روشنی

سنجیدگی سے سوچیں کہ قوم کی بہتری کے لیے گزشتہ 35 سال سے کیا ہو رہا ہے؟

meemsheenkhay@gmail.com

میرے ملک کے نوجوان ستاروں کی مانند ہیں، پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کا کارنامہ نظر سے گزرا، مگرکسی نے بھی فراخدلانہ طور پر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور وہ دل گرفتہ ہوکر منظر سے غائب ہوگیا۔ اس نوجوان نے قوم اور اس ملک کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش کی۔

ذہن میں ایک روشنی ابھری۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم اسد علی میمن نے قومی پرچم لہرایا۔

یہ نوجوان ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے گروپ کا حصہ تھا،اس سے قبل ایورسٹ پر قدم رکھنے والے ایک ساجد سدپارہ تھے جنھوں نے آکسیجن کی مدد کے بغیر دنیا کے عظیم ترین اور بلند ترین پہاڑ کو کامیابی سے سر کیا پھر نائلہ کیانی نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرکے یہ اعزاز حاصل کیا، اس کے بعد نائلہ کیانی نے یہی کام کیا مگر ان کی محنت اخبارات میں سرسری طور پر آئی ۔

ایورسٹ کی چوٹی کو پہلی مرتبہ 1950 میں سر کیا گیا تھا۔ اس سے بڑی اور کیا بدنصیبی ہوگی کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کیسے کیسے چراغ جل رہے ہیں مگر یہ سارے چراغ سیاسی طوفان بدتمیزی کی وجہ سے گل ہو رہے ہیں۔ سیاسی طور پر ہم منفی پروپیگنڈے کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہیں۔

دل کی بند شریانیں کھولنے کے لیے استعمال ہونے والے اسٹنٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ ملاوٹ والی غذائیں ہم کھاتے ہیں، دل تو بے قابو ہونا ہے جو مراعات یافتہ ہیں انھیں تو آپ چھوڑیے مگر جس کے تن پر کپڑے نہیں، پیٹ کی دوزخ بجھانے کے لیے روٹی کے سوکھے ٹکڑے تک نہیں، ہارٹ اٹیک کی صورت میں وہ کیسے قیمتی اسٹنٹ خرید سکے گا ؟کوئی پرسان حال نہیں ہے، ہم کہاں کھڑے ہیں اورکس حال میں کھڑے ہیں؟ ان سیاسی حضرات کا کوئی لینا دینا نہیں، بس اب تو صرف ایک ہی نعرہ ہے، دلی قربت سے نہیں ضد کے تحت ہے الیکشن ہوگا، الیکشن نہیں ہوگا فی الحال تو افراتفری کی اس دوڑ میں سب نمبر ون ہیں۔

سیاسی طور پر ہر شخص آل راؤنڈر بنا ہوا ہے یہ سیاسی لوگ الیکشن کو ترازو سمجھ رہے ہیں کہ یہ مساوی ہوگا، الیکشن تو 1971 سے لے کر اب تک کئی مرتبہ ہوچکے مگر قوم مایوسی کا جھنڈا لیے کھڑی ہے۔ نہ جانے یہ الیکشن کو کیا سمجھتے ہیں؟ الیکشن سیاسی لوگوں کے لیے اپنی بقا اور سلامتی کے لیے اظہار رائے ہوتا ہے، جیت گئے تو جھنڈا اور ہار گئے تو سیاسی ڈنڈا۔ اسٹنٹ جو دل کے حوالے سے ہے اگر اس کی قیمتیں پڑھ لیں (جو دل کی بند شریانیں کھولنے کے لیے استعمال ہوتا ہے) مگر جن کی تنخواہ پچیس ہزار روپے سے لے کر پچاس ہزار تک ہے وہ دل تھام کر پڑھیں اس کو پڑھنے کے بعد دل بھی کام کرتا رہے تو بہت اچھی بات ہے۔

امریکا میں تیارکردہ ذنیکس کی قیمت ایک لاکھ 34 ہزار369 ، ذنیکس پرائم کی قیمت 86 ہزار 711، ریزولیٹ اونکس کی قیمت ایک لاکھ 24 ہزار 654 روپے ڈریپ کے مطابق ریزویٹ انٹگرکی قیمت 58 ہزار 85 روپے، پروموس پرممیں کی قیمت 75 ہزار 846 روپے کردی گئی ہے، یہ قیمتیں اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ تفصیلی اس لیے لکھا ہے کہ سوچیں غریب کو تو مرنے کی ضرورت نہیں وہ تو ویسے ہی مر جائے گا۔


