خیال کی طاقت
دماغ اور جسم کے تعلق کے بارے میں بحث صدیوں سے جاری ہے
کچھ کہتے ہیں، یہ روس کی جیل کا واقعہ ہے اورکچھ کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ امریکا کی ایک جیل میں کیا گیا۔ جیل میں ایک قیدی اپنے کیے کی پاداش میں سزائے موت کا منتظر تھا۔ پھانسی دیے جانے کے دن سے کچھ دن پہلے جیلر ایک ڈاکٹر اور چند حکومتی اہل کاروں کے ساتھ قیدی سے ملنے آئے۔
انھوں نے اُسے ایک عجیب و غریب پیش کش کی۔ اُسے یہ بتایا گیا کہ اُس کی پھانسی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور 3 دن بعد اُسے پھانسی دے دی جائے گی۔ پھر اُسے بتایا گیا کہ جب پھانسی دی جاتی ہے تو موت کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کتنا وقت لگتا ہے جان نکلنے میں اور کتنی ہی دیر تک جانکنی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔
موت کا ایک نہایت دل دوز اور بھیانک منظر کھینچا گیا۔ پھر اُسے بتایا گیا کہ اُس نے زندگی میں تو جوکرنا تھا کیا۔ اب مرتے وقت وہ چاہے تو انسانیت کی کچھ خدمت کر سکتا ہے۔
قیدی بہت حیران ہوا کہ مرتے وقت جب کہ پھانسی گھاٹ اُسے صاف نظر آرہا تھا وہ انسانیت کی کیا خدمت کر سکتا ہے؟ اُسے بتایا گیا کہ ہم ایک تجربہ کرنے جا رہے ہیں، اگر وہ اُس تجربے میں ساتھ دے تو وہ اُس کے موت کے فیصلے کو تو تبدیل نہیں کروا سکتے لیکن... لیکن اُس کی موت کی اذیت اور جانکنی کا وقفہ ضرور کم ہو سکتا ہے۔
نیز یہ انسانیت کی خدمت بھی ہے۔ قیدی نے جاننا چاہا کہ وہ تجربہ کیا ہے۔ اُسے بتایا گیا کہ اُس کے موت کے طریقے کا فرق۔ یعنی جس دن اور جس وقت اُسے پھانسی دی جانی تھی اب اُسی وقت اُسے ایک زہریلے کوبرا سے ڈسوایا جائے گا۔
کوبرا کا زہر چند سیکنڈ میں تمھارے جسم میں پھیل جائے گا یوں تمھیں ایک آسان موت نصیب ہوگی۔ ادھر ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کوبرا کے زہر کے ذریعے ہونے والی موت اور پھانسی میں کیا فرق ہے۔ قصہ مختصر قیدی نے اُن کے تجربے کا حصہ بننا منظور کر لیا۔ اب یہ طے پایا کہ ٹھیک 3 دن بعد اُسے پھانسی نہیں دی جائے گی بلکہ کوبرا کے ڈسنے سے اُس کی موت ہوگی۔ مقررہ وقت آیا اور اُسے کال کوٹھڑی سے نکال کر اُس کمرے میں لے جایا گیا جہاں کنگ کوبرا سے اُسے ڈسوانا تھا۔
اِس تمام عرصے میں قیدی کے ذہن میں جو بات نقش رہی اور وہ لمحہ لمحہ جس موت کا انتظار کرتا رہا ، وہ سانپ کے ڈسے سے موت تھی۔ اُس نے آخری ملاقات میں ملنے والوں کو بھی یہ بتایا کہ ایک بڑا کالا ناگ، کنگ کوبرا اُسے ڈسے گا اور اُس کی زندگی تمام ہو جائے گی۔ یہ خیال اُس کے ذہن میں پیوست ہوگیا تھا کہ سانپ کاٹے گا اور وہ مر جائے گا۔
وقت آنے پر اُسے موت کے کمرے میں لے جایا گیا۔ ایک کرسی پر بٹھا کر اس کے ہاتھ پاؤں چرمی تسموں سے کَس دیے گئے۔ ڈاکٹر اور ایک دو، دوسرے افراد وہاں موجود تھے۔ قدرے آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور ایک قوی ہیکل شخص ہاتھ میں کنگ کوبرا لیے کمرے میں داخل ہوا۔
وہ قیدی کی جانب بڑھا، ابھی اُس نے آدھا فاصلہ بھی طے نہیں کیا ہوگا کہ قیدی کے منہ پر سیاہ نقاب کھینچ دی گئی، لیکن... یہ کیا ... جوں ہی قیدی کا منہ ڈھکا، تنومند شخص کوبرا لیے الٹے پاؤں پلٹ گیا۔ ساتھ ہی کھڑے ایک فرد نے سرنج کی سوئیاں نکالیں اور قیدی کی جانب بڑھا۔ اُس نے تیزی سے دونوں سوئیاں کچھ اِس مہارت سے قیدی کے چبھوئیں کہ جیسے سانپ نے ڈنگ مارا ہو۔ قیدی کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ چند سیکنڈ میں ختم ہو گیا۔
