بظاہر اپنے ہدف سے دور ہو گئے

اداروں نے زیادتیاں کی ہیں لیکن موجودہ فوجی قیادت غلطیوں کی تلافی کرکے ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتی ہے

gfhlb169@gmail.com

سید مودودی نے کہا تھا کہ کوئی بھی فرد جس لمحے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا شروع کر دیتا ہے، عین اسی لمحے اس کا رب اسے گھٹانا شروع کر دیتا ہے کیونکہ صرف اور صرف وہ خود ہی بڑا ہے۔

9 مئی 2023 کو جناب عمران خان صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک میں بڑے پیمانے پر جلاؤ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنان یہ نہیں کر سکتے۔

سیاست میں مزاحمت اور احتجاج لازم و ملزوم ہے۔سیاسی رہنما اپنے کارکنان کو اس کی تربیت دیتے ہیں۔ہر سیاسی جماعت کو یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی ظلم اور زیادتی کے خلاف سینہ سپر ہو اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے لیکن کسی مہذب معاشرے میں یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا کہ وہ جلاؤ گھیراؤ اور دہشت گردی پر اتر آئے۔

حکومت کے خاتمے سے لے کر اب تک ایک سال سے کچھ اوپر ہو چکا ہے، اس سارے عرصے میں پی ٹی آئی کے طرزِ عمل پر سوالیہ نشان رہا ہے۔حکومت میں آنے سے قبل بھی ڈی چوک دھرنے کے دوران اس جماعت کے کارکنوں نے اپنے رہنماؤں کی ایماء پر پاک سیکریٹریٹ،پی ٹی وی،وزیرِ اعظم ہاؤس اور آخر کار پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔جناب عمران خان اپنی جدو جہد پر بھروسہ کرنے کے بجائے ایمپائر کی انگلی اُٹھنے کا انتظار کرتے رہے اور یہ سب اس وقت ہوا جب چین کے صدر پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے۔آخر کار یہ اہم دورہ ملتوی ہو گیا۔

پچھلے سال مئی اسلام آباد پر چڑھائی کرنے آئے تو ان کے لوگوں نے اسلام آباد شہر کے امن کو تہہ و بالا کرتے ہوئے مختلف مقامات پر آگ لگائی۔یہ طرزِ عمل مناسب نہیں۔ ویسے تو ہمارے ہاں پاکستان میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت نہیں۔ سیاسی جماعت کے پاس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پروگرام اور پالیسیاں ہوتی ہیں۔

پارٹیوں کے مابین اس بات پر مقابلہ ہوتا ہے کہ کون سی پارٹی عوام کو اپنے منشور کی طرف راغب کر پاتی ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایک بھی ایسی پارٹی نہیں۔ہمارے ہاں موجودہ پارٹیاں دراصل انتخابی گروہ ہیں جن کے پاس انتخاب جیتنے کے علاوہ کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔پی ٹی آئی بھی ایسی ہی ایک پارٹی ثابت ہوئی۔حکومت سنبھالنے کے بعد پونے چار سالوں میں ملک کی ترقی اورعوام کی فلاح و بہبود کا کوئی پروگرام سامنے نہیں آیا۔

جناب عمران خان ایک بہت ہی باصلاحیت فرد اور رہنماء ہیں۔ سیاست میں ان کی انٹری تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا لیکن پندرہ سولہ سال اپنے بل بوتے پر وہ سیاسی میدان میں کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔جب جناب نواز شریف کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو جناب عمران خان کو نوازشریف کی جگہ چن لیا گیا۔

عمران خان اس کے باوجود کامیاب نہ ہوئے تو سپریم کورٹ نے ثاقب نثار کی قیادت میں نواز شریف کو تاحیات نا اہل کر کے جناب عمران خان کے لیے میدان بالکل صاف کردیا۔ پھر بھی 2018میں انتخابات کے نتائج عمران خان کے لیے اچھے نہیں تھے۔یہاں تک آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کرجناب عمران خان کو الیکشن جتوانا پڑا۔یعنی جناب عمران خان کا اپنا سحر،اپنی سیاست پھر بھی کام نہ آئی تھی ۔


