یہ ایک گلوکار کے ساتھ نوجوان لڑکی کے محبت کا عالم ہے تو قومی ہیرو، کھلاڑی وہ بھی کرکٹ کا، جس کا بخار ہمیشہ اور خاص کر انڈیا کے ساتھ میچوں کے دوران 24 گھنٹے پوری قوم پر چڑھا رہتا ہو اور اگر بندہ عمران احمد نیازی کی طرح مخالف صنف کے لیے جاذب نظر ہو تو فینز کے لیے اس کی حیثیت ہی بڑی پرکشش ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھانے کے لیے میں اپنا واقعہ سناتا ہوں کیونکہ میں بھی کسی زمانے میں عمران نیازی کا فین تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھ رہا تھا خوشحال ہاسٹل کے کامن روم میں ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک میچ ٹی وی پر دیکھ رہے تھے میچ کے دوران عمران کی بال پر چھکا لگنے پر موقع پر موجود میرے ایک دوست ( اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے) جو کپیل دیو کے فین تھے نے عمران نیازی کو گالی دی تو میں نے بے اختیار ان کے منہ پر تھپڑ مارا جس کا افسوس مجھے تاقیامت رہے گا کیونکہ اس دوست نے مجھے کچھ نہیں کہا اور نہ تعلق ختم کیا۔
میرے خیال میں اب تک میں صرف یہ سمجھانے میں کامیاب ہوچکا ہونگا کہ سیلیبرٹی کے لیے ان کے فینز کس حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ تو کہانی ہوئی ان لوگوں کی جنہوں نے ان کو خود کھلاڑی، کپتان، ورلڈ کپ کے فاتح اور ایک سوشل ورکر کی شکل میں دیکھا، مگر نسل نو کی اکثریت نے ان کے بارے میں اپنے بڑوں سے اور کرکٹ کے موجودہ کھلاڑیوں سے سنا اور پہلی بار ان کو بحیثیت سیاسی لیڈر مقروض پاکستان کو چوروں، ڈکیتوں، بدعنوان حکمرانوں سے اقتدار چھننے کے بعد پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزادی دلا کر حقیقی تبدیلی لانے کا کہتے سنا۔ جو ساتھ ہوئے وہ کہیں گے کہ کھیل اور صحت کے میدان میں ان کی کامیابیوں اور حکمران جماعتوں کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہم ان کے ساتھ ہوئے اور کچھ ایسے ہوں گے۔
جنہوں نے کہا ہوگا کہ ہم سیاسی میدان میں آپ کے خیالات اور آپ کے عمل کو دیکھیں گے اور اگر قول و فعل میں مطابقت ہوئی تو ساتھ دینگے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہونگے جو کہیں گے کہ یہ آپ کا کام نہیں، آپ کرکٹ بورڈ کے معاملات میں قوم کی راہنمائی کریں یا ویلفیئر پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔
اب آتے ہیں ان کی سیاست کی طرف یہ مجھ سمیت اکثر پاکستانیوں کے لیے ایک معمہ ہے کہ آیا سیاسی دنگل میں عمران احمد نیازی نے خود چھلانگ لگائی یا کسی اور کے دھکے کے نتیجے میں بادل نخواستہ وارد ہوئے؟ عمران خان نیازی خود مانتے ہیں کہ فطری طور پر ایک شرمیلے اور سیاست سے نابلد بلکہ سیاست کو ناپسند کرنے والے انسان تھے۔
اس لیے یہ بات دل کو زیادہ لگتی کہ کسی اور نے ان کو دھکا دیا ہے خود اپنی مرضی سے سیاست کے پرخار میدان میں نہیں اترے۔ دھکا کس نے دیا کیا یہ واقعی جنرل حمید گل، محمد علی درانی اور منصور صدیقی مرحوم تھے یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے سابقہ سسر گولڈ اسمتھ کے ذریعے دھکا دیا تھا۔
اس پر انشاء اللہ ایک جامع آرٹیکل میں بات کرینگے۔ اور سیاست میں ان کے وارد ہونے کے محرکات کو چھیڑے بغیر آگے چلتے ہیں۔ جب عمران احمد نیازی سیاست میں آئے تو سب سے پہلے نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا اور ان ابتدائی لوگوں میں بذات خود اور بہ نفس نفیس شامل تھا جنہوں نے پاسبان سے وابستگی اور محمد علی درانی بھائی کی دوستی کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا تھا جن دوستوں اور احباب کی اکثریت آج بھی تحریک انصاف میں شامل ہے۔