یہ تجربہ حیرت انگیز ثابت ہوا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد صرف خیال کی قوت سے ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔ اُس فرد کو ذرہ برابر بھی شبہ نہیں تھا کہ اسے زہریلا ترین کنگ کوبرا نہیں کاٹے گا۔ لہٰذا جوں ہی اُس کے ذہن نے اُسے بتایا کہ کنگ کوبرا نے اُسے ڈس لیا ہے وہ مرگیا۔
یہ ہے خیال کی طاقت۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، جب اس قیدی کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو رپورٹ آئی کہ دل کا دورہ اور زہر باد۔ یعنی سانپ کا زہر پورے جسم میں پھیل چکا تھا، سانپ نے کاٹا نہیں تھا لیکن زہر تمام جسم میں تھا۔ خیال کی طاقت سے متاثر ہو کر ذہن نے زہر بھی بنا دیا۔
انسانی ذہن کے جسم پر اثرات، جسمِ انسانی کے ذہن پر اثرات۔ ذہن اور روح کا فرق۔ یہ بڑے دل چسپ موضوعات ہیں اور ذہن انسانی کے اُن گوشوں سے بحث کرتے ہیں جن کا بیش تر ابھی پردہ اخفا میں ہے۔
دماغ اور جسم کے تعلق کے بارے میں بحث صدیوں سے جاری ہے۔ قدیم فلسفیوں اور مذاہب سے لے کر جدید سائنس تک، اس بارے میں مختلف آراء رہی ہیں کہ آیا دماغ اور جسم کا تعلق ہے،کیا وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، وغیرہ۔ ہم اپنی عام زندگی میں بھی ان اثرات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً شدید جذباتی کیفیات میں آپ کی بھوک مر جاتی ہے۔
تناؤ کے شدید رد عمل میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیش آتی ہیں ، جیسے دل کی دھڑکن کا تیز ہو جانا، خون کی روانی تیز ہونا، پسینہ آنا اور دیدوں کا پھیل جانا وغیرہ۔ یہ ردعمل جسم کو کارروائی کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اکثر '' فائٹ یا فلائٹ کے ردعمل '' کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔
جدید زندگی میں بہت سے حالات سادہ '' فائٹ یا فلائٹ '' کے مقابلے میں زیادہ سوچے سمجھے ردعمل کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ واضح ہے کہ تناؤ کے بارے میں ہمارے ردعمل پر ہمارے پاس کچھ علمی کنٹرول ہے یا جسے نیورو سائنسدان '' ٹاپ، ڈاؤن '' کنٹرول کہتے ہیں۔)
ایک سوال یہ بھی قائم کیا جاتا ہے کہ کیا جسم پر مرتب ہونے والے ذہنی اثرات اور خیال کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہم مختلف عوارض کا علاج بھی کرسکتے ہیں؟ مثلاً ہم نے گزشتہ کالم میں ذکرکیا تھا کہ ایک صاحب کہ جنھیں اپنے والد سے بہت لگاؤ تھا وہ والد کے انتقال کے بعد عجیب سی کیفیات کا شکار ہوئے اور اُن کے لیے ایک عام زندگی گزارنا ناممکن ہوگیا۔
ان کا علاج '' نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت '' کی کن مشقوں کے ذریعے کیا گیا یہ تفصیل آیندہ کسی کالم میں پیش کی جائے گی۔ ابھی تو یہ جان لیجیے کہ ارتکازِ توجہ کی مشقوں کا حیرت انگیز اثر انسانی جسم و جان پر نوٹ کیا گیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بہت سے جسمانی اور ذہنی عوارض کے لیے ہم ذہنی مشقوں کا سہارا لے کر اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
ارتکازِ توجہ کی مشقوں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک مرتبہ فنکشنل ایم آر آئی کا تجربہ کیا گیا۔ ایم آر آئی نے ظاہر کیا کہ باقاعدگی سے ارتکازِ توجہ کی مشق کرنے والوں کی دماغی سرگرمی دماغ کے اُن علاقوں میں زیادہ ریکارڈ کی گئی جہاں توجہ کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔
نیز تجربات نے یہ بھی واضح کیا کہ ارتکازِ توجہ کی مشقیں مثبت جذبات و احساسات اجاگر کرنے اور جسمانی درد کو کم کرنے کے لیے بے حد موثر ثابت ہوتی ہیں۔خیالات کے دھارے کو ارتکازِ توجہ کی مشقوں کے دھرے پر چڑھا کر آپ اس سے تن درستی کے لیے حیرت انگیزکام لے سکتے ہیں۔