معیشت اور خودکفالت کی منزل
امید ہے موجودہ صورتحال سے بھی ڈیل کریں گے، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہماری ٹیم نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے کام مکمل کر لیا ہے، امید ہے موجودہ صورتحال سے بھی ڈیل کریں گے، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بیرونی فنانسنگ کا ہے اور اس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی کو ایل سیز جیسے مسائل کا سامنا ہے، اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔
بلاشبہ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے جس کے لیے پی ڈی ایم حکومت خلوص نیت سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن زمینی حقائق کے مطابق معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر تو بہت کٹھن اور طویل ہے، بہتری ہوگی تو ہم مضبوط معیشت کی طرف جائیں گے۔ ڈالر کو قابو میں لائے بغیر، اس کی اسمگلنگ روکنے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی۔
اس وقت تک بہتری نہیں ہو سکتی۔ حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کردے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا۔
ادھر ایسا لگتا ہے کہ ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو رہی۔ آج آئی ایم ایف کہ شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالر کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی در حقیقت موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان خاصے مشکل حالات سے دوچار ہے، معیشت کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، سیاسی دھینگا مشتی اور عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اس کا اثر انتظامیہ پر بھی پڑا ہے، اگر ہماری تمام حکومتوں نے وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا، آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی، ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجی کاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اشرافیہ ڈالرز باہر بھیج رہے ہیں لیکن اپنی مارکیٹ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ کیوں خود کفیل ہونے کے لیے پالیسی نہیں بناتے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی، اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے اور کاروباری شخصیت کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارما سیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔ پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔ملک میں اس وقت حکومتوں کی بے بسی اور آئی ایم ایف کے سامنے لیٹنے سے عوام کا رگڑا نکل چکا ہے، ملکی معیشت کو چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے اور سرمایہ حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس نہ ایکسپورٹس ہیں اور نہ ہی انڈسٹری چل رہی ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ جب کمائی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہوگا تو سوائے قرضہ لینے کے کوئی حل موجود نہیں ، تنقید کر لینا بہت آسان ہے۔ ان حالات میں تنقید کرنے والے بھی بے قصور اور تنقید کا نشانہ بننے والے بھی بے قصور، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر قصور وار کون ہے اور ان حالات سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت عوام مہنگائی کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں، سفید پوش اپنا بھرم قائم رکھنے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں ، ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام بے یقینی اور مایوسی کی صورتحال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران، بیوروکریٹس، اشرافیہ، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، اعلیٰ سول افسران کی غیرمعمولی تنخواہیں اور مراعات کا بوجھ اپنی جگہ قائم ہیں۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بہرحال ہم بہت سا وقت اور سرمایہ ضایع کر چکے ہیں۔
حکومت آج بھی کمزور آمدن والے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے راستے نکالتی نظر آتی ہے، جو لوگ زیادہ کماتے ہیں جن کے وسائل زیادہ ہیں حکومت ان سے ٹیکس لینے کے بجائے مالداروں کو سہولیات فراہم کرنے اور حکومتیں کم آمدن والے افراد پر مسلسل بوجھ ڈالتے رہنے کی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ آج بھی یہی منصوبہ بندی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے۔
ستم ظریفی ہے عالمی مالیاتی اداروں کو یاد کروانا اور زور دینا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس پر ٹیکس لگنا چاہیے اور کس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے۔ پاکستان، بہترین زرعی ملک ہے لیکن اس صلاحیت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا، لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے لیکن ہر دوسری چیز امپورٹ کرنے پر توجہ ہے، اتنے بڑے ملک میں بہتر امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی نہ ہو، تو ہم کب تک بچ سکتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ آج ہم کھانے پینے کی اشیا بھی باہر سے منگواتے ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقتور بنایا جاسکتا ہے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔
بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کردیا جائے، عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت سے ترقی میں اہم پیش رفت ہوسکتی ہے، جب کہ پٹرولیم مصنوعات پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے اگر بہتر اقدامات کر لیے جائیں تو ملک میں خود کفالت کی منزل کو پانا آسان ہوجائے گا۔
ڈالر کی اڑان اس وقت تک قابو میں نہیں آئے گی، جب تک ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو نہیں پایا جائے گا اور اس وقت تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ہر وقت قرض لینا یا اس کے لیے یقین دہانیوں کا بندوبست کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا، ہمیں ان حالات سے نکلتے ہوئے خود مختاری کی طرف جانا ہے۔ کمزور پاکستانی تو ہر دور میں قربانی دیتا رہا ہے، یہ وقت ہے کہ مالدار طبقات ملک اور قوم کے لیے قربانی دیں، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