عمران خان سیاست میں آ تو گئے مگر سیاست کے باقی لوازمات نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی اور شیخ رشید کی طرح عمران خان بھی اکلوتی سیٹ کی پارٹی کی سربراہی پر گزارہ کرتے رہے۔ پھر طاقتور حلقوں کی نظر پڑی، انویسٹر مل گئے اور ایک منظم انداز میں عمران اور تحریک انصاف کی مارکیٹنگ شروع ہوگئی یعنی ضروری لوازمات پورے ہوگئے اور اس طرح وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نااہلیوں سے تنگ اور تبدیلی کے خواہشمند نوجوانوں اور اپنے فینز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
2013ء میں پوری تیاری کے ساتھ عمران خان کو ری لانچ کرکے ان کے سیاسی غبارے میں ہوا بھری گئی اور تجرباتی بنیادوں پر خیبر پختونخوا کو جماعت اسلامی اور صوابی کے "خاندانی جمہوری اتحاد" کے ساتھ مخلوط حکومت بنوا کر عمران خان کے حوالے کیا گیا۔ مرکز اور پنجاب میں ان کے راستے کی ہر رکاوٹ کو جائز و ناجائز طریقے سے ہٹایا گیا، میڈیا، ہر اینکر اور کالم نگار کو مثبت رپورٹنگ کے لیے مجبور کیا گیا۔ 2018 میں آر ٹی ایس زدہ الیکشن میں کامیابی دلائی گئی۔
آزاد ممبران اور چھوٹی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے ایوان اقتدار میں پہنچایا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران نے "ہم ایک پیج پر ہے" کو اپنا روزانہ کا وظیفہ بنایا، اسٹیبلشمنٹ کو بہترین اور جمہوریت پسندی کے القابات سے نوازتے رہے، مگر بدقسمتی سے عمران خان نیازی نے نواز شریف کے حکومتی کارکردگی کا عشر عشیر بھی ڈلیور نہیں کیا، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا اور ہر طرف مایوسی پھیل گئی۔
ان حالات میں جو سہولت کار لے کر آئے تھے وہ اپنی ساکھ بچانے کی خاطر پیچھے ہٹ گئے۔ واضح اور برملا طور پر کہنے لگے کہ ہم سیاسی معاملات میں نیوٹرل رہیں گے، اسٹبلشمنٹ کے نیوٹرل ہوتے ہی زبردستی کے اتحادی چھوڑنے کے لیے پر تولنے لگے۔
(جاری ہے )
تقریباً اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ جو ہوا بہت برا ہوا اور یہ دہشتگردی اور ملک پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کیسے مان لیں کہ اس کا ذمے دار عمران احمد نیازی ہے؟ اور اگر یہ عمران خان کے کہنے کے مطابق ان کے خلاف سازش نہیں تو پھر یہ شرپسند اور بلوائی ان حساس مقامات پر اتنی آسانی اور بلا روک ٹوک کیسے پہنچ گئے اور بلا خوف و خطر سب کچھ جلا کر کیسے وہاں سے نکل گئے؟
میں بذات خود تو اپنے مشاہدات اور اپنی عقل و فہم کے مطابق اس پر مکمل طور پر یکسو اور کلیر ہوں مگر انسان ہوں غلط سوچ سکتا ہوں اس لیے میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مجھے حق سچ اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی بات کو مثبت انداز میں ان سوالات کے جوابات دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور تحریک انصاف کے دوستوں اور محب وطن کارکنان کو اپنی بات سمجھانے کی استطاعت اور ان کو اس پر غور کرنے اور سمجھنے کے بعد اپنی رائے کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہی دعا ہے اللہ میری تحریر کو تمام قارئین کے عام فہم اور دل و دماغ کھولنے کا سبب بنائے اور اس کو میرے نامہ اعمال میں اس طرح لکھ دیں کہ بروز محشر میرے لیے آسانی اور جزا کا سبب بنے۔
میرے خیال میں مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہوگی کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہم سب نے عمران خان کو ایک اچھے اور خوبصورت شرمیلے کھلاڑی، پھر ایک سخت گیر اور خود پسند کپتان، پھر ورلڈ کپ کے فاتح کپتان اور پھر قومی ہیرو کی شکل میں دیکھا۔