9 مئی کے مناظر دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کوئی پاکستانی یہ کر سکتا ہے اور کیا کسی پاکستانی کے اندر ایسا دل ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے محبت اور دھرتی ماں سے والہانہ عشق کی ان علامات کو نشانہ بنانے والوں کو سراہے۔میانوالی میں ایئر بیس پر حملہ ہوا،وہاں 1965 کی جنگ میں استعمال ہونے والا ایک فائٹر جہاز یادگار کے طور پر رکھا ہوا تھا، پہلے اسے توڑا گیا اور پھر نذرآتش کر دیا گیا۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا ۔

سرگردھا ایئر بیس پر ایسا ہی ہوا۔لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس اور دوسری فوجی تنصیبات نشانہ بنیں۔کراچی میں ایئر بیس سمیت کئی فوجی تنصیبات نشانہ بنیں۔ پشاور قلعہ بالا حصار پر دھاوا بولا گیا،حد تو یہ ہے کہ ہمارے شہدا کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مردان میںکرنل شیر خان کی یادگار کو بے حرمت کیا گیا۔نشانِ حیدر پانے والوں کے میموریل کو توڑا گیا اور ان کی تصاویر کی بے حرمتی کی گئی۔

یہ کام صرف پاکستان دشمن ہی کر سکتاہے۔شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی صرف وہ کر سکتا ہے جس کو یہ غصہ ہو کہ یہ شہداء کیوں وطن کے دفاع میں سینہ سپر ہوئے۔کیوں پاکستان کو نقصان نہیں پہنچنے دیا گیا۔ان مناظر کو دیکھ کر بھی جو خواتین و حضرات تباہی پھیلانے والوں کو اپنے دل میں بٹھائے ہوئے ہیں، ان کے بارے میں کیا سمجھا جائے۔ شاید پاکستان ان کی ترجیح نہیں ہے۔

9مئی کے انتہائی شرمناک واقعات سے جناب عمران خان،میری رائے میں،اپنی منزل سے اور دور ہو گئے ہیں، بظاہر وہ الیکشن چاہتے ہیں لیکن دراصل ایسا نہیں ہے، وہ الیکشن سے پہلے چاہتے ہیں کہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر انھیں گود لیا جائے۔ ان کو اپنے اوپر اور اپنے ووٹروں کے اوپر اعتماد نہیں ، اگر وہ صرف الیکشن چاہتے تو یہ انھیں پچھلے سال جون جولائی میں بھی مل رہے تھے۔

ان کو بتا دیا گیا تھا کہ بجٹ پاس ہوتے ہی اسمبلی توڑ دی جائے گی اور الیکشن اناؤنس ہو جائیں گے۔ان کو کہا گیا تھا کہ وہ پشاور سے لشکر لے کر اسلام آباد نہ آئیں لیکن انھوں نے ایک نہیں مانی اور اسلام آباد پر چڑھائی پر بضد رہے تو حکومت نے بھی کہا کہ اچھا پھر کر لو جو کر نا ہے۔

اب بھی حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے دوران پی ڈی ایم حکومت نے پیشکش کی کہ بجٹ پاس ہونے کے بعدجولائی میں اسمبلی توڑ دیتے ہیں اور ساٹھ دنوں کے اندر الیکشن ہو جائیں گے لیکن جناب عمران خان نے کہا کہ یہ مجھے ٹریپ کرنے کی کوشش ہے اور مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے۔وہ دراصل الیکشن اپنی مرضی کے چاہتے ہیں۔ 9مئی کے واقعات سے فوج کے اندر بے پناہ یگانگت اور ہم آہنگی آ گئی ہے اور ساری فوج اپنے چیف کے ساتھ ہے۔

ان واقعات نے جہاں پاکستان کی جگ ہنسائی کروائی ہے وہیں قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں۔پاکستان کا عام آدمی سمجھتا ہے کہ فوج مضبوط ہے تو دفاع مضبوط ہے۔اسے اپنی فوج پر بھروسہ اور ناز ہے۔

اداروں نے زیادتیاں کی ہیں لیکن موجودہ فوجی قیادت غلطیوں کی تلافی کرکے ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔میں نے کئی بار لکھا تھا کہ جناب عمران خان کی شخصیت میں وہ سحر ہے کہ ان کے کپڑوں کے اوپر کوئی داغ ٹھہر نہیںسکتا لیکن ان افسوسناک واقعات کی وجہ سے لگتا ہے کہ اب عمران خان نے وہ کپڑے زیبِ تن کر لیے ہیں جن پر لگے یہ داغ یہ چھینٹے کبھی دھل نہیں سکیں گے،وہ اپنے ہدف سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔
Load Next Story