سید احتشام حسین کی یاد میں
ترقی پسند تحریک سے وابستہ کچھ نقاد حضرات ماضی کے ادبی سرمائے کو یکسر مسترد کرتے ہیں ۔۔۔
اردو کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ جن صف اول کے ناقدین نے اپنی تنقید نگاری کے ذریعے اس تحریک کے خد و خال واضح کرنے کی کوشش کی ان میں سید احتشام حسین کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت علمی و ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ شاعر، افسانہ نگار، مترجم، سفر نامہ نگار سماجی مورخ اور تنقید نگار مگر ان کی سب سے زیادہ شہرت ان کی تنقید نگاری کی وجہ سے ہوئی جسے اگر ان کی بنیادی شناخت کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
انھوں نے 21 اپریل 1912 کو ہندوستان کے ضلع جونپور میں آنکھ کھولی۔ ان کے جدامجد سید شہاب شہنشاہ جلال الدین اکبر اعظم کے عہد حکمرانی میں ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ 1929 میں جب ان کے والد سید ابوجعفر کی وفات ہوئی تو اس وقت احتشام حسین نویں جماعت کے طالبعلم تھے، 1934 میں انھوں نے ہندوستان کی معروف یونیورسٹی یعنی الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ بڑے خوش نصیب تھے کہ یونیورسٹی میں انھیں ڈاکٹر اعجاز حسین اور فراق گورکھپوری جیسے عظیم استادوں کی رہنمائی اور شفقت میسر آئی جس نے ان کی صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیے۔ 1938 میں ایم۔اے اردو کرنے کے بعد وہ لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے استاد کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے اور ان کا یہ تعلق 1961 تک برقرار رہا۔پھر اس کے بعد وہ الٰہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے جہاں انھوں نے 11سال تک پڑھایا۔ یکم دسمبر 1972 کو الٰہ آباد میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ 1963 میں جب ہمیں اپنے ایک ذاتی کام سے الٰہ آباد جانے کا اتفاق ہوا تو یہ بھی دسمبر ہی کا مہینہ تھا تب ہم نے ان سے شرف ملاقات حاصل کرنے کی غرض سے الٰہ آباد کے ایک گنجان علاقے نخاص میں واقع ان کے در دولت پر حاضری دی تھی جو کہ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گی۔
ہم اگر اپنے اس دورہ الٰہ آباد کو ایک تاریخی دورہ کہیں تو شاید بیجا نہ ہوگا کیونکہ اسی دورے میں ہم نے ہندوؤں کا وہ مقدس مقام بھی دیکھا جہاں گنگا اور جمنا کا ملن ہوتا ہے جسے عرف عام میں سنگم کہتے ہیں۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق دراصل یہ دو نہیں بلکہ تین دریاؤں کا سنگم ہے جس میں تیسرا دریا سرسوتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانی آنکھ اسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اس سنگم پر نہانے کے بعد تمام پاپ (گناہ) دھل جاتے ہیں اور انسان بالکل پاک ہو جاتا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہر 5سال بعد کنبھ کا مشہور میلا لگتا ہے جس میں ہندوستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لاکھوں یاتری (زائرین) اپنے اپنے پاپ دھونے کے لیے اشنان (غسل) کرتے ہیں۔ ہماری ایک خواہش یہ بھی تھی کہ اپنے دورہ الٰہ آباد میں ہندوستان کے ممتاز فلم ایکٹر امیتابھ بچن کے پتا جی ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن جی سے بھی شرف باریابی حاصل کرتے جو ہندی زبان کے منفرد لب و لہجے کے کوی (شاعر) تھے اور جن کا ترنم بے مثل تھا اور جنھوں نے عمر خیام کی رباعیات کا ہندی میں نہایت خوبصورت منظوم ترجمہ کیا ہے مگر افسوس کہ وہ ان دنوں الٰہ آباد میں موجود نہیں تھے جس کے باعث ہماری یہ خواہش ناتمام ہی رہ گئی البتہ الٰہ آباد میں واقع ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم اور کانگریس کے سرکردہ رہنما پنڈت جواہر لعل نہرو کے دولت کدہ ''آنند بھون'' کو دیکھنے کی ہماری دیرینہ آرزو ضرور پوری ہوگئی۔
