زرعی پسماندگی
حکومت کو ملک کے زرعی شعبے کی پسماندگی کی اصلاح کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ہونگے
پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ زراعت پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ 21 تا22 فیصد تک رہتا ہے۔ ملکی آبادی کا 70 فیصد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جس کی وجہ سے ان افراد کا براہ راست یا بالواسطہ طور پر انحصار زراعت پر ہی رہتا ہے۔ ملکی صنعتی ترقی کے لیے خام مال شعبہ زراعت سے ہی حاصل ہوتا ہے، پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد شعبہ ٹیکسٹائل پر مشتمل ہے اور ٹیکسٹائل کی صنعت کا انحصار کپاس کی پیداوار پر ہے۔ پاکستان خام کپاس برآمد کرنیوالا ایک بڑا اہم ملک بھی ہے۔ ملک میں چینی کی پیداوار کا انحصار گنے کی فصل پر ہے۔ جس سال گنے کی پیداوار اچھی ہوجاتی ہے تو چینی کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ ملک میں چینی کی قلت کا خدشہ نہیں پیدا ہوتا اور چینی کی قیمت مستحکم رہتی ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس کے تمام شعبے تاحال ترقی پذیر حالت میں ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے شعبہ زراعت کو جدید بنیادوں پر ترقی دی جائے اور اس شعبے میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے۔
ضروری ہے کہ زرعی زمینوں کو ان کی ضرورت کے مطابق سیراب کرنے کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ہر سال فصلوں کی پیداوار اٹھاتے وقت یہی مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ فصلوں کو ضرورت کے مطابق پانی مہیا نہیں کیا جاسکا کیونکہ دریاؤں میں پانی کی روانی کم ہے۔ مختلف ڈیمز میں پانی کی مقدار کم ہے۔ پن بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نہروں میں پانی کم چھوڑا جاسکا ہے جس کی وجہ سے زرعی زمینوں کو مناسب مقدار میں پانی فراہم نہیں ہو پایا چونکہ بجلی کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے لہٰذا لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافے کے باعث دیہی علاقوں میں ٹیوب ویلوں کے چلنے کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے زرعی زمینوں کو مناسب مقدار میں سیرابی ممکن نہیں رہتی۔ کھاد مناسب مقدار میں نہیں دیا جاتا کیونکہ حکومت کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کو کنٹرول نہیں کر پاتی اسی طرح کیڑے مار ادویات بھی اپنی اصل قیمت سے کہیں زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے، کسانوں کو بیج بھی ناقص دستیاب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حکومت سے شاکی رہتے ہیں۔
فی ایکڑ پیداوار بھی کم حاصل ہوتی ہے جب کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بھر میں فصلوں کی بھرپور پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔ مختلف اجناس کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے کہیں دگنی اورکہیں اس سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان اپنی فصلوں کی بابت فی ایکڑ پیداوار میں عالمی معیار تک نہیں پہنچ سکا اسی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 22 فیصد زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے جوکہ ایک زرعی ملک جہاں لہلہاتے کھیت ہوں، محنت کش اور جفاکش کسان ہوں، دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام ہو، لیکن فی ایکڑ زرعی پیداوار دیگر ترقی پذیر ملکوں کی نسبت کم ہی رہتی ہے۔ملک کا محکمہ زراعت صوبائی سطح پرکاشتکاروں زمینداروں کو زراعت سے متعلق ہر قسم کی معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ بعض اوقات مختلف اقسام کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
محکمہ زراعت بہتر فصلوں کے حصول کے لیے ضروری اقدامات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ کن فصلوں کو کن کن اوقات میں پانی دیا جائے۔ فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے انھیں کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے اور کیڑے مار ادویات وغیرہ کے بارے میں معلومات بہم پہنچانا ہوتا ہے لیکن اس قسم کی شکایات عام موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کہیں تو متعلقہ محکمہ اپنی کارکردگی کچھ نہ کچھ دکھاتا ہے اور کہیں اس محکمے کی کارکردگی بالکل صفر ہوتی ہے۔ کہیں زیر کاشت رقبے کو ضرورت سے زیادہ پانی فراہم کردیا جاتا ہے جس سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے پیداوار متاثر ہوتی ہے اور زرعی زمین بتدریج سیم زدہ ہوجاتی ہے اور کہیں زیر کاشت فصلوں کو ان کی ضرورت سے کم اور کہیں بالکل بھی پانی نہیں ملتا جس سے پیداوار بہت کم حاصل ہوتی ہے۔ ضرورت سے کم پانی ملنے کے باعث زمین تھور زدہ ہوکر رہ جاتی ہے لہٰذا یہ محکمہ زراعت کا کام ہے کہ وہ ان تمام امور کو مدنظر رکھے کہ کس طرح پانی ادویات کھاد وغیرہ کتنی مقدار میں اور کب کب دی جائے کہ زمین سے پیداوار بھی زیادہ حاصل ہو زمینیں سیم و تھور زدہ بھی نہ ہوجائیں۔ زمینوں کی زرخیزی بھی برقرار رہے۔
