پاکستان کے دگرگوں ہوتے حالات اور نوجوان
اس وقت انتہا پسندی اور عدم برداشت بری طرح پاکستان کے نوجوانوں کو جکڑچکی ہے
پاکستان گزشتہ ایک سال سے شدید سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور تصادم کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی نمایاں ہونے لگے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہوچکے ہیں جب کہ اگلے چند ماہ میں پاکستان نے اربوں ڈالر کی بین الاقوامی ادائیگیاں کرنا ہیں۔
غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈالرزکا بندوبست کہاں سے ہوگا ؟ کوئی نہیں جانتا۔ حکومت پوری شدت سے اپوزیشن کو کچلنے میں مصروف ہے جب کہ اپوزیشن فوری انتخابات کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس سیاسی غیر یقینی اور تصادم کی کیفیت براہ راست ملکی معیشت کو مزید تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
تاریخ کی بلند ترین مہنگائی، بے روزگاری ، ایل سیز پر پابندی اور معاشی سست روی سے ویسے تو پاکستان کا ایک ایک شہری پریشان ہے لیکن نوجوان جو پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد ہیں، اس وقت شدید مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں انتقام اور نفرت اس وقت سیاسی ماحول پر حاوی ہوچکی ہے۔ پاکستان کے اصل مسائل پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی اس پر کیوں نہیں سوچتا کہ ہمارے معاشرے خصوصا نوجوانوں میں برداشت کیوں ختم ہورہی ہے؟ دلیل اور مکالمے کی جگہ نفرت اور گالی کیوں معاشرے میں پنپ رہی ہے؟
ہمارے معاشرے کی برداشت اور رواداری کی اقدار کیوں دم توڑ رہی ہیں؟ ہر طرف ہیجان اور عدم برداشت کیوں سماجی رویوں کا حصہ بن چکی ہے؟ موجودہ سیاسی اور معاشی بحران وطن عزیز کے نوجوانوں پر کس بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے اس کی ایک جھلک ہم 9 مئی کے افسوسناک واقعات میں دیکھ چکے ہیں۔
نوجوان جو کسی قوم کی امید اور مستقبل ہوتے ہیں ، بے روزگاری اور بیکاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی صلاحیتیں گنوا رہے ہیں۔ آج بھی پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 2 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان حالات میں اگر نوجوان نسل سیاسی بیانیے کے سراب یا سیاسی انتہا پسندی کے رستے پر چل نکلے تو اسے منطقی نتیجہ سمجھنا چاہیے۔
اس وقت انتہا پسندی اور عدم برداشت بری طرح پاکستان کے نوجوانوں کو جکڑچکی ہے۔ بنیاد پرستی کسی بھی معاشرے کو انتہا پسندی کی طرف لے کر جاتی ہے اور انتہا پسندی بوتل میں بند وہ جن ہے جو کسی بھی وقت دہشت گردی کا روپ دھار کر سماج کو اپنے لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان بری طرح مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا، ہمارے جوانوں اور عام شہریوں کی بے پایاں قربانیوں کے بعد ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل انقلاب کی بدولت انتہا پسندی توکافی حد تک دم توڑ چکی ہے لیکن سماجی ناانصافی اور معاشی مواقعوں کی عدم فراہمی اس وقت بڑا چیلنج ہے جس کی وجہ سے ہمارا نوجوان طبقہ شدید مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار ہے۔
معاشی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ پاکستان مہنگائی کے لحاظ سے دنیا کا 12 واں مہنگا ترین ملک بن چکا ہے جب کہ کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں، جو نوجوان اچھے مستقبل کی خاطر زندگی بھر کی جمع پونجی لٹا کر روشن مستقبل کی خاطر ملک سے باہر جانا چاہتے تھے۔
اب روپے کی قدر میں گراؤٹ کی وجہ سے وہ ملک سے باہر بھی نہیں جا سکتے۔ معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اس وقت پاکستان کی عوام خصوصا نوجوان طبقہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں معاشی عدم استحکام قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ڈیفالٹ کے خطرات اس وقت تلخ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور انتشار کے ماحول میں کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔
مالی سال کے صرف پہلے 10 ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی ہوئی جب کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ جو ملکی معیشت کا 10 واں بڑا حصہ ہے، اس میں گزشتہ سال کی نسبت 9 فیصد کمی ہوئی۔ ملکی معیشت کا سب سے بڑا ٹیکسٹائل سیکٹر اس وقت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔
زرعی شعبے کا حال بھی دیگر شعبوں کی طرح بہت خستہ ہے گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود اس سال ٹریکٹرز کی فروخت میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ اس وقت مہنگائی 75 سال کی بلند ترین سطح پر ہے جب کہ جی ڈی پی کی شرح اس وقت منفی ہوچکی ہے۔ ان حالات میں ملک کسی صورت سیاسی تصادم اور سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ہر طرف گھٹن اور اندھیرا ہے۔ یہ مایوسی اور گھٹن زدہ ماحول بری طرح پاکستان کے نوجوانوں کو عدم برداشت اور انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اس کشیدگی اور گھٹن کا واحد حل قومی ڈائیلاگ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی اناؤں کو ایک طرف رکھ کر گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کریں۔ صرف سیاسی ڈائیلاگ اور مذاکرات ہی ملک کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال سکتے ہیں۔