اردو کے ترقی پسند نقادوں کی فہرست میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، مجنوں گورکھپوری، آل احمد سرور، ڈاکٹر عبدالعلیم، اختر انصاری، عزیز احمد، ممتاز حسین اور سردار جعفری جیسے معروف لوگوں کے اسمائے گرامی شامل ہیں مگر احتشام حسین کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی متوازن فکر ہے۔ ان کا عالمانہ انداز ان کا خاص وصف ہے۔ ادب کے علاوہ انھیں دیگر علوم مثلاً تاریخ، سیاسیات، عمرانیات اور اقتصادیات سے بھی گہرا شغف تھا جس کا عکس ان کی تحریروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مارکسزم اور جدلیات سے بھی ان کی دلچسپی بہت گہری تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ: ''میں ادب کو زندگی کے تمام شعور کا ایک حصہ سمجھتا ہوں جس میں طبقاتی رجحانات سانس لیتے اور تمدن کے مظاہر پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نہ قدیم ادب میں سب کچھ اچھا ہے اور نہ جدید ادب میں سب کچھ برا، نہ پرانے ادب میں خرابیاں ہیں اور نہ نئے ادب کا ہر لفظ قابل تعریف بلکہ جس طرح پرانے ادب میں مواد اور صورت کے میل سے پرانے مرقعے تیار ہوئے ہیں اسی طرح نئے ادب میں بھی الفاظ اور خیالات کی مدد سے دل کی بات کہی جاتی ہے۔''
ان کے مندرجہ بالا خیالات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ احتشام حسین تنقید کے حوالے سے زمانی حدود کے زیادہ قائل نہیں ہیں۔ ان کے یہاں عملی اور نظری دونوں طرح کی تنقید کے نمونے ہمیں ملتے ہیں۔ ادبی شخصیت پر نظری نظریات کا اطلاق کرتے ہوئے وہ نظیر اکبر آبادی کی مثال پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ''نظیر کی شاعری میں انسان ایک زندہ اور متحرک، حساس اور مادی اسباب سے مسرور ہو جانیوالی مخلوق کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ''آدمی نامہ'' میں انھوں نے مفلس عوام کے زخم پر مرہم لگانے کی کوشش کی ہے''۔
بعض تذکرہ نویسوں نے نظیر اکبر آبادی کے ساتھ اس حد تک زیادتی کی ہے کہ انھیں شاعر ماننے سے ہی انکار کردیا ہے لیکن احتشام صاحب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ نظیر کے پرجوش مداح ہیں اور وہ نظیر کی شاعری کو تحسین و ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ کچھ نقاد حضرات ماضی کے ادبی سرمائے کو یکسر مسترد کرتے ہیں جس کا سبب وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ ادب سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ عہد میں تخلیق ہو رہے ہیں مگر احتشام حسین کا رویہ اس سے بہت مختلف ہے مثال کے طور پر ان کے مضمون بعنوان ''لکھنو ۔ ادبی مرکز'' سے درج ذیل اقتباس پیش ہے: ''غدرکے بعد لکھنو پر جو تباہی آئی وہ گو بظاہر ایک حکومت کے خاتمے کی صورت میں نمایاں ہوئی لیکن اصلاً اس تہذیب پر بھی اس کی گہری چوٹ پڑی جو سکون، فرصت، فارغ البالی اور خوشحالی چاہتی تھی۔ اسی لیے فوراً ہی اس کا تضاد نمایاں ہوگیا اور گوداستانوں نے جو طلسم باندھا اس میں اسی عہد فراغت کی تصویریں نگاہوں کے سامنے آتی ہیں جو غدر سے پہلے تھا لیکن اس کے مٹتے ہوئے اور ملمع اترے ہوئے نقوش سرشار کے ''فسانہ آزاد'' میں نظر آتے ہیں۔ غدر کے بعد لکھنو نے سرشار، نولکشور پریس، اودھ پنج اور شرر کو پیدا کرکے اپنی مرکزیت برقرار ہی نہیں رکھی بلکہ اس میں تخلیقی اضافہ کیا اور کئی راہوں پر ملک کی ادبی زندگی کی رہنمائی کی۔''
احتشام حسین نے اپنے اسی نوع کے ایک اور مضمون ''خوجی۔ایک مطالعہ'' میں آزاد اور خوجی کے حوالے اپنے مخصوص تجزیاتی انداز میں ماضی کے تہذیبی تناظر کی بازیافت نہایت عمدگی سے کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
''آزاد اور خوجی دونوں مل کر اس وقت کی زندگی کی تصویر بناتے ہیں۔ سرشار نے ایک ہی کردار کے دو ٹکڑے کردیے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے عقبی زمین کا کام دیتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔''
احتشام حسین کے مضامین سے لیے گئے مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ماضی کے تہذیب و تمدن کے زیر اثر تخلیق ہونیوالے ارباب کے محاسن و مصائب کا کھوج لگا کر ان کا بے لاگ تجزیہ کرتے ہیں اور مصائب کی وجہ سے پوری تہذیب اور اس سے وابستہ تخلیقی سرمائے کو یکسر رد نہیں کرتے بلکہ اس کے محاسن کی تعریف و تحسین بھی کرتے ہیں۔
احتشام حسین ایک ہمہ صفت اور ہمہ جہت نقاد تھے۔ انھوں نے ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھیں بیشتر ترقی پسند ناقدین نے کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ ان کے نزدیک تنقید ایک مقدس فریضہ ہے اور یہ محض تعریف و توصیف یا محض تنقیص یا عیب نکالنے کا نام نہیں ہے۔