اگر شعبہ زراعت پر بھرپور توجہ دی جائے اسے پوری اہمیت دی جائے اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی جائے تو اس کے نتیجے میں زرعی شعبے میں روزگار کے وسیع مواقعے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس وقت کل جمعیت محنت کا43 سے 44 فیصد شعبہ زراعت سے وابستہ ہے لیکن اس شعبے میں مستور بیروزگاری بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے مثال کے طور پر 5 ایکڑ کی زرعی اراضی پر 5 افراد کام کرکے بھرپور پیداوار حاصل کرسکتے ہیں لیکن خاندان کے دیگر افراد چونکہ بیروزگار ہوتے ہیں گھرانا بڑا ہوتا ہے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لہٰذا اسی قطعی اراضی پر 10 افراد کام کر رہے ہوتے ہیں اب ان میں سے 5 افراد کو مستور(مخفی) بیروزگاری کے زمرے میں سمجھا جائے گا کیونکہ ان کے بغیر بھی اس قطعی زمین کا کام چل سکتا تھا۔
ان 5 افراد کے بغیر بھی اتنی ہی پیداوار حاصل ہو رہی تھی لہٰذا پاکستان میں بیروزگاری کا مسئلہ اس وقت مزید گمبھیر ہو جائے جب دیہی علاقوں سے مستور بیروزگاری کو ختم کردیا جائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کا زرعی شعبہ اتنا توانا ہو جائے زرعی پیداوار بھی بھرپور طریقے سے حاصل ہونے لگے کہ زراعت پر مبنی صنعتیں خوب ترقی کریں، جہاں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں، ملکی برآمدات اور صنعتی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہو جس سے بیروزگاروں کی بڑی تعداد کو کھپانا ممکن ہوسکے۔ زرعی شعبے کی پسماندگی سے زراعت پر مبنی صنعت بھی پسماندہ رہتی ہے۔ ملکی صنعتی ترقی میں زراعت بھی بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اگر ملک کا زرعی شعبہ ترقی کر رہا ہو تو زراعت کی ترقی کے لیے جن اشیا کی ضرورت ہوتی ہے ان کی کھپت میں اضافہ ہو اور کھپت پوری کرنے کے لیے صنعتوں کو پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے ان اشیا کی طلب بڑھ سکتی ہے یعنی مشینیں، ٹریکٹر، کیمیاوی کھادیں، کیڑوں مکوڑوں کو مارنے کے لیے ادویات، ٹیوب ویل، کاشتکاری کے آلات، تھریشر مشین اور دیگر کئی اقسام کے آلات یہ سب صنعتیں فراہم کرتی ہیں اور ان آلات وغیرہ کی پیداوار میں اضافے کا انحصار زرعی ترقی پر ہے۔ اگر زرعی شعبہ پسماندہ رہ جائے گا تو اس کے منفی اثرات صنعتی ترقی پر بھی مرتب ہونگے۔
پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں ٹیکسٹائل مصنوعات میں تخصیص حاصل ہونے کی وجہ کپاس کی پیداوار پر ہے۔ ملک میں کپاس کی بہتر پیداوار حاصل ہونے کی بنا پر ملک کی ٹیکسٹائل مصنوعات دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں ارزاں قیمت پر فراہم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا انحصار زرعی شعبے کی ترقی پر ہے۔ اگر کپاس کے حصول کے لیے کپاس کی زیادہ پیداوار کے لیے زمینوں کو پانی بہترین بیج اور دیگر لوازمات فراہم کیے جائیں جب ہی جاکر بہترین فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے پیداواری لاگت کا بھی بہت خیال کرنا پڑتا ہے اگر کپاس کی پیداوار کے پہلے مرحلے میں ہی ان پٹس کی لاگت بڑھ جائے تو کاشتکار مناسب معاوضہ نہ ملنے کی صورت میں کپاس کی فصل اگلے سال کم بوئیں گے کیونکہ انھیں نقصان محسوس ہو رہا ہوگا۔ اسی طرح گندم کی پیداوار کے لیے جتنے جتن کیے جاتے ہیں اگر اس کے نتیجے میں اخراجات زیادہ آرہے ہوں اور کسان یہ سمجھ رہے ہوں کہ ان کو معاوضہ پورا نہیں مل رہا ہے تو آیندہ سال کے لیے گندم کے کاشت کے رقبے میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ زرعی شعبے کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ درمیانی افراد کا کردار بھی ہوتا ہے۔ یہ افراد مختلف کاروباری طبقے کے بھیس میں کاشتکاروں اور کسانوں کا مسلسل استحصال کر رہے ہوتے ہیں۔فصل کو اونے پونے دام خرید لیا جاتا ہے۔ کہیں کسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر فصل کی سرکاری قیمت خرید نہیں دی جاتی بلکہ کسان کو کم ریٹ پر فصل کو بیچنے کا کہا جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر کسان ہمیشہ ہی پسماندہ رہتا ہے۔
حکومت کو ملک کے زرعی شعبے کی پسماندگی کی اصلاح کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ہونگے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسان کاشتکار کو اپنی فصل کی مناسب اور صحیح قیمت حاصل ہو۔ انھیں جو بیج مہیا کیے جاتے ہیں وہ کسی طور پر ناقص نہ ہوں۔ کھاد وغیرہ کی جو بھی قیمت مقرر کی جاتی ہے اسی اصل قیمت پر دستیاب ہو۔ زرعی شعبے کو پسماندگی سے نکالے بغیر ملک میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں استحکام نہیں لایا جاسکتا۔ کبھی آلو کی قیمت بڑھ جاتی ہے کبھی پیاز کی قیمت کبھی گندم کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی چینی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے، حکومت مصنوعی طریقے سے ان مسائل کا حل نکالنے میں مصروف ہوجاتی ہے جب کہ درمیانی تاجر ذخیرہ اندوز اور دیگر افراد اصل فوائد سمیٹ لیتے ہیں اور ملک کا ہاری کسان ہمیشہ پسماندہ ہی رہتا ہے لہٰذا زرعی شعبے کی پسماندگی دور کرنے سے زراعت پر مبنی صنعت کو بھی ترقی حاصل ہوگی۔ زرعی اجناس کی قیمتوں کو بھی استحکام حاصل ہوگا۔ زرعی شعبے کی ترقی سے ملکی صنعتوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع حاصل ہونگے اور ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