کراچی کو بچایا جائے…
کراچی میں عام آدمی کیلئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ قتل وغارت کی اکثر وارداتوں کے مرتکب’نامعلوم‘ کیوں رہتے ہیں؟
وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی 5بہنیں تھیں۔ ابھی وہ 20 سال کا ہی تھا کہ اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ایک دن آفس میں کام کرتے ہوئے اس کے ادھیڑ عمر والد پر فالج کا اٹیک ہوا اور وہ مستقل طور پر بیڈ ریسٹ پر ہو گئے۔اس کے بعد پورے گھر کی ذمے داری سمیع اللہ کے ناتواں کندھوں پرآگئی۔ اسے اپنی پڑھائی کوخیرباد کہنا پڑا۔ روزگار کے سلسلے میں وہ دردر کی خاک چھانتا رہا، لیکن اسے ہر جگہ سے دھتکار دیا گیاپھرایک دن ایک رحم دل شخص کو اُس پر رحم آہی گیا۔ اُس نے سمیع اللہ کو میٹرک بورڈ آفس کے قریب واقع اپنے اسٹور میں ملازمت دے دی۔ یوں زندگی کی گاڑی ایک ڈگر پر آگئی۔ ان کے گھریلو حالات پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوئے۔ایک دن حسب معمول سمیع اللہ اپنی شاپ میںکام کر رہا تھا کہ کچھ لوگ موٹر سائیکل پر آئے اور اندھادھند گولیاں برساکر چلتے بنے۔یوں سمیع اللہ( جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا) کی زندگی کا چراغ بجھادیا گیا۔پولیس آئی، رپورٹ درج کی، اس کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑے کرنے کے دعوے کیے گئے،مگر عملی طور پر کوئی بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔
یوں تو کراچی ایک طویل عرصے سے خوفناک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، قتل و غارت، بھتا خوری اور اسٹریٹ کرائم اب اس شہر کی پہچان ہیں۔ سیاسی مخالفین کو موت کی نیند سلاکر ہمیشہ کے لیے اُنہیں چُپ کرانا معمول بن چکاہے۔ بدامنی کی بڑھتی وارداتوں اور صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک ہزاروں شہری دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ صرف 2013 کے دوران کراچی میں 2600 سے زاید افراد ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور پر تشدد واقعات میں موت کے گھاٹ اتارے گئے جب کہ 2014 کا آغاز بھی اس شہر ِناپرساں کے لیے امید کی کوئی کرن نہ لاسکا۔رواں سال کی ابتدائی سہ ماہی میں بھی پر تشدد واقعات میں تیزی ریکارڈ کی گئی۔اس دوران500 کے لگ بھگ افراد مارے جاچکے ہیں لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے اس صورتحال کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر میں عام آدمی کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ قتل و غارت کی اکثر وارداتوں کے مرتکب'نامعلوم' کیوں رہتے ہیں؟ قاتل انسانی خون سے ہولی کھیلنے کے بعد کہاں روپوش ہوجاتے ہیں؟ مقتولین کی روحیں شہر کی فضاؤں میں مدتوں اپنے لہو سے تر ہاتھوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ نامعلوم قاتلوں کا سراغ لگانا جن محکموں اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے وہ کیا کررہی ہیں؟ دہشتگردی کی لرزہ خیزوارداتیں عام شہری کی ذہنی، نفسیاتی اور اعصابی شکست و ریخت کا باعث بن رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رینجرز اور پولیس کے ہائی الرٹ ہونے کے باوجود ٹارگٹ کلرز قتل و غارت میںکیسے کامیاب ہورہے ہیں۔ ہر بار وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ سندھ بدامنی پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہیں، کیا اس کے بعد ان کی ذمے داری ختم ہو جاتی ہے؟ یقینا اس ناکامی میں جہاں دہشتگردوں کا کردار ہے، وہاں خود حکومتی پالیسیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ن لیگ کی حکومت برسر اقتدار آئی توقوم کو امید تھی کہ یہ دہشت گردی، مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے گی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف خود کراچی آئے اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ بیٹھ کر کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے اور دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب اس آپریشن کو شروع ہوئے بھی 5 ماہ مکمل ہوچکے ہیں لیکن شہر قائد میں آج بھی دہشتگرد اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دن دہاڑے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
یہاں تو حال یہ ہے کہ سندھ حکومت ہائی پروفائل مقدمات کی سماعت کراچی میں جاری نہیں رکھ سکتی۔ اہم کیسوں کی سماعت دوسرے شہروں میں منتقل کی جارہی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی اہم مقدمے کے وکلاء اور گواہان کو تحفظ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں سے عوام کی وابستہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے کراچی کے معاملے پر ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی سنگین خطرات کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ اگر حالات یونہی رہے تو حکومت کے لیے اپنی رٹ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ ان دگرگوں حالات میں اپوزیشن جماعتیں بھی زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہیں۔ کوئی جماعت دوسری جماعت کی مخالفت اس لیے نہیں کررہی کہ اس کی حکومت کو غیر مستحکم نہ کردیا جائے۔ سب کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوجائیں، کوئی بھی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز نہیں اٹھا رہا۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ شہریوں کو بے یار و مددگار چھوڑدیا گیا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاست اور جرم دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، جو سیاسی جماعتیں مجرموں اور ٹارگٹ کلرز کو مدد فراہم کررہی ہیں ان کی نہ صرف نشان دہی ہونی چاہیے، بلکہ انھیں قانون کی گرفت میں لانا بھی ضروری ہے۔ شہر بے اماں کو مقتل بننے سے بچانے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دینا ہوگا۔ شہر کو ہائی جیک کرنے والے عناصر کا موثر انداز میں قلع قمع کے بغیر امن کی امید رکھنا عبث ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کردینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ گزشتہ 5 سال کے دوران کراچی میں 8 ہزار سے زاید شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ ان مظلوموں کا خون تقاضا کرتا ہے کہ قاتلوں کو تلاش کیا جائے، ان پر کھلی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کراچی کو بچانا ہے تو قانون کے نفاذ میں کسی سے بھی رعایت نہ برتی جائے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کیا جائے تو شہر قائد دوبارہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، بصورت دیگر دہشت گرد اسی طرح دندناتے، شہریوں کو قتل کرتے رہیں گے اور حکومت بے بسی سے تماشا دیکھتی رہے گی۔