ان کی والدہ ماجدہ شوکت خانم کی کینسر کے جان لیوا مرض میں وفات کے بعد ان کو کینسر کے موذی مرض کے خلاف جدوجہد اور پھر ایک بین الاقوامی معیار کا کینسر اسپتال بنانے، ویلفیئر اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر پوری دنیا میں شوکت خانم کے لیے ڈونیشن اکٹھی کرتے دیکھا، اور ان سب کا فطری نتیجہ تھا کہ وہ ہمارے دلوں میں جگہ بنا کر قومی ہیرو کے درجے پر فائز ہوئے۔
ہر رنگ و نسل اور علاقے کے لوگوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور ان کو عزت دی۔ وہ پوری دنیا میں صف اول کے سیلیبرٹی تھے اور ہم جیسے لاکھوں ان کے فینز تھے۔ سلیبرٹی کے ساتھ نوجوان نسل کی محبت بعض اوقات کس لیول تک جاتی ہے اس کو بیان کرنے میں بھی شرم آتی ہے مگر یہ حقیقت ہے۔
جس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے سامنے میرے ایک جاننے والے نے اپنی 12- 13سال کی بالغ خوبصورت بیٹی کو اس کی ضد کی وجہ سے ایک معروف گلوکار اور سیلبر ٹی سے ہاتھ ملانے اور آٹو گراف لینے کے لیے اپنے کندھوں پر بٹھایا تاکہ اسٹیج پر موجود گلوکار تک اپنی بیٹی کو پہنچا سکے۔ گلوکار نے ہاتھ ملایا، آٹو گراف دیا اور ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبا بوسہ کیا۔
بے غیرتی کے ان لمحات میں باپ بیٹی دونوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا مگر وہ لڑکی خوشی سے پاگل ہو رہی تھی اور باپ کو بار بار "تھینک یو پایا تھینک یو پاپا" کہتی جارہی تھی۔ یہ ایک گلوکار کے ساتھ نوجوان لڑکی کے محبت کا عالم ہے تو قومی ہیرو، کھلاڑی وہ بھی کرکٹ کا، جس کا بخار ہمیشہ اور خاص کر انڈیا کے ساتھ میچوں کے دوران 24 گھنٹے پوری قوم پر چڑھا رہتا ہو اور اگر بندہ عمران احمد نیازی کی طرح مخالف صنف کے لیے جاذب نظر ہو تو فینز کے لیے اس کی حیثیت ہی بڑی پرکشش ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھانے کے لیے میں اپنا واقعہ سناتا ہوں کیونکہ میں بھی کسی زمانے میں عمران نیازی کا فین تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھ رہا تھا خوشحال ہاسٹل کے کامن روم میں ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک میچ ٹی وی پر دیکھ رہے تھے میچ کے دوران عمران کی بال پر چھکا لگنے پر موقع پر موجود میرے ایک دوست ( اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے) جو کپیل دیو کے فین تھے نے عمران نیازی کو گالی دی تو میں نے بے اختیار ان کے منہ پر تھپڑ مارا جس کا افسوس مجھے تاقیامت رہے گا کیونکہ اس دوست نے مجھے کچھ نہیں کہا اور نہ تعلق ختم کیا۔
میرے خیال میں اب تک میں صرف یہ سمجھانے میں کامیاب ہوچکا ہونگا کہ سیلیبرٹی کے لیے ان کے فینز کس حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ تو کہانی ہوئی ان لوگوں کی جنہوں نے ان کو خود کھلاڑی، کپتان، ورلڈ کپ کے فاتح اور ایک سوشل ورکر کی شکل میں دیکھا، مگر نسل نو کی اکثریت نے ان کے بارے میں اپنے بڑوں سے اور کرکٹ کے موجودہ کھلاڑیوں سے سنا اور پہلی بار ان کو بحیثیت سیاسی لیڈر مقروض پاکستان کو چوروں، ڈکیتوں، بدعنوان حکمرانوں سے اقتدار چھننے کے بعد پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزادی دلا کر حقیقی تبدیلی لانے کا کہتے سنا۔ جو ساتھ ہوئے وہ کہیں گے کہ کھیل اور صحت کے میدان میں ان کی کامیابیوں اور حکمران جماعتوں کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہم ان کے ساتھ ہوئے اور کچھ ایسے ہوں گے۔