سنجیدگی سے سوچیں کہ قوم کی بہتری کے لیے گزشتہ 35 سال سے کیا ہو رہا ہے؟ 3 مرتبہ اقتدار میں رہنے والے کہتے ہیں کہ ہم قوم اور ملک کی تقدیر بدل دیں گے اور سیاسی طور پر اتنا شور مچاتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سچائی کا پہلو نظر آتا ہے، صرف چند ہزار لوگ ہیں ان لوگوں نے قوم کو کہاں کھڑا کردیا ہے؟ سمجھ سے باہر ہے کہ قوم کولہو کا بیل بنی ہوئی ہے، کسی اچھے کام پر توجہ نہیں دی جاتی۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنے کو تیار ہیں، ہم سے آ کر بات کریں۔ بات کریں، حوصلہ افزائی کریں، خاموشی، سندھ کے علاقوں سے وافر مقدار میں گیس نکل رہی ہے خاموشی، مہنگائی ساتویں آسمان پر، خاموشی ، پٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں ٹرانسپورٹ کے کرائے اسی مقام پر، خاموشی، دن رات ڈاکے پڑ رہے ہیں لوگ جان سے جا رہے ہیں، خاموشی، پانی کی سپلائی قوم کے لیے بند واٹر ٹینکر سے سپلائی جاری، خاموشی ،گیس ناپید الیکٹرک کا بحران، خاموشی، سیاسی بے مقصد تصادم، خاموشی، ارے جناب یہ تو بس ناامیدی کا ایک اظہار ہے۔

برسراقتدار جماعتیں اور اپوزیشن جو سیاست کر رہی ہیں، یہ ملکی مفاد میں نہیں یہ سیاسی لوگ مثبت بات کو ادھوری بات سمجھتے ہیں جب کہ قوم قدم قدم پر امتحان کے درمیان کھڑی ہے۔

کبھی قبرستان کا دل میں خوف رکھ کر دورہ توکیجیے، ایسے ایسے کتبے نامور لوگوں کے آپ کو نظر آئیں گے کہ آپ حیرت میں رہ جائیں گے کہ ان کی قبروں کے سینے تک کھل چکے ہیں، لواحقین کو فرصت نہیں یا جن کو انھوں نے نوازا تھا، ان کی حالت زار پر دو آنسو ہی بہا لیں ، نہ جانے کس دوڑکا شکار ہو رہے ہیں۔

مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں اربوں کی جائیداد بنانے کے بعد جب سانسوں کے لمحے پورے ہوں گے مرنے سے قبل مرنے والا اگر امارات سے لتھڑا ہوا ہوگا، تو میت کے ساتھ کچھ گاڑیاں اس امید پر ہوں گی کہ مرنے والے کے کچھ لواحقین اعلیٰ منصب پر ہوں گے، اس کے بعد پھر ان سے رابطہ ہوگا مگر لوگوں کو اپنی آخرت کی پرواہ نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہی دنیا ہے مگر یہ بہت بڑا خسارہ ہوگا۔

اہل دانش اور ہمارے بزرگ تو ہمیں صداقت کا سبق دے کر گئے ہیں ، مگر ہم اس عارضی قیام گاہ میں بادشاہوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ خدارا اگر آپ اچھے مقام پر ہیں تو لوگوں کو توہین و تذلیل سے بچائیں، خاص طور پر سیاسی حضرات اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے قوم کی بہتری پر فوری خصوصی توجہ دیں کہ آپ کی منزل بھی وہی ہے، جو ایک مفلوک الحال کی ہے آپ اور ان کی منزلیں جدا جدا نہیں ہیں۔

ہاں مرنے کے بعد صرف اتنا فرق ہو سکتا ہے کہ مفلوک الحال کی قبر کچی ہوگی اور چند بارشوں میں بیٹھ جائے گی جب کہ زندگی میں لیجنڈ رہنے والے کی قبر عالی شان ہوگی کہ وہ مقناطیسی کشش کے ساتھ زندگی گزار کر قبرستان آیا۔ سب کی قبروں پر چند دن تو بہار رہتی ہے، اس کے بعد وہ جمود کا شکار ہو جاتی ہیں، مگر اپنی آخری زندگی کو لائق تحسین بنانے کے لیے خدارا لوگوں کے دلوں میں جو مالی طور پر مسائل کے طور پر افسردہ ہیں۔ ان کے دل جیتنے کی کوشش کیجیے باقی تو انسان کی حیثیت مٹی ہے وہ بڑے سے بڑے منصب پر کیوں نہ فائز ہو۔
Load Next Story