بلاشبہ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے جس کے لیے پی ڈی ایم حکومت خلوص نیت سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن زمینی حقائق کے مطابق معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر تو بہت کٹھن اور طویل ہے، بہتری ہوگی تو ہم مضبوط معیشت کی طرف جائیں گے۔ ڈالر کو قابو میں لائے بغیر، اس کی اسمگلنگ روکنے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی۔
اس وقت تک بہتری نہیں ہو سکتی۔ حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کردے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا۔
ادھر ایسا لگتا ہے کہ ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو رہی۔ آج آئی ایم ایف کہ شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالر کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی در حقیقت موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان خاصے مشکل حالات سے دوچار ہے، معیشت کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، سیاسی دھینگا مشتی اور عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اس کا اثر انتظامیہ پر بھی پڑا ہے، اگر ہماری تمام حکومتوں نے وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا، آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی، ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجی کاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اشرافیہ ڈالرز باہر بھیج رہے ہیں لیکن اپنی مارکیٹ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ کیوں خود کفیل ہونے کے لیے پالیسی نہیں بناتے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی، اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے اور کاروباری شخصیت کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارما سیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔ پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔ملک میں اس وقت حکومتوں کی بے بسی اور آئی ایم ایف کے سامنے لیٹنے سے عوام کا رگڑا نکل چکا ہے، ملکی معیشت کو چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے اور سرمایہ حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس نہ ایکسپورٹس ہیں اور نہ ہی انڈسٹری چل رہی ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ جب کمائی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہوگا تو سوائے قرضہ لینے کے کوئی حل موجود نہیں ، تنقید کر لینا بہت آسان ہے۔ ان حالات میں تنقید کرنے والے بھی بے قصور اور تنقید کا نشانہ بننے والے بھی بے قصور، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر قصور وار کون ہے اور ان حالات سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت عوام مہنگائی کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں، سفید پوش اپنا بھرم قائم رکھنے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں ، ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام بے یقینی اور مایوسی کی صورتحال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران، بیوروکریٹس، اشرافیہ، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، اعلیٰ سول افسران کی غیرمعمولی تنخواہیں اور مراعات کا بوجھ اپنی جگہ قائم ہیں۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بہرحال ہم بہت سا وقت اور سرمایہ ضایع کر چکے ہیں۔
حکومت آج بھی کمزور آمدن والے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے راستے نکالتی نظر آتی ہے، جو لوگ زیادہ کماتے ہیں جن کے وسائل زیادہ ہیں حکومت ان سے ٹیکس لینے کے بجائے مالداروں کو سہولیات فراہم کرنے اور حکومتیں کم آمدن والے افراد پر مسلسل بوجھ ڈالتے رہنے کی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ آج بھی یہی منصوبہ بندی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے۔
ستم ظریفی ہے عالمی مالیاتی اداروں کو یاد کروانا اور زور دینا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس پر ٹیکس لگنا چاہیے اور کس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے۔ پاکستان، بہترین زرعی ملک ہے لیکن اس صلاحیت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا، لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے لیکن ہر دوسری چیز امپورٹ کرنے پر توجہ ہے، اتنے بڑے ملک میں بہتر امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی نہ ہو، تو ہم کب تک بچ سکتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ آج ہم کھانے پینے کی اشیا بھی باہر سے منگواتے ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقتور بنایا جاسکتا ہے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔
بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کردیا جائے، عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اور خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت سے ترقی میں اہم پیش رفت ہوسکتی ہے، جب کہ پٹرولیم مصنوعات پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے اگر بہتر اقدامات کر لیے جائیں تو ملک میں خود کفالت کی منزل کو پانا آسان ہوجائے گا۔
ڈالر کی اڑان اس وقت تک قابو میں نہیں آئے گی، جب تک ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو نہیں پایا جائے گا اور اس وقت تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ہر وقت قرض لینا یا اس کے لیے یقین دہانیوں کا بندوبست کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا، ہمیں ان حالات سے نکلتے ہوئے خود مختاری کی طرف جانا ہے۔ کمزور پاکستانی تو ہر دور میں قربانی دیتا رہا ہے، یہ وقت ہے کہ مالدار طبقات ملک اور قوم کے لیے قربانی دیں، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