جنہوں نے کہا ہوگا کہ ہم سیاسی میدان میں آپ کے خیالات اور آپ کے عمل کو دیکھیں گے اور اگر قول و فعل میں مطابقت ہوئی تو ساتھ دینگے۔ مگر کچھ ایسے بھی ہونگے جو کہیں گے کہ یہ آپ کا کام نہیں، آپ کرکٹ بورڈ کے معاملات میں قوم کی راہنمائی کریں یا ویلفیئر پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر دکھی انسانیت کی خدمت کریں۔
اب آتے ہیں ان کی سیاست کی طرف یہ مجھ سمیت اکثر پاکستانیوں کے لیے ایک معمہ ہے کہ آیا سیاسی دنگل میں عمران احمد نیازی نے خود چھلانگ لگائی یا کسی اور کے دھکے کے نتیجے میں بادل نخواستہ وارد ہوئے؟ عمران خان نیازی خود مانتے ہیں کہ فطری طور پر ایک شرمیلے اور سیاست سے نابلد بلکہ سیاست کو ناپسند کرنے والے انسان تھے۔
اس لیے یہ بات دل کو زیادہ لگتی کہ کسی اور نے ان کو دھکا دیا ہے خود اپنی مرضی سے سیاست کے پرخار میدان میں نہیں اترے۔ دھکا کس نے دیا کیا یہ واقعی جنرل حمید گل، محمد علی درانی اور منصور صدیقی مرحوم تھے یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے سابقہ سسر گولڈ اسمتھ کے ذریعے دھکا دیا تھا۔
اس پر انشاء اللہ ایک جامع آرٹیکل میں بات کرینگے۔ اور سیاست میں ان کے وارد ہونے کے محرکات کو چھیڑے بغیر آگے چلتے ہیں۔ جب عمران احمد نیازی سیاست میں آئے تو سب سے پہلے نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا اور ان ابتدائی لوگوں میں بذات خود اور بہ نفس نفیس شامل تھا جنہوں نے پاسبان سے وابستگی اور محمد علی درانی بھائی کی دوستی کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا تھا جن دوستوں اور احباب کی اکثریت آج بھی تحریک انصاف میں شامل ہے۔
عمران خان سیاست میں آ تو گئے مگر سیاست کے باقی لوازمات نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی اور شیخ رشید کی طرح عمران خان بھی اکلوتی سیٹ کی پارٹی کی سربراہی پر گزارہ کرتے رہے۔ پھر طاقتور حلقوں کی نظر پڑی، انویسٹر مل گئے اور ایک منظم انداز میں عمران اور تحریک انصاف کی مارکیٹنگ شروع ہوگئی یعنی ضروری لوازمات پورے ہوگئے اور اس طرح وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نااہلیوں سے تنگ اور تبدیلی کے خواہشمند نوجوانوں اور اپنے فینز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
2013ء میں پوری تیاری کے ساتھ عمران خان کو ری لانچ کرکے ان کے سیاسی غبارے میں ہوا بھری گئی اور تجرباتی بنیادوں پر خیبر پختونخوا کو جماعت اسلامی اور صوابی کے "خاندانی جمہوری اتحاد" کے ساتھ مخلوط حکومت بنوا کر عمران خان کے حوالے کیا گیا۔ مرکز اور پنجاب میں ان کے راستے کی ہر رکاوٹ کو جائز و ناجائز طریقے سے ہٹایا گیا، میڈیا، ہر اینکر اور کالم نگار کو مثبت رپورٹنگ کے لیے مجبور کیا گیا۔ 2018 میں آر ٹی ایس زدہ الیکشن میں کامیابی دلائی گئی۔
آزاد ممبران اور چھوٹی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے ایوان اقتدار میں پہنچایا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران نے "ہم ایک پیج پر ہے" کو اپنا روزانہ کا وظیفہ بنایا، اسٹیبلشمنٹ کو بہترین اور جمہوریت پسندی کے القابات سے نوازتے رہے، مگر بدقسمتی سے عمران خان نیازی نے نواز شریف کے حکومتی کارکردگی کا عشر عشیر بھی ڈلیور نہیں کیا، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا اور ہر طرف مایوسی پھیل گئی۔
ان حالات میں جو سہولت کار لے کر آئے تھے وہ اپنی ساکھ بچانے کی خاطر پیچھے ہٹ گئے۔ واضح اور برملا طور پر کہنے لگے کہ ہم سیاسی معاملات میں نیوٹرل رہیں گے، اسٹبلشمنٹ کے نیوٹرل ہوتے ہی زبردستی کے اتحادی چھوڑنے کے لیے پر تولنے لگے۔
(جاری ہے )